Ali HassanColumn

ناقص منصوبہ بندی اور غلط اندازے .. علی حسن

علی حسن

 

سینئر صحافی نازش بروہی نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ حکومت اور محکمہ موسمیات کے غلط اندازے سندھ میں سیلاب سے تباہی کی وجہ بنے۔انہوں نے سندھ پراونشل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کے مون سون کے ہنگامی منصوبے کاکچا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔ سندھ میں صوبائی حکومت اور محکمہ موسمیات کے اندازوں سے 500 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔ حکومتی اقدامات اونٹ کے منہ میں زیرا ثابت ہوئے۔ نازش بروہی نے چشم کشا لکھا کہ ’’ ابھی ابھی سندھ پراونشل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کا 100 صفحات پر مشتمل مون سون کا ہنگامی منصوبہ پڑھا ہے ،یہ اصل میں کافی ٹھیک منصوبہ تھا لیکن یہ شاندار طور پر تباہ ہوگیا۔کیوں؟ کیونکہ اس کے مفروضے ناکام ہو گئے۔سب کچھ محکمہ موسمیات کی پیشین گوئی پر مبنی تھا۔ ہنگامی منصوبے میں سندھ اور پنجاب میںمعمول سے زیادہ اور ملک کے باقی حصوں میں معمول سے قدرے زیادہ بارشوں کا تخمینہ لگایا گیا تھا جبکہ اس سے 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔

نازش بروہی نے بتایا کہ حقیقی معنوں میں حکومت نے خیرپور میں 13ہزار950 افراد کے بے گھرہونے کا اندازہ لگایا لیکن اب تک وہاں 12لاکھ 18ہزار 177افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ حکومت نے خیرپور میں 23 ریلیف کیمپس لگانے کا منصوبہ بنایا لیکن اب تک وہاں 482 کیمپس لگ چکے ہیں۔ جیکب آباد میں حکومتی اندازے کے مطابق 5619 افراد کو بے گھر ہونا تھالیکن وہاں 2 لاکھ 56ہزار 584 افراد بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ 18 امدادی کیمپس کے تخمینوں کے برخلاف وہاں 112 امدادی کیمپس لگ چکے ہیں۔حکومتی اندازے کے مطابق دادو میں 8ہزار 240 افراد کو بے گھر ہونا تھا لیکن اب تک 4لاکھ 9ہزار 343 افراد بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ 78 مجوزہ امدادی کیمپ کے بجائے 154کیمپس لگ چکے ہیں۔ سندھ بھر میں 62 ہزار 500 خاندانوں کے بے گھر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جن کے لیے 70 ہزار 700 خیموں کا انتظام کیا گیا تھا لیکن اب تک 39لاکھ 97 ہزار869 خاندان بے گھر ہوچکے ہیں۔ پلان کا کہنا ہے کہ بدترین صورت حال کی تیاری بھی ہے، جو واضح طور پر کوئی نہیں تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک صدی میں آنے والے سیلاب کا ایک فیصد امکان ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ محکمہ موسمیات میں کیا ہوا؟ آن لائن معلومات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے دوران موسم پیش گوئیاں بہت مشکل کام ہے،خاص طور پر موسمی حالات میں یہ اور بھی مشکل ہیں۔آن لائن معلومات یہ بھی کہتی ہیں کہ بہتر ریڈار، سیٹلائٹ، ٹیلی میٹری اور موسمی ماڈلنگ سسٹم کی تنصیب سے پیشن گوئی کو 80 فیصد درستگی تک لے جایا جاسکتا ہے۔میں اس حوالے سے پاکستان کے انفرااسٹرکچر کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ۔ بلاشبہ بہت کچھ کیا جا سکتا تھا، ڈی سلٹنگ وغیرہ،لیکن پاکستان اپنے طور پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے کرنا چاہیے۔

نازش بروہی کی تحریر کے بعد تو یہی ہونا تھا جیسا ہو رہا ہے۔ سندھ میں جہاں جس کا بس چل رہا ہے، اپنے علاقے میں کھڑے پانی کی نکاسی کے لیے بندوں میں شگاف ڈال رہا ہے۔ کہیںجان بچانا مقصود ہے تو اکثر مقامات پر بڑے بااثر زمیندار فصلوں کو بچانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہر طرف آہ و بکا ہے ضلع دادو کی کئی بڑی تحصیلوں کے ڈوبنے کے خطرات پائے جاتے ہیں۔ شہری خود شہروں کے گرد بند باندھ رہے ہیں۔ ان کے سر پر آفت کھڑی ہے اس لئے سب ہی سر گرم ہیں۔ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ دریائی سیلاب کا پانی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ تباہ کن ہونے والی بارشوں کا پانی ہے جس کی وجہ سے پورے سندھ کے اکثر شہر پانی میں گھر گئے ہیں۔ اس تباہی کی بنیادہ وجہ یہ ہے کہ پانی کی نکاسی کا مناسب بندوبست کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ تمام بلدیاتی ادارے عملاً ناکام رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر حضرات بھی کہیں کہیں کام کرنے نظر آئے بقایا مقامات پر تو وہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ پانی نے لوگوں کو بے گھر کیا اور بروقت امدای سامان فراہم کرنے میں ناکامی نے حکومت کی کارکردگی اور ساکھ کا بھرم کھول دیا۔2010 کے سیلاب اور 2011 کی دریائے سندھ کے بائیں کنارے
سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ہمارے ذمہ داران نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔امداد دینے والے ممالک اور سفارتکاروں کی ایک بڑی کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری جن کی پیپلز پا رٹی سندھ میں گزشتہ پندرہ سالوں سے حکومت کر رہی ہے، بتا رہے تھے کہ دریائے سندھ میں زیادہ پانی ہونے کی وجہ سے شہروں کا ڈرینج سسٹم ناکارہ ہو گیا ہے۔ وزیر خارجہ کو غلط بریف کیا گیا ہوگا کیوں کہ دریائے سندھ میں گدو سے کوٹری تک پانی کی مقدار اور بہائو انجینئروں کے قابو میں ہے۔ بدھ تک بیراجوں میں پانی کی مقدار ایسی نہیں تھی جس پر کسی تشویش کا اظہار کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ سکھر اور گدو میں پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈرینج سسٹم نے کام نہیں کیا۔ اور یہ پہلا سیلاب ہے کیا جس نے کچے اور پکے کے علاقوں کو بیک وقت متاثر کیا ہے۔ بیراجوں کی صورت حال کے بارے میں کنٹرول روم کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز گدو بیراج پر پانچ لاکھ 21 ہزار کیوسک پانی بہہ رہا تھا۔ سکھر بیراج میں پانی کا بہائو پانچ لاکھ 29 ہزار کیوسک تھا اور کوٹری بیراج میں پانی کا بہائو تین لاکھ 87 لاکھ تھا۔ ابھی دریا والا سیلاب تو سندھ کی طرف پوری طرح آیا ہی نہیں۔ وہ سیلاب جس نے خیبر پختون خوا میں تباہی پھیلائی ہے۔ پاکستان کے اوپر والے علاقوں سے دریا میں بہنے والا پانی آنے میں وقت لے گا ۔ اگر اس پانی کی مقدار زیادہ ہوئی و پھر گدو سے کوٹری بیراجوں تک خطرہ ہی خطرہ ہوگا۔

خبر ہے کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے وزیر اعظم فنڈز میں اپنی تنخواہ رضا کارانہ دینے سے انکار کردیا۔انہوں نے وزیر اعظم سیلاب فنڈ کی تقسیم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے ۔ اپنے خط میں ان کا کہنا ہے کہ ہماری تنخواہ ہم سے پوچھے بغیر نہیں کاٹی جا سکتی، آپ (سپیکر) نے اراکین قومی اسمبلی کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹ لی۔ فنڈز کٹوتی میں نہ تو متعلقہ ایم این اے حضرات و خواتین سے مشاورت کی گئی نہ مرضی پوچھی گئی، فنڈ پارلیمانی جماعتوں سے بھی مشاورت کے بغیر جلد بازی میں قائم کیا گیا۔متاثرہ لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر ریلیف اور بحالی کی ضرورت ہے، مجھے وزیر اعظم سیلاب فنڈ کی تقسیم پر اعتماد نہیں، میں چاہتی ہوں کہ میری ایک ماہ کی تنخواہ الخدمت اور جے ڈی سی کے سیلاب فنڈ میں برابر تقسیم کی جائے۔ ایک طرف خاتون رکن قومی اسمبلی کا عدم اعتماد تو دوسری طرف سیلاب متاثرین کو پوری امدادی رقم نہ دیے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ متاثرین کے ہر خاندان کو 25 ہزار کے بجائے 23 ہزار روپے دیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔سندھ کے ضلع خیرپور میں ایک پٹواری نے نجی چینل کے نمائندے کو بتایا کہ سیلاب متاثرین کو پوری رقم نہیں دی جارہی اور اعلیٰ حکام کو بتادیا ہے کہ سیلاب متاثرین کے ہر خاندان کو حکومت کی جانب سے 25 ہزار کے بجائے 23 ہزار روپے دیے جارہے ہیں۔ اسی طرح کی اطلاعات کے بعد وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم سے کٹوتی جیسے سنگین جرم کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اس حوالے سے 20 ہزار سے زائد افراد کے خلاف مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button