Columnمحمد مبشر انوار

بیداری اب نہیں تو کب! ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

گلوبل ویلج میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ انسان؍قوم اپنا موازنہ دیگر قوموں سے نہ کرے کہ اس کے بغیر نہ صرف مزید بہتری کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں بلکہ انسان؍قومیں باقی ماندہ زندگی دائرے کے سفر میں گذار دیتی ہیں۔ انفرادی طور پر دائرے کا سفر میں فقط ایک فرد یا اس کے خاندان کو متاثر کرتا ہے لیکن جب یہی سفر اجتماعی طور پر پروان چڑھ جائے تو اس سے پورا معاشرہ بری طرح متاثر ہو جاتا ہے اور قوم تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔یہاں دیگر اقوام سے موازنہ کیا کریں، پاکستان کاموازنہ اگر صرف پڑوسی ملک چین سے ہی کر لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ہم سے بعد آزاد ہونے والا چین آج کہاں کھڑا ہے؟جبکہ اسی چین کی بوقت آزادی صورتحال کو مد نظر رکھیں تو حقیقت سے نظر یں چرانا ناممکن ہے کہ اس معاشرے کو ایک قوم بنانے میں اس کے قوم پرست رہنماؤں کا کیا کردار رہا ہے،کس قدر خلوص پس پردہ اور پیش منظر نمایاں رہا ہے،کیسے ایک سوئے ہوئے معاشرے کو محنت و مشقت کا عادی بنایا۔ آج وہ چین،جو کسی زمانے میں ایک عضو معطل یا عالمی برادری پر بوجھ تصور ہوتا تھا ، اقوام عالم میں نہ صرف سر اٹھا کر جی رہا ہے بلکہ دنیا کی بیشتر معیشت چین کے گرد گھومتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا حصول اس کی بیدار مغز ،قوم پرست اور جفا کش قیادت کی مرہون منت رہا لیکن بعد ازاںیہاں سیاسی قیادت کا فقدان بحران بنا کر،خصوصی گملوں میں قیادت کو پر وان چڑھایا گیا،اس مصنوعی سیاسی قیادت نے جو گل کھلائے،ان کا خمیازہ آج ملک وقوم بھگت رہے ہیں اورتاحال اس بحران سے نکلنے کے کوئی آثار نظر نہیںآتے کہ نرسری میں ابھی تک افزائش جاری ہے۔بعد از آزادی،ابتداء میں ہی مشکلات کا انبوہ کثیراس کے سامنے تھالیکن اس وقت صرف سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ عوام کا جوش و جذبہ اس قدر بلند تھا کہ ان مشکلات و مسائل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ،اس قوم نے انتھک محنت کرتے ہوئے نہ صرف سمت کا درست تعین کرلیا بلکہ اس پر کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑنے شروع کردئیے۔ بعد ازاں ٹیکنو کریٹس کے سیاسی میدان میں ملوث ہونے،اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشوں کے جال بننے پر جنرل ایوب خان نے زمام کار سنبھال لی اور ملکی معیشت کی بحالی میں اپنا مقدور بھر کردار ادا کیا،گو کہ اس زمانے میں بھی اقربا پروری کی داستانیں زبان زد عام رہیں،صنعت کاروں کی استحصالی سرگرمیوں سے بھی صرف نظر کرناممکن نہیں لیکن اس کے باوجود،دنیا میں ’’میڈ ان پاکستان‘‘ مصنوعات ضرور نظر آتی رہیں۔
صنعت کاروں کیلئے پہلی مشکل بھٹو دور میں آئی کہ صنعتوں کو قومیا لیا گیا،اس کے پس پردہ کیا محرکات رہے،ان پر بحث اور اختلاف رائے ہمیشہ موجود رہا ہے اور رہے گا تاہم بعد ازاں پاکستانی سیاست میں صنعتکاروں کی آمد کے بعد،صنعتکاروں نے سیاست کو صنعت کا درجہ دے کر رہی سہی صنعت کا بھی بھرکس نکال دیا۔ ان سیاستدانوں کے نزدیک صنعتی میدان میں توانائی صرف کرنے کی بجائے،صنعت کے نام پر ملکی وسائل کو لوٹنے کھسوٹنے کا جو کاروبار شروع ہوا،ا س میں ملکی صنعت مکمل طور پر زمین بوس ہو گئی کہ ایک طرف پڑوس میں چین کی صنعت اتنی ترقی کر گئی کہ اس کی بنائی ہوئی مصنوعات مقامی صنعتکار کی پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر بازار میں میسر ہونے لگی تو مقامی صنعتکار کس طرح اس کا مقابلہ کرپاتا؟نتیجہ یہ نکلا کہ بتدریج مقامی صنعتکار،جو بلاشبہ انتہائی زیادہ ذہین ،محنت کش اور نت نئی مصنوعات بنانے کا اہل تھا،فقط درآمدات پر انحصار کرنے لگا۔ یوں اقوام عالم میں بتدریج پاکستانی مصنوعات غائب ہوتی رہیں اوراس کمی کو دوسرے ہمسایہ ملک نے بخوبی پورا کیا ،آج دیار غیر میں رہتے ہوئے آنکھیں پاکستانی مصنوعات کو دیکھنے کیلئے ترستی ہیں کہ ہر دوسرے سٹور میں جس چیز کو ہاتھ لگائیں، اس پر میڈ ان چائنہ،میڈ ان انڈیا یا میڈ ان بنگلہ دیش کا سٹیکر،منہ چڑاتا ہے۔ البتہ ابھی بھی چند ایک مصنوعات باقی ہیں،جن پر میڈ ان پاکستان دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے لیکن یہ تعداد معدودے چند ہے اور اس کی مقدار قطعی طور پر قابل فخر یا حوصلہ افزاء نہیں، حد تو یہ ہے کہ سیالکوٹ کا طبی آلات میں ایک نام ہمیشہ سے موجود رہا ہے لیکن شنیدیہ ہے کہ سیالکوٹ کے جراحی آلات پر میڈ ان جرمنی کا سٹیکر آویزاں نظر آتا ہے۔
معاشی میدان میں ترقی کا بنیادی راز ایک ہی ہے کہ مقامی ہنرمندوں کیلئے وسائل مہیا کئے جائیں تا کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو بروئے کار لا کر ایسی اشیاء کی پیداوار کریںکہ جو منڈی کی ضرورت ہوں لیکن بدقسمتی اور ہوس زر و اقتدار میں ڈوبے ہمارے ارباب اختیار نے مقامی باصلاحیت ہنرمندوں کو ان وسائل سے محروم کر رکھا ہے۔ صنعتی پہیہ متحرک رکھنے میں دورجدید میں توانائی؍بجلی ایک بنیادی عنصر ہے اور اس کا حصول مختلف طریقوں سے ممکن ہے جبکہ صنعت کو مسلسل متحرک اور زندہ رکھنے کیلئے،کم سے کم ترین قیمت پر توانائی مہیا کرنا صنعتی ممالک کی اولین ترجیح ہے اور اس کم ترین قیمت پر بجلی کی دستیابی صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ پانی(جو ڈیمز کی صورت میں ذخیرہ کیا گیا ہو)سے ہی ممکن ہے۔چین کی قوم پرست قیادت نے اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اولاً سیلابوں یا طغیانی کی روک تھام کیلئے اپنے دریاؤں کو مزید گہرا کیا اور اس سے نکلنے والی مٹی سے ان دریاؤں کے بند تعمیر کرکے نہ صرف املاک بلکہ انسانی جانوں کے زیاں کو روک لیا اور بعد ازاںاس پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کئے،جن سے سستی ترین بجلی کا حصول ممکن بنا کر چین میں کام کرنے والے کارخانوں کو مسلسل بجلی فراہم کی تا کہ پیداوار میں کوئی تعطل نہ ہو سکے۔یہی صورتحال بھارت اور بنگلہ دیش کی رہی کہ انہوں نے بھی اپنے ممالک میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنا کر پانی کے زیاں کو وہ صرف روک لیا ہے بلکہ اس سے سستی ترین بجلی حاصل کرتے ہوئے اپنے کارخانوں کو مسلسل زندہ رکھ کر اپنی معیشت میں اضافہ کررہے ہیں۔ اسی پر کیا اکتفا کیا جائے کہ بھارت نے کشمیر کو صرف اسی وجہ سے اپنے زیر تسلط رکھاہوا ہے کہ یہاں سے نکلنے والے دریاؤں پر ہزاروں کی تعداد میں ڈیمز بنا کر،پاکستان کو آنے والا پانی روک رہا ہے اور دوسری طرف اسی پانی کو بجائے رحمت،بوقت مشکل زحمت بنا کر پاکستان بھیجا جاتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے مطابق راوی،ستلج اور بیاس بھارت کو دے دئیے گئے اور بھارت ان کا پانی ذخیرہ کرنے میں مکمل آزاد و خود مختار ہے کہ وہ جیسے چاہے اور جتنا چاہے ان دریاؤں کا پانی ذخیرہ کر سکتا ہے جبکہ دیگر دریاؤں پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا ،شنید ہے کہ اس معاہدے میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایک مخصوص مدت تک اگر پاکستان ان دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے اقدامات نہیں کرتا تو بھارت کو ان دریاؤں کا پانی ذخیرہ کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔چناب وجہلم پر پاکستان نے جو دو بڑے ڈیمز بنائے،اس کے بعد وفاقی حکومتیںسول یا آمرانہ ،صوبائی حکومتوں کو مزید نئے ڈیمز بنانے پر قائل نہ کرسکیں البتہ اربوں ڈالر کا قیمتی پانی جب بھی بپھرتا تو نہ صرف کھڑی فصلوں بلکہ محنت کشوں کے کچے گھروں،مال مویشی کے ساتھ ساتھ ریاستی انفراسٹرکچر کو ملیا میٹ و نیست ونابود کرتا سمندر میں جا گرتا ہے۔جس کے بعد سیاسی و سماجی تنظیمیں میدان عمل میں سیلاب زدگان کے امدادی کیمپ لگائے نظر آتی ہیں،گو کہ ان سیلابی امداد کیمپوں میں ہم وطن دل کھول اپنے ہم وطنوں کی امداد کرتے نظر آتے ہیں اور انتہائی جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن کیا پاکستانیوں کی قسمت ہمیشہ ایسی ہی رہے گی؟ سیاسی قیادتیں اسی طرح فوٹو شوٹ کرواکر ،بعد ازاں دنیا بھر میں اپنا مذاق بنواتی رہیں گی،جیسے مریم نواز اور بلاول کے ساتھ ہورہا ہے؟اب بھی کسی کو خیال آئے گا کہ عارضی ؍ہنگامی بنیادوں پر قائم کئے گئے بجلی گھر کسی بھی صورت ملک وقوم کے مفاد میں نہیں بلکہ ڈیمز ہی وہ واحد حل ہے جو نہ صرف محنت کشوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ ملکی معیشت کو متحرک،زندہ اورمستحکم کرنے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے؟سب سے بڑھ کر اس ذخیرہ شدہ پانی سے بیشتر رقبہ زیر کاشت لایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں خوراک کا بحران اقوام عالم کے سامنے کھڑا ہے،ان حقائق کی موجودگی میںارباب اختیار کے ساتھ ساتھ عوام سے سوال بنتا ہے کہ بیداری،اب نہیں تو کب ہو گی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button