ColumnTazeen Akhtar

قومی ایوارڈز اور خصوصی افراد ۔۔ تزئین اختر

تزئین اختر

حکومت پاکستان نے 14 اگست 2022کو 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر مختلف شعبہ ہائے زندگی اور محکموں سے تعلق رکھنے والے شہریوں اور افسران کو انعامات سے نوازا۔ بلاشبہ حکومت کی جانب سے اپنے اپنے شعبوں میں ان کی خدمات کو سراہنا ایک اچھا قدم ہے۔ یہ اطمینان کا احساس فراہم کرتا ہے کہ جو لوگ اپنے ملک کے لیے کام کرتے ہیں ان کو اعلیٰ سطح پر نوازا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ دوسروں کو بھی اسی لائن پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے اور ایک دن انہیں ان کے کام کا صلہ بھی مل سکتا ہے۔ یہاں ہمارے پاس حکومت پاکستان اور معزز افسران اور معززین کے لیے ایک تجویز ہے جو کام کا جائزہ لیتے ہیں اور قومی ایوارڈز کے لیے حتمی ناموں کو ترتیب دیتے ہیں۔ حکومت پاکستان خصوصی افراد کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے میں مدد کے لیے ان کو بہت اہمیت دیتی ہے۔ حکومت نے خصوصی افراد کے لیے سرکاری ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹہ مقرر کیا ہے جو اس بارے بہت کچھ بتاتا ہے کہ حکومت خصوصی افراد کو کتنی دیکھ بھال دیتی ہے۔ یہ کوٹہ ان قومی ایوارڈز میں بھی طے کیا جا سکتا ہے جن کا اعلان دو اچھے دنوں، قومی یوم آزادی اور یوم پاکستان، 23 مارچ 2022 کو کیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے ہم ان سینکڑوں ایوارڈز کے فائنلسٹوں میں کوئی معذور شخص نہیں دیکھ سکتے جن کے ناموں کا اعلان اس 14 اگست 2022 کو کیا گیا تھا۔لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) شواز بلوچ روشن مثال ہیں جنہوں نے 20 سال تک پاک بحریہ میں نہ صرف خدمات انجام دیں بلکہ بحیرہ عرب کی وحشی موجوں اور چلچلاتی دھوپ میں قوم کی خدمت کے دوران اپنی بینائی سے محروم ہو گئے۔
آپ ان کی سی وی دیکھیں تو علم ہو جائے گا کہ نیول پائلٹ کے دوران بینائی کھو جانے کے بعد بھی انہوں نے کتنی قومی و بین الاقوامی ڈگریاں و ایوارڈ لئے اور صحیح معنوں میں خود کو سپر مین ثابت کیا۔ انہیں معذور کوٹہ سے پرائیڈ آف پرفارمنس دیا جا سکتا تھا۔وہ نہ صرف اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سابق دفاعی افسر ہیں ۔انہوں نے بینائی سے محروم ہونے کے بعد بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ جدوجہد جاری رکھی اور آج بھی قوم کی خدمت کر رہے ہیں جب انہیں خود حمایت کی ضرورت ہے۔انہوں نے اپنے آپ کو دوسروں کی مدد کے لیے تیار کیا ہے۔ وہ لاہور میں سکول آف موٹیویشن چلا رہے ہیں جو خصوصی بچوں اور افراد کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں اور خود کفیل بن سکتے ہیں۔ وہ سماجی شعبے میں بھی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ شواز بلوچ نے راشن کے ساتھ کرونا پابندیوں کے دوران غریبوں کی مدد کی۔ وہ رمضان اور عید کے دنوں میں ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔گزشتہ سال مندرجہ ذیل افراد نے شواز بلوچ کی بینائی کھو جانے کے باوجود کارکردگی پر پرائیڈ آف پرفارمنس کی سفارش کی تھی ، جنرل ( ر ) صباحت جو تین وزرائے اعظم کے ملٹری سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ جنرل ( ر ) ہارون پاشا سابق ڈی جی نیب سندھ۔ سینیٹر شبلی فراز۔سینیٹر اعجاز چودھری۔ سینیٹر محسن عزیز۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے متعلقہ منسٹریز، وزیر تعلیم شفقت محمود اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کو کیس بھیجا اور جنرل صباحت نے شفقت محمود سے بات کی مگر کچھ نہ ہوا ۔ گزشتہ ماہ منسٹری آف ایجوکیشن نے شواز سے رابطہ کیا اور تفصیلات مانگیں جو دے دیں اور انہوں نے بتایا کہ جنرل ( ر ) ہارون پاشا کی شواز کے بارے کارکردگی پر پرائیڈ آف پرفارمنس کی سفارش کیبنٹ ڈویژن کو مزید کاروائی کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔ مزید بتایا کہ کیبنٹ میں 45 افراد کی ایوارڈ کمیٹی کو کیس بھیجا جا رہا ہے لہٰذا 45 -45 کاپیاں بنا کر مانگی گئیں جو بھیج دیں تاکہ وہ صدر کو بذریعہ وزیر اعظم بھیج دیں۔ایجوکیشن کی افسر سحرش نے کنفرم کیا کہ کیس کیبنٹ کو بھیج دیا ہے ۔
جب ایوارڈ لسٹ 22 دیکھی تو شواز کا نام کسی ایوارڈ میں نہ تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت سی ایسی شخصیات کو نوازا گیا ہے جنہیں پہلے ہی ایوارڈز دیے جا چکے ہیں اور انہوں نے کوئی نیا کام نہیں کیا۔ اس کے علاوہ نئے آنے والوں کو ان کے متعلقہ شعبوں میں ایوارڈز دیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سیاسی ایوارڈز کے طور پر کئی ایوارڈز کا چرچا ہو رہا ہے کیونکہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی وی ٹاک شوز میں کون کس سیاسی جماعت کے حق میں بول رہا ہے۔آرٹ اور ثقافت کے شعبے میں بھی یہی حالت ہے۔ فنکاروں کو صرف ان کے ذاتی رابطوں کی بنیاد پر نوازا جا رہا ہے نہ کہ ان کے کام کے لیے۔ مثال کے طور پر لوگ کہہ رہے ہیں کہ مہوش اور ریشم جیسے فنکار زیادہ مستحق ہیں یا شبنم اور نغمہ اور دیگر سینئر فنکاروں کو فلم انڈسٹری میں ان کی زندگی بھر کی خدمات پر ایوارڈ ملنا چاہیے۔ضروری ہے کہ جیسے قومی ترانے کو جدید سازوں کے ساتھ از سر نو مرتب کیا گیا ، کئ قوانین میں ترمیم کی گئ تو ایوارڈ تقسیم کا طریقہ کار بھی دوبارہ مرتب کیا جائے ۔ صوبوں کو بھی ایوارڈ کی تقسیم کی اتھارٹی دی جائے۔ معذوروں کا کوٹہ قومی ایوارڈز میں ہی نہیں پارلیمنٹ ہائوس کی مخصوص نشستوں تک بڑھایا جائے تاکہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔ کسی کی سیاسی وابستگی یا جھکائو کو پیمانہ نہ بنایا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب سول ایوارڈز کی نامزدگی انتخاب و منظوری سرکاری چنگل سے نکال کر غیر جانب دار جیوریز قائم کی جائیں جن میں ہر طبقہ فکر کی نیک نام و غیر جانبدار شخصیات کو شامل کیا جائے تاکہ ایوارڈز کا وقار و مرتبہ قائم رہے۔ متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ مستحق پاکستانیوں کے کام اور خدمات کو قومی جذبے کے ساتھ میرٹ کی بنیاد پر دیکھیں۔ ہم نے پچھلے 75 سال میں اقربا پروری اور جانبداری کی وجہ سے بہت کچھ کھویا ہے۔ آئیے اب ایک نئی شروعات کریں جب ہماری قومی یکجہتی کو انصاف کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button