ColumnKashif Bashir Khan

حکومت کی غیر مقبولیت کی وجوہات ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری طرف عمران خان کی عوام میں بے انتہا مقبولیت کے حامل جلسے۔ جبکہ اس مجموعی صورتحال میں مرکزی حکومت کی ناقص ترین حکمت عملی اور کارکردگی ہے۔حکومت اپنے وجود کے ساتھ ہی ناکام ہو گئی تھی اور اچھی بھلی چلتی معیشت جس کی شرح ترقی 6 فیصد تھی، کو پٹری سے اتار کر لندن روانہ ہو گئی، اگر میں غلط نہیں ہوں تو پہلے دو ماہ مرکزی حکومت نے معیشت کو بیمار کر کے سسکتے ہوئے چھوڑا اور پھر گو مگو کی صورتحال میں کبھی لندن اور کبھی پاکستان میں صلاح و مشورے کرتے کرتے ایسا فیصلہ کیا جو عوام کیلئے تو تباہ کن تھا ہی لیکن موجودہ حکومت میں شامل تمام جماعتوں کیلئے ایسا خود کش حملہ ثابت ہوا ہے جس نے ان کی حکومت کو نہ صرف اسلام آباد تک محدود کر دیابلکہ ان کو عوام کی نظروں میں صرف رسوا ہی نہیں کیا بلکہ ان کی سیاست کا جنازہ بھی نکال دیا۔
حکومت سنبھالتے ہی اتحادی حکومت کے زعماء کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہو چکی ہے(یہ تاثر سچ ہی لگتا تھا) اور شاید ان کے حکومت سنبھالنے کو عوام پزیرائی بخشیں گے اور وہ ماضی کی طرح پھر سے عنان حکومت پر زور بازو اور حکومتی جبر کے ذریعے قابض ہو سکیں گے لیکن پاکستان میں جو ہوا وہ میری پچیس سالہ صحافت میں بھی کبھی نہیں ہوا تھا۔ماضی میں دو دو مرتبہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں برطرف ہوئیں اور میں گواہ ہوں کہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی برطرفی کے سوا تمام حکومتوں کی برطرفی پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا بلکہ عوام نے مٹھایاں بھی بانٹی تھیں۔1990 کی وہ دوپہر مجھے آج بھی یاد ہے جب میں اپنے دو دوستوں طارق درانی اورمحمد ندیم چودھری (پاکستانی نژاد امریکی صحافی)کے ساتھ پنجاب ہاؤس میں اپنے بہت ہی پیارے دوست اطہر قریشی جو اس وقت اسسٹنٹ کنٹرولر پنجاب ہائوس تھے، کے پاس مری جانے سے قبل ملنے گئے تو اطہر قریشی نے ہمیں ضد کر کے وہاں ایک دن کیلئے روک لیا۔ ہم دوپہر کا کھانا کھا کر لابی میں بیٹھے تھے، اس وقت کے مسلم لیگی ارکان قومی اسمبلی بھی وہاں آگئے اور ان ارکان میں نواز شریف کے پیارے صدیق کانجو اور بہاول نگر سے رکن قومی اسمبلی عبدالستار لالیکا آج کے ایک بڑے سیاست دان کے ساتھ وہاں آگئے اور پھر ہم نے ان اراکین اسمبلی کی جو گندی زبان وہاں سنی تو مقننہ کےممبران کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں تھا وہ دھڑام سے زمین بوس ہو گیا تھا۔خیر وہ وہیں بیٹھے تھے کہ ہم لوگ اپنے کمروں میں سونے چلے گئے ، شام سے کچھ پہلے بڑھکوں کی آوازوں سے ہم جاگ گئے اور پھر جب ہم نے باہر نکل کر صورت حال کا جائزہ لیا تو معلوم پڑا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت برخاست کر دی گئی ہے۔ہم نے اپنے کمرے میں ا ٓکر جب ٹی وی لگایا تو غلام مصطفے جتوئی بطور نگران وزیر اعظم حلف اٹھا رہے تھے۔ ہم تینوں دوست رات کو جب کھانا کھانے کیلئے
بیٹھے تو محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت جانے پر افسردہ تو تھے ہی لیکن ہماری بطور طالب علم پریشانی مسلم لیگ یا اسلامی جمہوری اتحاد کے اراکین اسمبلی کی وعامیانہ اور مغلضات سے بھرپور زبان تھی جو ہم نے دوپہر کے وقت سنی تھی۔طویل مارشل لاء کے بعد صرف اٹھارہ ماہ کے بعد ختم کی جانے والی بینظیر بھٹو کی حکومت جو 58بی؍ٹو کے تحت برخاست کی گئی تھی۔ اپریل 2002 تک واحد حکومت تھی جس پر عوام نے دکھ اور پریشانی دکھائی اور یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بینظیر بھٹو کی مقبولیت حکومت کی برخاستگی کے بعد بہت بڑھ گئی تھی لیکن انہیں دوبارہ حکومت نہیں بنانے دی گئی تھی۔یہ 1990 کی بات تھی لیکن آج 2022 ہے اور پرانے زمانے میں رہنے والے آج کی سیاست کو بھی ویسا ہی سمجھ رہے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ مرکزی حکومت نے اپنے کیسز ختم کروانے،اوورسیز کاووٹ ختم کرنے اور نیب قوانین میں اپنی مفاد کی ترامیم کیلئے جو سیاسی غلطی کی، اس نے ان کی سیاست کا تیاپانچا کر کے رکھ دیا ہے اور جو اتحادی جماعتیں چار سال سے نئے انتخابات کی بانگیں دیتے نہیں تھکتے تھے، اب انتخابات سے ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے نئے انتخابات کوئی ڈراؤنا خواب ہو۔ عوام کا بہت ہی بڑی تعداد میں موجودہ اپوزیشن لیڈر کے جلسوں میں جوک در جوک آنا اتحادی اقلیتی حکومت کی غیر مقبولیت اور عوامی میں ان کے خلاف نفرت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ عدم اعتماد کے بعد ملنے والی حکومت کو عوامی فلاح اور سہولتوں کے تناظر میں اقدامات کیلئے
استعمال کرنے کی بجائے عمران خان کے خلاف نوے کی دہائی کی طرح کے انتقامی ہتھکنڈے استعمال کرنا اور ایک دن میں دس دس پریس کانفرنسوں میں اپوزیشن لیڈر کی کردار کشی الٹی پڑ چکی ہے اور پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ غیر مقبول اور عوامی نا پسندیدگی کا شکار موجودہ مرکزی حکومت بن چکی ہے۔
حکومتی زعماء اس وقت شدید مخمصے میں گرفتار ہیں، آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو مان کر وہ عوام کو زندہ درگور کر چکے اور اگر ان کےقومی اسمبلی کی معیاد پوری ہونے تک حکومت جاری رکھنے کی ضد اور اعلان کو سچ مان بھی لیا جائے(جو اتحادیوں کے پاس سندھ کے سواکسی بھی صوبائی حکومت کے نہ ہونے کی بنا پر ناممکن نظر آرہا ہے)اورمستقبل کے قریباً آٹھ سے دس ماہ انہیں اقتدار مل بھی جائے تو معاشی صورتحال میں بہتری کی چھوٹی سی امید بھی نظر نہیں آ رہی۔عوامی غیر مقبولیت کا شکار صرف نون لیگ ہی نہیں بلکہ پی پی پی بھی ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور ان کاسندھ بھی ہاتھ سے نکلتا نظر آ رہا ہے جبکہ جے یو اے، این پی اورایم کیو ایم وغیرہ پہلے ہی قومی سیاست کی دوڑ سے باہر ہو چکی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ اس وقت کی قومی سیاست کو تبدیلی کی جانب جاتے دیکھنے کے پیچھے بنیادی کردار موجودہ حکومت کے وزراء کی اکثریت پر چلنے والے کرپشن کے مقدمات ہیں اور ان کا اقتدار میں آنا عوام کی غالب اکثریت نے قبول ہی نہیں کیا اور اس طرح سے بظاہر ساڑھے تین سال کی حکومت میں ناکام نظر آنے والے عمران خان اس وقت اپنی بے مثال عوامی تائید،مقبولیت اور بیانئے سے حکمرانوں کو ڈراونے خواب کی طرح ڈراتے نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات تو تبدیلی نہیں بلکہ انقلاب کا پیش خیمہ لگتے ہیں لیکن ارباب اختیار اور موجودہ ناکام اتحادی حکمرانوں کو انقلاب تک بات پہنچنے سے پہلے ہی کم از کم سیاسی استحکام کیلئے بڑا قدم اٹھانا ہو گا۔اتحادی حکومت کا مستقبل قریب میں دوبارہ حکومت میں آنا تو مشکل نہیں بلکہ نا ممکن نظر آتا ہے اور موجودہ حکمرانوں کو جبر یا کسی اور ذریعے سے حکومت میں رکھنے یا دلانے کی کوئی بھی کوشش ملکی سلامتی کے تناظر میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کہ اول تو یہ نوے کا دور نہیں کہ عوامی مینڈیٹ کا آسانی سے چوری کیا جا سکے، دوسرا جب کسی ریاست میں بدترین معاشی حالات،ناکام حکمران اور سیاسی عدم استحکام ہو تو پھر ریاست کے باشندوں کو قابو میں رکھنا ناممکن ہوجایا کرتا ہے۔اب جبکہ خبریں آ رہی ہیں کہ وفاقی حکومت ورلڈ بنک،آئی ایم ایف،ایشیائی ترقیاتی بنک اور دوسرے مالیاتی اداروں سے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے دس ارب ڈالر کی چیرٹی نہیں قرضہ کی درخواست کر رہی ہے۔اگر یہ خبر سچ ہے تو پھر قریباً 42 فیصد کی بلند ترین مہنگائی کی شرح کے شکار پاکستانیوں کیلئے پاکستان ایک جہنم سے کم نہیں ہو گا ۔قارئین خود سمجھ سکتے ہیں کہ ان حالات میں راکھ میں دبی چنگاری کسی بھی وقت بھڑک کر سب کچھ جلا سکتی ہے۔ہمیں غربت کے مارے اور بے بس پاکستانی عوام کو انقلاب کی طرف جانے سے فوری روکنا ہوگا۔موجودہ ملکی بدترین حالات میں وفاقی حکومت کا بدترین ناکامیوں کے باوجود اور عالمی مالیاتی ادارے کی ڈکٹیشن پرعوام کو مہنگائی کے جہنم میں دھکیلنے کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہنا کسی قومی سانحہ کو جنم دے سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button