Editorial

مہنگائی 47سال کی بلند ترین سطح پر !

 

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی کا 47 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ 1975 کے بعد پہلی مرتبہ اگست میں 2.4 فیصد اضافے کے بعد مہنگائی کی سالانہ شرح 27.3 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔اِس سے پہلے 2008میں مہنگائی کی شرح 25.3تک گئی تھی جس کے بعد اب اگست 2022میں مہنگائی کی یہ شرح 27.3فیصد کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے جو کہ اگست 2021میں 8.3 فیصد تھی۔اگست 2022میں شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہاتی علاقوں میں مہنگائی زیادہ رہی۔ وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ایک سال میں بجلی 123فیصد اور پٹرول 84 فیصد مہنگا ہوا۔ اگست 2022میں شہری علاقوں میں نان فوڈ اورنان انرجی سالانہ بنیادوں پر کور انفلشن کی شرح 13.8فیصد جبکہ دیہاتی علاقوںمیں 16.5 فیصد رہی۔ وفاقی ادارہ شماریات کے فراہم کردہ اعدادو شمار دعویٰ کررہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا 47سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے، بلاشبہ اِس وقت ہم معاشی بحران کا شکار ہیں اور اِس بحران سے نکلنے کے لیے موجودہ وفاقی حکومت بھرپور کوشش کررہی ہے، داخلی معاشی مسائل کے علاوہ عالمی حالات بھی معاشی سرگرمیوں کے لیے بظاہر سازگار نہیں ہیں، روس یوکرین جنگ ، عالمی کساد بازاری اور ایسے ہی دوسرے معاملات مہنگائی بڑھنے کی وجوہات قرار دیئے جارہے ہیں مگر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت جو سابقہ دور حکومت میں ہونے والی مہنگائی کا خاتمہ کرنے کا اعلان اور معاشی اصلاحات کا دعویٰ کرتے ہوئے اقتدار میں آئی تھی اب سب سے زیادہ مہنگائی یعنی 47سالہ مہنگائی کا ریکارڈ اِسی حکومت کے حصے میں آرہا ہے، حکومتی زعما کے تمام تر دعوے اورباتیں صد فی صد بجا لیکن حکومتی ادارہ دعویٰ کررہا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی کا47سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور ہم صرف ریکارڈ ٹوٹنے کو ہی زیر بحث نہیں لارہے بلکہ اِس مہنگائی کے نتیجے میں عوام پر گزرنی والی پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ پچھلی حکومت کے دورمیں بھی مہنگائی تھی لیکن یاد رہنا چاہیے تب پی ٹی آئی حکومت کو کرونا وائرس کے دو سال اور اس موزی وبا کے خمیازے بھگتنا پڑے جب پوری دنیا میں لاک ڈائون کی وجہ سے سب کچھ بند ہوگیا تھا، فیکٹریوں نے وائرس کے خوف سے پیدا وار بند کردی جبکہ درآمدات اوربرآمدات بھی صفر کے قریب تھیں لیکن الحمد اللہ اب پاکستان سمیت قریباً قریباً پوری دنیا میں سے اِس موزی وبا خاتمے کے قریب ہے اور نظام زندگی پوری طرح بحال ہوچکا ہے لیکن اِس کے باوجودمہنگائی کا عروج پر پہنچنا سمجھ سے بالاتر قطعی نہیں ،اِس کے جواز البتہ سمجھ آتے ہیں ایک تو آئی ایم ایف کی شرائط مان کر بجلی، پٹرولیم مصنوعات اور گیس سے سبسڈی کا خاتمہ ہے جس کا ادارہ شماریات
کی رپورٹ میں بھی ذکر کیاگیا ہے۔ توانائی کے یہ تینوں ذرائع مہنگے ہوجانے سے مہنگائی تو بڑھنی ہی تھی اور اِس کا سارا بوجھ عوام پر منتقل ہونا تھا جو ہوچکا ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف سے قسط کا حصول درکار تھا جو بلاشبہ مل چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو موجودہ حکومت کیسے ریلیف دیتی ہے، پچھلے دنوں وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے بجلی بلوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے خاتمے کا اعلان کیا، پہلے دو سو یونٹ والے صارفین کو یہ چھوٹ دی گئی اس کے بعد گذشتہ روز تین سو یونٹ والے صارفین کو بھی اِس میں شامل کرلیاگیا لیکن پس پردہ بجلی کی قیمت میں اضافہ اپنی جگہ موجود ہے جو عام صارف کے لیے ناقابل برداشت ہے اور کوئی شک نہیں اتنی مہنگی بجلی، گیس اور پٹرول یعنی توانائی کے تمام مہنگے ذرائع کے ساتھ ہم برآمدات کا اہداف حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اسی لیے اب بھی مختلف شہروں میں مہنگی بجلی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ پھر سیلاب کی وجہ سے زراعت کو پہنچنے والا نقصان بھی ناقابل تلافی ہے جس کے منفی اثرات مزید مہنگائی کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور ماہرین معیشت کے مطابق آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ دنیا بھرمیں مہنگائی بڑھی ہے اور مہنگائی کے بڑے عوامل میں کرونا، روس یوکرین جنگ اور قدرتی آفات شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ کم و بیش تمام ہی ممالک مہنگائی سے لڑ رہے ہیں اور کئی ممالک میں افراط زر کی بلند شرح نے حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے یہی نہیں بلکہ آنے والے سالوں میں مزید مہنگائی کے خدشات ظاہر کئے جارہےہیں۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت کو اِس سلسلے میں ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھنے کی بجائے کم ہو اور اتحادی حکومت کا اقتدار میں آکرمہنگائی ختم کرنے کادعویٰ سچ ثابت ہو۔ حکومت کی معاشی ٹیم پٹرولیم مصنوعات کی لیوی میں بڑے اضافے کی بھی نوید سنارہی ہے جودراصل مزید مہنگائی کی نوید ہے اِس سے نہ صرف خوراک اور توانائی بلکہ تمام ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی جو ابھی بھی ملک کے اکثریتی عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ جب ہم امریکہ اوردیگر یورپی ممالک میں مہنگائی کا پاکستان کےساتھ موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے اور اُن کے عوام کی فی کس آمدن اور سہولیات کابھی موازنہ کرناچاہیے۔ حکومت کے لیے سیاسی مصروفیات سے پہلے مہنگائی کا خاتمہ اولین ترجیح ہونا چاہیے وگرنہ ملک میں مزید غربت بڑھے گی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button