Columnمحمد مبشر انوار

زبانِ خنجر .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

عموماً ایک بات تکرار کے ساتھ لکھی ہے کہ پاکستان جمہوری طریقہ سے معرض وجود میں آیا تھا لیکن بد قسمتی سے اس ملک کے جمہور کو ہمیشہ جمہوری اعتبار سے کم عقل سمجھا گیا ہے،ان کی سیاسی سوچ پر تیقن کا فقدان رہا ہے اور ان کے کئے گئے فیصلوں کو ہمیشہ رد کیا گیا ہے۔سیاست میں یہ غیر سیاسی کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے اور بدقسمتی کہ ملک کے موجودہ سیاستدانوں کو اتنی سمجھ نہیں آ رہی کہ اس غیر سیاسی کھیل کا حصہ بننا کسی بھی طور جمہوریت کی پرورش نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے۔ دوسری اہم بات کہ جمہوری تربیت کی نرسری ،جسے طلباء یونین کہا جاتا ہے کہ جہاں لڑکپن سے ہی سیاسی شعوراور سیاسی انداز فکر پروان چڑھتا ہے،وہ یکسر بند ہے ،جس کے باعث نوجوانوں میں وہ سیاسی شعور بیدار ہی نہیں ہوتا جو مستقبل میں انہیں رواداری،برداشت اور ڈائیلاگ کا راستہ سجھائے۔ افسوس اس امر کا بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی آزادی سے حدود و قیود میں رہ کر محظوظ ہونے کا رواج نہیں اور طلباء تنظیموں میں دیکھا گیا تھا کہ وہ اس سہولت کا بے جا استعمال یا اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر اپنی آزادی گنوا بیٹھے لیکن اس آزادی کو چھیننے والا ضیاء الحق اس وقت طلباء کے احتجاج سے واقعتاً خوفزدہ ہو چکا تھااور بعد ازاں بے نظیر کے پہلے دور حکومت میں طلباء تنظیموں کو بحال کیا گیا اور پھر کچھ عرصہ پر یہ تنظیمیں پھر پابندی کا شکار ہو گئیں۔پس پردہ ابھی بھی طلباء تنظیمیں روبہ عمل ہیں لیکن ملکی صورتحال کے مماثل تعلیمی اداروں میں بھی ’’سٹیٹس کو‘‘ کی سی صورتحال ہے اور جس تنظیم کا اختیار رہا ہے ،اسے جبراً قائم رکھا گیا ہے،طلباء تنظیموں میں بھی اس سیاسی عمل کا شدید فقدان نظر آتا ہے کہ وہ جمہوری انداز کی پیروی کریں اور اکثریت کو تسلیم کریں۔ اس کے برعکس اپنی سیاسی جماعت کی طرز پر ہی طلباء تنظیموں میں یہ روایت سرایت کر چکی ہے کہ انتخاب میں اترنے کا مقصد صرف اور صرف کامیابی ہی ہے اور اس کے لیے جو بھی جتن کئے جا سکتے ہیں،ان سے منہ نہیں موڑا جا سکتا،اکثریت اگر میسر نہیں تو اس کا کسی بھی انداز سے حصول ممکن بنایا جائے تا کہ اقتدار قائم رہ سکے۔جب لڑکپن میں ہی یہ سوچ اذہان میں اتاری جا رہی ہو تو بالغ ہونے پر بالغ نظری یا سیاسی بلوغت کا عالم؍معیار کیا ہو سکتا ہے،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور اس کا اظہار ہماری قومی سیاست میں عیاں ہے۔

جمہوریت کی ضد آمریت ،ہمیشہ طاقتوروں کی جانب سے ہی تھوپی جاتی ہے کہ ان کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہوتا ،ماضی میں اس کی مثالیں انتہائی واضح ہیں کہ کس طرح ملک سے جمہوریت کا بستر گول کیا گیا ہے اور کیسے معاملات کو بظاہر سول؍ جمہوری ادوار میں بھی اپنے اختیار میں رکھا گیا ہے۔ ابتدائی دور میں آمریت کی داغ بیل ڈالنے میں سیاستدانوں سے کم ان ٹیکنو کریٹس کا کردار کہیں زیادہ رہا ہے کہ جو سیاسی سوچ سے نابلد،اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے نشے میں چور،اپنے الفاظ کو حکم؍ قانون کا درجہ سمجھتے رہے،عوام کو دبانے کیلئے طاقت کا بے مہابا استعمال کرتے رہے اور یوں طاقتوروں کو یہ احساس فراہم کر دیا کہ اس ملک کو طاقت کے زور پر فتح کیا جا سکتا ہے لہٰذا طاقتوروں نے اس ملک کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ تاہم یہاں آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ نواز شریف و دیگر عوامی نمائندگان کو یہ کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہیے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کرتے ہوئے انہوں نے کسی بھی غیر جمہوری طاقت کے شب خون کو ’’غداری‘‘قرار دلوا کر اپنے تئیں کوشش ضرور کی ہے لیکن جب منہ کو خون لگا ہو ،ملک میں آئین و قانون کو گھر کی لونڈی اور موم کی ناک سمجھا جاتا ہو، وہاں ایسی احتیاطی تدابیر کس حد تک بروئے کار آ سکتی ہیں؟بالخصوص اس وقت جب ہماری سیاسی قیادت کی اکثریت اقتدار کے لیے ایک مخصوص اشارہ ابرو کے لیے ترستی نظر آتی ہو،اپنے سیاسی فیصلے کرنے کے لیے محتاج ہوں،ملکی معاملات کو چلانے کے لیے یا قوانین بنانے کے لیے کسی فرد واحد یا مخصوص گروہ کے مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہو، جمہوری دور میں بھی غیر جمہوری طاقت کا عمل دخل واضح ہو،تو آئین میں موجود’’غدار‘‘کی تلوار کب تک میان میں رہ سکتی ہے؟خواہش و تمنا تو یہی ہے کہ ملک اس غیر جمہوری دور سے محفوظ رہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت وقت بذات خود جمہوری اقدار کی پامالی کے بعد اقتدار تک پہنچی ہے کہ یہ ایسا اوپن سیکرٹ ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے کہ عمران خان کے حلیفوں کی وفاداری کیسے اور کس نے تبدیل کروائی تھی،حتی کہ اس وقت بھی موجودہ حکومت کے پس پردہ کون معاونت کر رہا ہے۔

دوسری طرف عمران خان حکومتی زعماء،بڑے سیاسی مفکرین و ناقدین کی توقعات کے برعکس،عوام میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑنے پر تلا ہے،ملک کے کسی حصہ میں جلسہ کرنا ہو،سارا ملک بذریعہ بڑی ٹی وی سکرینوں کے ،بڑے بڑے اجتماعات میں اس کی تقریر کو سنتا نظر آتا ہے۔گو کہ آج بھی عمران کی تقاریر میں یکسانیت اور الزامات کی تکرار کی دکھائی دیتی ہے لیکن عوامی رجحان کا کیا کیا جائے کہ وہ ان تمام الزامات کو حقیقت سمجھ رہی ہے اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ موجودہ حکومت کے کارہائے نمایاں میں سب سے پہلا اقدام ہی نیب کے پر کاٹنے کا ہوا،اپنے مقدمات کی واپسی ان کا اولین مقصد ٹھہری،جس نے عمران خان کے ان الزامات پر مہر تصدق ثبت کی ہے کہ یہ تیرہ سیاسی جماعتیں ملک یا قوم کی بجائے ،اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے آئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ جس بیرونی سازش کا ذکرعمران اپنے ہر جلسہ میں کرتے ہیں،یہ حکومت انہی کا دم بھرتی ہے،انہی کے احکامات و مفادات کا تحفظ کرتی دکھائی دیتی ہے،جس کے باعث یہ تیرہ سیاسی جماعتیں عوام میں مزید غیر مقبول ہوتی جارہی ہیں۔ جس کا ثبوت اولاً پنجاب کے ضمنی انتخابات ہیں کہ اگر واقعتاً شفاف انتخابات ہوتے تو تحریک انصاف پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کلین سویپ کرجاتی لیکن افسوس کہ ابھی تک ارباب اختیار اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور ملکی مفادات کی بجائے ذاتی اناو ضد میںمقید دکھائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن میں آتے ہی،عمران اپنے دعویٰ کے عین مطابق،مخالفین ،سیاسی و غیر سیاسی و ریاستی مشینری،کے لیے توقعات سے کہیں زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں ،کسی بھی حکومتی عمران مخالف اقدام پر ،عوام ہے کہ بغیر کال دئیے سڑکوں پر نظر آتی ہے اور عمران کو بھی سڑکوں پر عوام کی قیادت کرنا پڑتی ہے۔موجودہ حکومت اور عمران کے مخالفین اس صورتحال سے کس قدر عاجز نظر آتے ہیں،اس کا اندازہ راولپنڈی جلسہ میں عمران خان کی تقریر کے دوران کہے گئے الفاظ پر ہونے والی ایف آئی آر میں دفعات سے واضح ہے کہ حکمران ہر صورت چاہتے ہیں کہ عمران کو پیش قدمی کی روکنے کےلیے ایسی قانونی دفعات کا سہارا لے کر،جن کا اس کی تقریر سے یا کہے گئے الفاظ سے دور کا و اسطہ بھی نہیںکہ اس سے کہیں زیادہ تضحیک آمیز الفاظ بلکہ براہ راست دھمکیاںنون لیگی رہنما دے چکے ہیں، اسے میدان سے نکال باہر کردیں۔ اس قدر سطحی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے کہ جس کو کوئی بھی عدالت فقط ایک پیشی میں ان دفعات کو غیر متعلقہ کہہ کر خارج کرنے کے احکامات جاری کر سکتی ہے البتہ ماضی قریب میں توہین عدالت پر نون لیگی کئی رہنماؤں پر محدود پابندی ضرور لگی ہے لیکن اس کا اطلاق تمام رہنماؤں پر نہیں کیا گیا اور اگر عمران اس کی زد میں آتے ہیں تو انصاف کے تقاضے پورے کرنا پھر عدالتوں کی ذمہ داری ہے ۔راولپنڈی جلسہ کے بعد، حکومت ہر صورت اپنی و عمران مخالفین کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ،عمران خان کو گرفتار کرنے کا پلان بنا چکی تھی لیکن جیسے ہی یہ خبر تحریک انصاف کے رہنماؤں تک پہنچی،انہوں نے عمران کو پنجاب یا کے پی کے جانے کا مشورہ دیا ۔ عمران خان نے ان تمام مشوروں کو مسترد کرتے ہوئے گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا اور جلسہ کے بعد بنی گالا پہنچ گئے، البتہ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی، مراد سعید، اسد عمر ،یاسمین راشداورحماد اظہرکے ٹویٹس پر تحریک انصاف کے کارکنان ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے اور بالخصوص بنی گالا کے اطراف پھیل گئے۔ اس صورت میں حکومتی پراپیگنڈہ ،کہ عمران خان بنی گالا میں موجود نہیں تا کہ کارکنان کو بددل کر کے بنی گالا خالی کروا کر عمرا ن کو گرفتار کیا جاسکے،بھی کام نہ آیا اور کارکنان ’’عمران خان ریڈلائن‘‘ کہتے ہوئے صبح تک بنی گالا موجود رہے۔ پاکستان میں عوام کے یہ مناظر کسی اور سحر کی نوید دیتے نظر آ رہے ہیں ،کیا ایسی ہی قوم کی توقع نوازشریف نے نہیں کی تھی کہ جب ترکی میں طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش ہوئی اور عوام ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے؟یقیناً نواز شریف اپنے کارکنان سے اس کی توقع کرتے تھے لیکن یہ اعزاز بھی عمران کا نصیب بنا کہ عمران علم ہونے کے باوجود اپنے مسکن سے نہیں ہٹا۔ تاہم یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ موجودہ صورتحال میں عمران خان کی نااہلی کی امیدیں، پرائے تو لگائے بیٹھے ہیں لیکن کچھ اپنوں کی خواہش بھی ایسی ہی ہے۔عمران خان کی عوام سے بڑھتی ہوئی قربت پر اپنوں اور بیگانوں کی صرف آستینیں ہی نہیں اب تو ان کے خنجر بھی بولتے نظر آ رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button