Columnمحمد مبشر انوار

سندھ کی طرف پیش قدمی ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

سیاست میں بروقت فیصلوں کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں اور یہ بروقت فیصلے ہی درحقیقت کسی سیاستدان کی کامیابی کے ضامن ٹھہرتے ہیں وگرنہ ان کی حیثیت نماز کے بعد ٹکروں سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ سیاست ایک طرف جمہور کے سروں پر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اس مسلمہ حقیقت سے نظریں چراتی دکھائی دیتی ہے تودوسری طرف ملکی مسائل کیلئے نظریاتی سیاسی اساس ،سیاست کا جزو لاینفک تصور ہوتی ہے۔مہذب و جمہوی اقوام میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے اور نتیجتاً وہاں جمہوری اقدار مضبوط ہو چکی ہیں،کوئی بھی شخص اپنی ذاتی حیثیت یا اثرورسوخ کے باعث قانون سے بالا تر تصور نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی جرم یا غیر قانونی حرکت پر قانون از خود حرکت میں آتا ہے،کسی حکومت یا خاص ادارے کو قانون اپنی مرضی و منشا کے مطابق متحرک کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔دوسری اقوام کی صورتحال یہ ہے کہ وہ عوامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی قانون سازی کرتی ہیں،عوامی مسائل کے حل میں ہمہ وقت کوشاں نظر آتی ہیں اور گذشتہ برس کا مسئلہ ممکن ہی نہیں کہ اگلے برس نظر آئے وگرنہ ایسی سیاسی قیادت اورجماعت کیلئے اپنی جگہ برقرار رکھنا قریباً نا ممکن ہو جاتا ہے تا وقتیکہ گردش ایام میں کوئی نیا مسئلہ سامنے نہ آ جائے اور اس پر بہترین پالیسی کا احیاء نہ ہو یا قابل عمل حل تجویز نہ کیا جائے۔ تاہم قدرتی آفات کا معاملہ قدرے مختلف ہے لیکن ان قدرتی آفات سے نپٹنے کیلئے بھی یہ اقوام متحد ہو کر اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا کر اپنے عوام کو اس سے محفوظ بنانے کی منصوبہ بندی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔دوسری طرف پاکستان کی صورتحال اس حوالے سے انتہائی خستہ ہے کہ ہم اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے ایسی جگہ موجود ہیں کہ جہاں قدرت نے ہمیں تمام تر قدرتی وسائل بے بہا عطا کر رکھے ہیں لیکن ہماری ناقص منصوبہ بندی کہیں یا مجرمانہ کوتاہی کہ ہمارے ارباب اختیار ان وسائل سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کی بجائے عوام کیلئے ان وسائل کو مسائل بنا کر منتقل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ غالباًچین میں کسی زمانے میں چینی عوام سیلاب کی تباہ کاریوں نے متاثر ہوئی تو چینی حکام نے انتہائی آسان حل نکالتے ہوئے دریا کی گہرائی زیادہ کرتے ہوئے،دریا سے نکالی ہوئی مٹی سے ہی بند کو مزید بلند کردیا،تا کہ زیادہ بارشوں یا سیلاب سے عوام متاثر نہ ہو اور نہ ہی چینی معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکے۔پانی کی افادیت سے کسی بھی ذی روح کو انکار نہیں اور پیش گوئیوں کے مطابق آخری زمانے میں پانی کے حصول پر لڑائیاں ہوں گی جبکہ ہم پاکستانی اتنے بدنصیب ہیں کہ اللہ کریم نے ہمیں یہ نعمت فراوانی سے عطا کررکھی ہے لیکن ہمارے حکمران اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکاری نظر آتے ہیںاور قریباً ہر سال لاکھوں؍ کروڑوں ڈالر کا بیش قیمت پانی محفوظ کرنے کی بجائے اسے ایسے سمندر برد کرتے ہیں کہ ہمارے اثاثہ جات کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے سمندر میں جا گرتا ہے لیکن ہم ایسی بے حس اشرافیہ کے شکنجے میں ہیںجو ان تباہ کاریوں پر مگرمچھ کے آنسو بہانے،ٹسوے بہانے کے علاوہ عملاً کچھ نہیں کرتے۔ ہمسایہ ملک،اس نعمت کو مسلسل ذخیرہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ببانگ دہل کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو بنجر کر دے گا،پانی کے قطرے قطرے کو ترسائے گا اور بوقت ضرورت اس کو زحمت بناکر پاکستان کو غرق کر دے گا،جو وہ کر رہا ہے لیکن ہماری اشرافیہ اس اہم ترین معاملے پر لب سیئے ہوئے ہے،نہ تو پانی کو ذخیرہ کرنے کے مناسب اقدامات کرتی ہے اور نہ ہی سیلابی ریلوں سے نپٹنے کی کوئی جامع اور کارگر پالیسی اس کے پیش نظر ہے،فقط اقتدار کا حصول اور اس میں وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہی اولین ترجیح نظر آتی ہے۔
پاکستان اس وقت سیلابی ریلوں میں غرق ہے لیکن شہر اقتدار میں جو سیاسی تماشے ہو رہے ہیں،وہ قابل افسوس بلکہ مذمت کے لائق ہیں کہ حکمران ان حالات میں بھی بھاری بھرکم وفود کے ساتھ بیرونی دوروں پر ہیں اور جو شاہانہ انداز ان حکمرانوں کے ہیں،اس سے لگتا ہی نہیں کہ ان کا اپنا ملک اور اس کے شہری کس آفت سے دوچار ہیں۔ وزیرخارجہ بلاول زرداری کے ترجمان کی طرف سے یہ بیان ضرور آیا کہ انہوں نے اپنا یورپی ممالک کا دورہ صرف سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کی غرض سے ملتوی کیا لیکن دوسری طرف ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ یورپی ممالک کے مجوزہ وزرائے خارجہ نے بلاول سے ملنے سے معذرت کر لی تھی،جس کے بعد بلاول نے اپنا دورہ منسوخ کردیا۔ حقائق بتانے کے بجائے اپنے دورے کی منسوخی کو سیلاب زدگان کی حمایت سے منسلک تو کر دیا لیکن شنید ہے کہ اپنے نانا کے شہر لاڑکانہ میں بلاول اور وزیراعلیٰ مراد شاہ کو سیلاب متاثرین نے روک لیا،روکنا بھی چاہیے کہ گذشتہ چودہ برس سے سندھ پر حکمرانی کر رہے ہیں لیکن فلاحی اقدامات نہ ہونے کے برابر،بالخصوص صحت اور تعلیم کے حوالے سے کارکردگی مایوس کن جبکہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے عدالت یہاں تک کہہ چکی کہ اگر نوے ارب روپے کی خطیر رقم لاڑکانہ پر لگی ہے تو کہاں لگی ہے؟آثار تو ہنوز کھنڈرات جیسے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی کی طرف سے سیلاب زدگان کو یہ کہنا کہ یہ عوام کے گناہوں کی سزا ہے،اس لیے استغفار کریں،مقام حیرت ہے۔ واقعتاً یہ عوامی گناہوں کی سزا ہے کہ ایسے وڈیروں کو انتخابات میں منتخب کرتے ہیں،یہی عوام کا گناہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے صرف بھٹو؍بے نظیر بھٹو کے نام پر پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں لیکن عوامی مسائل ہیں کہ دن بدن بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جبکہ چیئرمین بھٹو کا فلسفہ جمہوریت کی بنیاد ہی جمہور تھی۔ عوامی سیاست کرنے والے بھٹو مرحوم اور بے نظیر بھٹوکے بعد پیپلز پارٹی ڈرائنگ روم کی روایتی سیاست کی نذر ہو چکی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت عوامی فلاح کے بنیادی فلسفے کو بھول کر صرف اقتدار کے نشے میں گم ہے۔ شہری علاقوں میں ایم کیو ایم سے بری طرح شکست کھانے کے بعد،وحوہات کچھ بھی رہی ہوں،پیپلز پارٹی دیہی سندھ کے ووٹ لے کر سندھ پر حکمرانی تو کر رہی ہے لیکن شہری علاقوں کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی سوتیلے پن والا نظر آتا ہے ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ابتلاء کا وقت گذرنے کے بعد پیپلز پارٹی بھرپور طریقے سے شہری علاقوں میں بروئے کار آتی اور شہروں کو سیاسی انداز اور اپنے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر دوبارہ اپنی مقبولیت بناتی لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس راستے کو نہیں چنا،لہٰذا آج پیپلز پارٹی مزید سکڑتی جا رہی ہے۔اس عرصہ میں ایم کیو ایم جس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی،اس سے پیپلز پارٹی کیلئے انتہائی نادر موقع تھا کہ وہ شہری علاقوں میں اپنی گرفت مضبوط کرتی لیکن نجانے قیادت کی سوچ کیا رہی ہے کہ وہ بظاہر دیہی سندھ پر ہی قناعت کرتی دکھائی دیتی ہے اور کسی طرح بھی شہری علاقوں میں عملاً کام کرنے سے گریزاں ہے۔
خلاء کبھی باقی نہیں رہتا،جیسے پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا،اس کے ہاتھوں نکلا تو دوسری سیاسی طاقتیں اس پر قابض ہو گئیں،اسی طرح سندھ کے شہری علاقوں پر ایم کیو ایم کی گرفت کمزور ہوتے ہی دوسری سیاسی جماعتوں نے اپنا زور لگایا اور یہاں اپنی پوزیشن مضبوط کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف اس وقت فقط اپنی سحر انگیز قیادت اور بیانئے کے باعث پورے ملک میں مقبول ہو رہی ہے تو سندھ کے شہری حلقوں میں جماعت اسلامی ایک بار پھر حافظ نعیم الرحمن کی سربراہی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف ،خواہ اتفاق کریں یا اختلاف،اس وقت بلا مبالغہ و بلا شک و شبہ پورے پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن چکی ہے بالخصوص سندھ کے شہری علاقوں میں اس کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی وفات کے بعد،جس طرح تحریک انصاف نے تیرہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور تحریک لبیک کے امیدوار کو واضح شکست دی ہے،یہ کسی اور سیاسی منظر کشی کی طرف اشارہ ہے۔ عمران خان نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ وہ اندرون سندھ جانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں،گو کہ دیہی سندھ میں عوام کو سیاسی وابستگی یا تربیت کا یہ عالم ہے کہ وہ آج بھی صرف بھٹو ؍بے نظیر یا پیپلز پارٹی کو جانتے ہیں،عمران خان کیلئے اندرون سندھ پیش قدمی کوئی آسان مرحلہ قطعی نہیں ہو گا کہ کئی دیگر عوامل بھی اندرون سندھ کی سیاست میں ملوث ہیں۔ان سب عوامل کی موجودگی کے باوجود عمران کیلئے سندھ میں پیش قدمی کا یہ مناسب ترین موقع ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button