ColumnNasir Sherazi

بڑے نقصان سے بال بال بچے ! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

حکومت پاکستان کے سربراہ بٹ صاحب ہیں لیکن ان کی عمل داری قریباً بیس کلو میٹر تک محدود ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جٹ صاحب کی حکومت ہے۔ بٹ صاحب گفتار اور رفتار پر یقین رکھتے ہیں اس کے علاوہ ان کی انگلی بھی ان کا موثر ہتھیار سمجھی جاتی ہے، اقتدار سنبھالنے کے بعد سے گفتار و رفتار نظر نہیں آئی یہی حال اُن کی انگلی کا ہے، وہ کئی ماہ گذرنے کے باوجود اپنی انگلی سے تحریک انصاف کی چاٹی میں سے گھی مکھن نہیں نکال سکے۔ انہوں نے اس کارخیر کے لیے انگلی ٹیڑھی نہیں کی عین ممکن ہے اب انگلی میں پہلے جیسا دم حم نہ رہا ہوں یا انگلی نے ٹیڑھی ہونے سے انکار کردیا ہو دوسری طرف جٹ صاحب کھڑاک پر یقین رکھتے ہیں انہوںنے اقتدار سنبھالنے سے اگلے ہی روز کھڑاک کردیا تھا، جب سے اب تک وہ مختلف شعبوں میں کھڑاک پر کھڑاک کئے چلے جارہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق مرحوم نے اپنے زمانہ اقتدار میں بٹ صاحب اور جٹ صاحب کو حکومت میں شامل کیا دونوں ان کے عرصہ اقتدار میں ایک گھاٹ پر پانی پیتے رہے، اس وقت بڑے جٹ صاحب کامرکز میں جبکہ بڑے بٹ صاحب کا پنجاب میں طوطی بولتا تھاحتیٰ کہ سیاسی نقارخانے میں بھی انہی دونوں کی آواز سنی جاتی تھی دیگر بینڈ باجے گلا پھاڑ کر چیختے چلاتے تو خوب تھے لیکن ان دونوں کی طوطیوں کے سامنے کسی کی ایک نہ سنی جاتی۔

سی ون تھرٹی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیا الحق اپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرگئے تو کہاگیا کہ بٹ صاحب اور جٹ صاحب دونوں یتیم ہوگئے ہیں، بینظیر بھٹو انہیں سیاسی یتیم کہا کرتی تھیں، جنرل ضیا الحق کے دور میں بٹ صاحب اور جٹ صاحب کے درمیان محاذ آرائی اپنی انتہائی تک جاپہنچی تھی یوں لگتا تھا جیسے جٹ صاحب، بٹ صاحب کا تختہ کردیں گے، اس موقعہ پر جنرل ضیا الحق نے دونوںمیں بیچ بچائو کرایا یوں دونوں ایک مرتبہ پھر اسی گھاٹ پر لوٹ آئے۔ بینظیر بھٹو میدان سیاست میں آئیں تو خلائی مخلوق ان کے ساتھ تھی ایسے میں تمام تر اختلافات کے باوجود بٹ صاحب اور جٹ صاحب نے مل کر بینظیر بھٹو کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ دونوں نے اپنے بچپن میں بوڑھے کسان اور اس کے سات بیٹوں کی کہانی پڑھ رکھی تھی جو ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے، کسان نے اپنے آخری وقت میں لکڑیوں کا ایک گھٹا منگواکر اتفاق میں برکت کا فلسفہ بیان کیا جو اس کے سات بیٹوں کی سمجھ میں آگیا، بٹ صاحب اور جٹ صاحب نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت اکٹھے رہ کر برکتیں سمیٹنے کو ترجیح دی۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو بٹ صاحبان سعودی عرب چلے گئے جبکہ جٹ صاحبان نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی حکومت میں شمولیت اختیار کی اور ان کی حکومت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جب سے اب تک بٹ صاحبان، جٹ صاحبان سے ناراض ہیں، صلح کے کئی موقعے آئے متعدد مرتبہ کوشیں ہوئیں مگر بار آور ثابت نہ ہوئیں، دونوں ایک دوسرے پر وعدہ خلافی کا الزام لگاتے ہیں ۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف شہبازگل کی عزت لوٹنے کا واقعہ ایسے دور میں پیش آیا ہے جب بٹ صاحب مرکز میں اورجٹ صاحب صوبہ پنجاب میں حکمران ہیں۔ شہبازگل صاحب کا تعلق جٹ برادری سے ہے لیکن عمران خان کے بقول، شہباز گل کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بٹ صاحب کی حکومت نے کیا جبکہ جٹ صاحب بذریعہ پنجاب پولیس ان کی کسٹڈی حاصل کرکے انہیں ریلیف دینا چاہتے تھے۔ حیرت ہے بلاتحقیق عمران خان نے اتنی بڑی بات ان سے منسوب کردی جو ہوئی ہی نہیں، کیا وہ مغرب کو پیغام دینا چاہتے تھے ہم اس معاملے میں آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔ جھوٹ کا پول ایک ویڈیو کلپ کے ذریعے کھلا جس میں دکھایاگیا کہ ایک شخص کیمرے کی مخالف سمت منہ کئے ہوئے لیٹا ہوا ہے اور اس کی تشریف پر پڑے بڑے بڑے سرخ نشان ہیں، ایسے نشان عموماً چوروں کی چھترول کے بعد ان کی تشریف پر نظر آتے ہیں اور کئی روز تک موجود رہتے ہیں۔ سرخ تشریف والا شخص درد سے کراہنے کی ایکٹنگ کررہا ہے ویڈیو کلپ میں تاثر دیا جارہا تھا کہ یہ دراصل شہبازگل صاحب ہیں اور ان کا یہ حال کردیاگیا ہے، اچانک قریب کھڑے افراد میں سے ایک شخص آگے بڑھتا ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سین کی فلم بندی مکمل ہوچکی ہے لہٰذا وہ سرخ تشریف والے لیٹے ہوئے شخص کا منہ کیمرے کی طرف کردیتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے یہ شہبازگل صاحب نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہٹا کٹا مشٹنڈا ہے جس کے چہرے پر مونچھیں بھی ہیں۔ دوسری طرف شہبازگل صاحب کے ہسپتال کے کمرے سے کچھ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر دیکھے گئے ہیں جن میں وہ ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، وہ جوس پی رہے ہیں اور باتیں کررہے ہیں، ان کی باتیں ہوش و حواس کی باتیں ہیں بہکی بہکی باتیں نہیں ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے وہ خالص جوس ہی پی رہے ہیں۔

مرکز میں حکومت کے سربراہ بٹ صاحب نے اس حوالے سے نہایت دانش مندی اور ہوش مندی کا ثبوت دیاانہوںنے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اورخاص طور پر اپنے جذبہ ترحم کو بیدار نہیں ہونے دیا ورنہ وہ اُس عورت کے دروازے پر پہنچنے میں دیر نہیں کرتے جس کی عزت لوٹ لی گئی ہو۔ وہ آندھی اور طوفان کی تیزی سے ایسی جگہ پہنچتے ہیں اورمظلوم کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے دلاسہ دینے کےساتھ کم ازکم پانچ لاکھ روپئے کا چیک پیش کرتے ہیں، یہ باتیں تو زمانہ ماضی کی ہیں اب تو اس قسم کی داد رسی کا ریٹ کم از کم پندرہ لاکھ روپے ہونا چاہیے کیونکہ ہمارا روپیہ ستر فیصد قدر کھوبیٹھا ہے۔

وزیراعظم روایتی ہمدردی اور تیزی کا مظاہرہ کرتے تو وہ فوراً ان سے ہمدری اور اظہار یکجہتی کے لیے اُن کے پاس پہنچتے اور ان کے سرپر ہاتھ رکھ کر انہیں دلاسہ دینے کے ساتھ ساتھ کم ازکم تیس لاکھ روپئے کا چیک دیتے، اب آپ پوچھیں گے کہ عام آدمی یا عورت کے لیے پندرہ لاکھ روپئے کی مدد اور شہبازگل کے لیے تیس لاکھ کیوں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے لینے والا بھی شہباز ہو اور دینے والا بھی شہباز ہو تو اتنا تو فرق ہونا ہی چاہیے۔ لینے والا جٹ ہو اوردینے والا بٹ ہو تو تھوڑی دیر کے لیے اس فرق کو مٹادینے میں کیا حرج ہے، جٹ اور بٹ اندر سے ایک ہی ہیں۔ شہبازشریف کا کمال ہے کہ وہ ہر سرکاری کام میں قوم کے لاکھوں نہیں کروڑوں روپئے بچا لیتے ہیں، سڑکیں ہو یا پھر انڈر پاسز شہبازشریف قوم کا نقصان بچالیتے ہیں، اس معاملے میں بھی انہوںنے تیس لاکھ روپے بچا لیے وگرنہ ادائیگی کے بعد شہبازگل نے کونسا وہ رقم واپس کرنا تھی، پاکستان بڑے نقصان سے بال بال بچا ہے، مہنگائی کے اس دور میں جسے بیٹھے بٹھائے تیس لاکھ روپے مل جائیں اس کی عزت نہ بھی گئی ہو تو بھی یہی کہے گاکہ اجتماعی آبروریزی ہوئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button