Columnعبدالرشید مرزا

سراج الحق کا خیمہ،کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

بلوچستان کے علاقہ خضدار میں سیلاب نے تباہی مچا دی، مجھے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے امدادی کیمپ پر جانے کا اتفاق ہوا، جہاں سیلاب زدگان کیلئے خوراک، ادویات اورخیموں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک دن میں خیمے کے باہر کھڑا تھا، ایک خاتون سکینہ ڈھونڈتی ہوئی خیمے کے پاس آئی اور پوچھا کہ مجھے کھانے کے لیے کچھ غذا چاہیے میرے بچے بھوکے ہیں، کیمپ میں بیٹھے فرد نے کہا ابھی تو کھانا ختم ہوگیا ہے صبح ٹرک پہنچیں گے ہم آپ کو پورے مہینے کا راشن دیں گے۔ اس عورت کی جیسے امید ہی ٹوٹ گئی ہو۔ کیمپ میں واقعی منتظمین کے لیے بھی کھانا موجود نہیں تھا۔ سکینہ جب واپس جارہی تھی اس نے مجھے جاتے جاتے جو بات کہی اس نے میری جان نکال لی، اس نے کہا کہ میں تو سنا ہے کہ ’’سراج الحق کے خیمے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا‘‘ اس عورت کو میں نے الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے خیمے میں بلایا، کچھ کھانے کے ٹکڑے کیمپ میں پڑے تھے اور خشک میوہ جات میں گھر سے لایا تھا، وہ میں نے اس عورت کو دئیے اور تاکید کی صبح کیمپ میں آکر اگلے مہینے کا مکمل راشن لے جائے، سارا منظر دیکھ کر مجھے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کا دور حکومت یاد آگیا۔

امام ابن کثیر نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال حضرت عمر فاروقؓ نے رات کے وقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کیا تو کسی کو ہنستے نہیں پایا، نہ ہی لوگوں کو اپنے گھروں میں حسبِ عادت گفتگو کرتے سنا اور نہ کسی مانگنے والے کو مانگتے دیکھا۔ یہ صورت حال چونکہ خلافِ معمول تھی اس لیے اْنہوں نے فوراً محسوس کیا، چنانچہ اس کے سبب کے بارے میں دریافت کیا۔ اْنہیں بتایا گیا کہ اے امیر المؤمنین! سوال کرنے والے سوال کرتے رہے لیکن اْنہیں کچھ نہیں دیا گیا، اس لیے اْنہوں نے مانگنا اور سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ لوگ پریشانی اور تنگ دستی کا شکار ہیں، اس لیے نہ تو حسبِ معمول گپ شپ لگاتے ہیں اور نہ ہی ہنستے ہنساتے ہیں۔ ایسے حالات میں عمر صرف سرکاری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ رات کے اندھیرے میں خود جا کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی کوشش تھی کہ قحط سالی سے متاثرہ عوام کے دکھوں کا مداوا بیت المال سے کیا جائے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ بیت المال میں جو کچھ تھا، وہ اْنہوں نے خرچ کر دیا، یہ ان کا معمول تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام اپنے مکتوب میں اْنہوں نے حکم دیا کہ سال میں ایک دن ایسا مقرر کرو جب خزانہ میں ایک درہم تک باقی نہ رہے اور وہاں جھاڑو لگا دی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو کہ میں نے ہر حقدار کا حق ادا کردیا ہے۔ صرف مقامی بیت المال سے امداد پر انحصار کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی
ہے کہ اْنہیں اْمید تھی کہ شاید قحط کا سلسلہ جلد ختم ہو جائے گا، مصیبت ٹل جائے گی اور باہر سے امداد منگوانے کی ضرورت نہ رہے گی لیکن خشک سالی جیسے جیسے طول پکڑتی گئی، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور مدینہ منورہ کا بیت المال بھی خالی ہو گیا، تب حضرت عمرؓ نے امداد بھجوانے کیلئے صوبوں کو خطوط لکھنے کا فیصلہ کیااور یہ خطوط انتہائی مختصر اور زور دار تھے۔ سب سے پہلے حضرت ابو عبیدہ غذائی سامان سے لدے ہوئے چار ہزار اونٹ لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔ حضرت عمرؓ نے مدینہ منورہ کے اردگرد قیام پذیر قحط زدگان کے درمیان یہ غذائی سامان تقسیم کرنے کا کام ابو عبیدہ کے سپرد کیا۔ تقسیم کا کام حضرت ابوعبیدہ کے سپرد کرنے میں دو فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ دوسروں کے مقابلے میں وہ زیادہ جوش جذبے کے ساتھ یہ خدمت انجام دیں گے۔ دوسرے یہ کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کر لیں گے اور واپس جا کر اہل شام کو حالات سے آگاہ کر سکیں گے۔

پاکستانی عوام اپنا حصہ ڈالیں اور غریب کا سہارا بنیں، حاکم وقت تو سو رہا ہے لیکن آپ ہی جاگ جائیں، حالیہ سیلاب اور بہنے والے دریائوں نے ملک بھر میں تباہی مچا دی ہے۔ ابتدائی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نقصان کا حجم دس ارب ڈالر سے زیادہ تک جا پہنچا ہے۔صوبہ سندھ اور پنجاب میں گنے اور کپاس کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں جبکہ پیاز، ٹماٹر اور خریف کی مرچوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ صرف کپاس کی فصل کے نقصان کا تخمینہ 2.6 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل اور چینی کی برآمد میں ایک ارب ڈالر کی کمی ہو سکتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں حکومت کے گوداموں میں ذخیرہ شدہ کم از کم 2 ملین ٹن گندم بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے خراب ہو گئی ہے، جس سے غذائی تحفظ کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔زرعی شعبے کی تباہی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو نہ صرف صنعتوں کیلئے خام مال کی فراہمی میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ملک میں بیج کا بحران بھی سر اٹھا سکتا ہے۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پاکستان میں انسانی المیہ کی صورت مزید ابتر ہو گئی ہے۔ شدید بارشوں کے باعث سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں ملک بھر میں بے گھر ہونیوالوں کی تعداد مین تشویشناک اضافے کا سامنا ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری طور پر 66 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں31، سندھ میں 23، خیبر پختونخوا میں نو اور پنجاب میں تین اضلاع کی صورتحال بدستور سنگین ہے۔ بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے سے آفت زدہ اضلاع کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔ موسمی حالات کی وجہ سے خاص طور پر بلوچستان اور سندھ کے صوبے میں بڑے پیمانے پر انسانوں اور مویشیوں کا جانی نقصان ہوا ہے۔ گھروں اور عوامی انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں قریباً 33 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ملک میں 375.4 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جو کہ 130.8 ملی میٹر کی قومی 30 سالہ اوسط سے 2.87 گنا زیادہ ہے۔ یہ بارشیں بنیادی طور پر بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے کچھ حصوں میں ہوئی ہیں، بلوچستان میں 30 سال کی اوسط سے پانچ گنا اور سندھ میں 30 سال کی اوسط سے 5.7 گنا زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں۔سیلاب کا شدت پکڑنا اور بارشی پانی کا انسانی بستیوں پر حملہ طاہر کرتا ہے کہ ان محکموں نے غفلت کا مظاہرہ کیا جو موسمیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔وہ بر وقت بارش کی شدت ، سیلاب کی کیفیت اور متوقع تباہی سے آگاہ نہ کر سکے۔میری آپ سے گزارش ہے اپنے فنڈز سراج الحق کی الخدمت فاؤنڈیشن کو دیں۔ جسے دیانتدار کے لقب سے پہچانا جاتا ہے، جو صرف سیاست کیلئے ہی نہیں بلکہ خدمت کیلئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سیلاب میں ڈوبے ہوئے علاقوں میں جارہا ہے تاکہ لوگوں کی خدمت کرکے اپنے رب کو خوش کرسکے، کئی کئی گھنٹے سفر میں رہتا ہے، خود بھوکا رہتا ہے تاکہ لوگوں کی بھوک ختم کی جاسکے، اپنے فنڈز سراج الحق کی الخدمت فاؤنڈیشن کو دیں تاکہ سراج الحق کا خیمہ چلتا رہے، لوگ کھانا کھاتے رہیں، ان کا علاج ہوتا رہے، انہیں خیمے ملتے رہیں۔ ریگستانوں میں لوگوں کو پینے کے لیے پانی ملتا رہے، سردیوں میں فٹ پاتھ پر پڑے ٹھٹھرتے اور بے آسرا لوگوں پر خاموشی سے کمبل ڈالے جاتے رہیں، لاکھوں یتیم بچوں کو بہترین تعلیم ملتی رہے انہیں یہ احساس نہ ہو کہ ہم بے آسرا ہیں، تاکہ غریب کا علاج الخدمت کے ہسپتالوں سے مفت ہوتا رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button