ColumnHabib Ullah Qamar

سیلاب متاثرین کی بحالی تیز کرنے کی ضرورت .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

پاکستان میں بلوچستان، سندھ، خیبر پی کے اور جنوبی پنجاب میں حالیہ سیلاب سے شدید تباہی ہوئی ہے۔بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ہزاروں افراد جاں بحق ہو گئے، ساڑھے تین کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے اور لاکھوں گھر تباہی سے دوچار ہوئے ہیں۔لوگوں کے اربوں روپے مالیت کے جانور سیلابی پانیوں میں بہہ گئے۔ جن علاقوں سے پانیوں کے ریلے گزرے وہاںسیلاب اپنی تباہ کاریوں کے خوفناک نشانات چھوڑ گیا ہے۔ بارشوں سے پہلے جہاں زندگی کی چہل پہل اور رونقیں دکھائی دیتی تھیں، چند گھنٹوں میں وہاں بپھری ہوئی موجوں نے ایسی تباہی مچائی کہ لوگوں کے لیے اپنے جانور اور سامان گھروں سے نکالنا تو دور کی بات اپنی جانیں بچانا مشکل ہو گیا۔سیلاب زدہ علاقوں میں ابھی تک پانیوں میں انسانوں کی لاشیں اور جانوروں کے مردہ جسم تیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں بارشوں کا سلسلہ تھم چکا لیکن اس کے نتیجہ میں وبائی امراض کے پھیلائو اور دوسرے نقصانات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔لاکھوں لوگ ابھی تک کھلے آسمان تلے بے یارومددگار پڑے ہیں جنہیں خوراک اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اگرچہ پاکستانی قوم کا ہر طبقہ سیلاب متاثرین کے لیے ماضی کی طرح اب بھی تعاون کررہا ہے۔ حکومتی ادارے، رفاہی و فلاحی تنظیمیں اور مختلف این جی اوزسیلاب زدہ علاقوں میں خوراک، راشن، خیمے اور دوسری اشیاء پہنچا رہی ہیں لیکن جتنے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں یہ امدادی سرگرمیاں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں۔ مناسب غذا نہ ملنے سے کمزور طبی حالت والے متاثرین کی خاص طور پر اموات ہو رہی ہیں۔ اسی طرح بچے اور خواتین بھی بری طرح متاثر ہور ہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میںخواتین کی بڑی تعداد زچگی کے حالات سے گزر رہی ہے جنہیں خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہے لیکن ان علاقوں میں عورتوں کو یہ سہولیات میسر نہیں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

دور دراز علاقوں میں پانیوں میں پھنسے متاثرین کئی کئی روز سے انتہائی بے بسی کے عالم میں گزارا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں کہ متاثرین کی حالت زار سن کرکلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سندھ کے لاڑکانہ ضلع کی ایک خاتون کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں وہ اپنے ہاتھ میں موجود دو روٹیوں کو بھوک سے بلکتے آٹھ بچوں میںتقسیم کر رہی ہے اور بچے، ماں مجھے بھی دو کی صدائیں لگا رہے ہیں۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک نوجوان کی جذباتی گفتگو پر مبنی ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں وہ بتا رہاہے کہ پانیوں میں پندرہ کلومیٹر کا سفر کر کے وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں سے ان سے پہلے کوئی ٹیم نہیں پہنچ پائی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہاں موجود لوگ چار دن سے بھوکے تھے جنہیں انہوںنے کھانے کے لیے خوراک دی۔ اسی طرح وہاں موجود چند متاثرہ خواتین کی حالت یہ تھی کہ ان کے کپڑے بھی پھٹے ہوئے تھے جنہیں انہوںنے اپنے پاس سے چادریں فراہم کیں۔ سیلاب متاثرہ جس علاقے کی بھی صورت حال کا جائزہ لیں وہاں سے نت نئی داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔کراچی سے خیبر تک سیلاب سے شدید تباہی
ہوئی ہے۔2005میں آنے والے ہولناک زلزلے اور 2010ء میں سیلاب سے زبردست نقصانات ہوئے تاہم امسال آنے والے سیلاب میں گزشتہ برسوں میں آنے والے زلزلے اور سیلابوں سے کہیں زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ حکومتی ذمہ دارا ن ابھی تک یہی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیںکہ بیرون ممالک اور مختلف اداروں سے ملنے والی امداد کو خرچ کیسے کرنا ہے؟ ابھی تک صرف اعلانات پر ہی گزارا کیا جارہا ہے۔ اگر کسی علاقے میں کچھ امداد پہنچی ہے تو وہاں سخت بدنظمی دیکھنے میں آئی ہے۔

بعض علاقوں سے متاثرین نے یہ شکایات بھی کی ہیں کہ حکومتی عہدیداران کی طرف سے متاثرین کو اکٹھا کرکے تصاویر تو بنوا لی گئیں لیکن کسی کو دیا کچھ بھی نہیں گیا۔افسوس کی بات ہے کہ ہم نے زلزلے اور سیلابوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ جب کوئی آفت آتی ہے تو گزرگاہوں پر تعمیرات نہ کرنے اور ڈیم بنانے جیسی باتیںکی جاتی ہیںلیکن جونہی معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوتاہے متاثرین کوایک بار پھر دربدر کی ٹھوکیں کھانے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے ۔اللہ کرے کہ اس بار حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور متاثرین کی بحالی کے لیے عملی طور پر کوئی کردار ادا کر سکیں۔ زمینی صورت حال کا جائزہ لیں تواس وقت متاثرہ علاقوں میں مذہبی، رفاہی و فلاحی تنظیموں کے نوجوان ہی عملی طور پر متاثرین کی امداد کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ جس علاقے میں بھی چلے جائیں وہاں اپنے سینوں میں فلاح انسانیت کا دردرکھنے والے مختلف اداروں اور تنظیموں کے لوگ ہی خدمت کی عظیم داستانیں رقم کرتے دکھائی دیں گے۔ان کے پاس حکومتی وسائل نہیں لیکن پاک فوج کے بعد ان کا
کردار سب سے نمایاں ہے۔پکی پکائی خوراک تقسیم کرنی ہویا لوگوں کو خشک راشن اور خیمے فراہم کرنے ہوں، رفاہی وفلاحی تنظیموں سے وابستہ افرادکو آپ سب سے نمایاں دیکھیں گے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں گرے ہوئے گھر تعمیر کرنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان رفاہی تنظیموں اور اداروں سے تعاون حاصل کرے جن کے رضاکار مشنری جذبے کے تحت زلزلے اوردیگر قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں مکانات کی تعمیر اور بستیاں بسانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کی بڑی تعداد یہ مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ جن رفاہی وفلاحی تنظیموں پر محض اغیار کے دبائو پر پابندیاں لگائی گئی ہیں انہیں ریلیف سرگرمیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے تاکہ متاثرین کی معمولات زندگی جلد بحال کرنے میں مدد مل سکے۔

بلوچستان، خیبر پی کے ،سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا سبب بننے والے اسباب کا تدارک بھی بہت ضروری ہے۔اس کے لیے ملک میں ڈیموں کی تعمیر پر فوری توجہ دینی چاہیے، دریا کنارے آبادیوں کے حوالے سے مئوثر قانون سازی کرنی چاہیے اور آبی گزرگاہیں بحال کرنی چاہئیںتاکہ مستقبل میں لوگوں کو شدید نقصانات سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اس وقت متاثرین میں خشک راشن اور خیموں کی تقسیم کے علاوہ ادویات پہنچانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔متاثرہ علاقوں میں مردوخواتین کے لیے الگ الگ عارضی بیت الخلاء بنانے چاہئیں۔ ایسے ہی خواتین اور بچوں کے علاج معالجہ پربھی خاص طور پرتوجہ دینی چاہیے۔ آنے والے چند دنوں میں سیلابی پانی جوں جوں کم ہوتا جائے گا اس کی نہ صرف رنگت تبدیل ہو گئی بلکہ ڈائریا، ٹائیفائیڈ، پیچش، جلدی امراض، قے، دست اور آنکھوں کی تکالیف بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے۔ سندھ کے بعض علاقوں میں تو یہ صورت حال پیدا ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ حکومتی اداروں کو اس طرف بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ سیلابی پانیوں میں متاثرین کا سب کچھ بہہ گیا ہے۔کل تک جو لوگ دوسروں کی بھوک مٹایا کرتے تھے آج وہ خود راشن وصول کرنے پر مجبور ہیں۔این ڈی ایم اے کی طرف سے ابھی تک فصلوں، گھریلو سازوسامان، سڑکیں، پل، ڈیم اور دوسرا انفراسٹرکچر تباہ ہونے کے جو اعدادوشمار جاری کیے جارہے ہیں وہ ابتدائی تخمینوں کا نتیجہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ نقصانات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔سیلاب متاثرین کی بحالی کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہیے تویہ کہ حکومت اوراپوزیشن سمیت سب سیاسی و مذہبی جماعتیں مل کرمتاثرین کی بحالی کے عمل میں حصہ لیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک میڈیا میں اس چیز کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کس نے کتنے وقت میں کتنی امداد حاصل کی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی تھون کے ذریعے پانچ ارب روپے جمع کیے تو پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے ایک گھنٹے میں ایک کھرب روپے جمع کرنے کا دعویٰ کر دیا۔ان کا یہ بیان بعد میں پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنا کہ یو این کی طرف سے امدادی فنڈ کی اپیل پر بھی کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومتی عہدیداران سیلاب متاثرین کے نام پر سیاست چمکانا چھوڑیں اور مصیبت میںمبتلا عوام کو صحیح معنوں میں امداد فراہم کی جائے تاکہ ان کی مشکلات کم ہوں اور وہ دوبارہ اپنے گھروں میں پہلے کی طرح آباد ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button