Editorial

فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کرنیکااعلان

وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی کے بلوں سے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کرنے کا اعلان کردیاہے اور اِس اعلان سے 200یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے ایک کروڑ ستر لاکھ صارفین کو فائدہ پہنچے گا۔ یہی نہیں بلکہ ٹیوب ویل استعمال کرنے والے تین لاکھ زرعی صارفین بھی فیول ایڈجسٹمنٹ سےمستثنیٰ ہونگے۔وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ تیل مہنگا منگواتے ہیں تو اگلے ماہ کے بلوں میں ایڈجسٹ کیا جاتا ہے، جولائی اور اگست کے مہینے میں فیول ایڈجسٹمنٹ میں خاصا اضافہ ہوا، فیول ایڈجسٹمنٹ پر ہم چار پانچ روز سے ورکنگ کر رہے تھے۔ایک کروڑ 30 لاکھ کھاتے پیتے صارفین پر فیول ایڈجسٹمنٹ کا جائزہ لے رہے ہیں، استقامت اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگااور خلوص نیت کے ساتھ محنت کرنا ہوگی۔ اسی معاملے پر مزید وضاحت وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے کی ، انہوں نے کہا کہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی صارفین کو 22 ارب روپے کا ریلیف دیا ہے۔صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی ہمارا چیلنج ہے۔اس چھوٹ سے ایک کروڑ 70 لاکھ صارفین جو200 یونٹ والے ہیں، اُن کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کردئیے ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف کی طرف سے یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا ہے جب ملک کے مختلف شہروں میں مہنگی بجلی کے خلاف مظاہرے جاری ہیںاورلوگ سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی کررہے ہیں ، بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے دفاتر کے بعد احتجاج کیا جارہا ہے اور صارفین کا موقف ہے کہ پاکستان میں 75سالہ تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ جس کا بجلی کا بل 1000روپے آتا تھا اس کا بل 8000روپے کردیا جائے اس لحاظ سے بجلی کا یونٹ عوام کو 80روپے میں دیا جارہا ہے ۔بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ کے خلاف کسان تنظیموں بھی کسانوں کو لیکر سراپا احتجاج ہیں بلکہ کئی شہروں میں تو صارفین نے بل کی ادائیگی کا مکمل بائیکاٹ کردیا تھا۔بجلی کے بلوں میں حالیہ اضافہ کے خلاف احتجاج کئی روز سے جاری تھا اور ہر آنے والے دن کے ساتھ احتجاج میںشدت آرہی تھی لیکن اب یقیناً احتجاج ختم ہوجائے گا مگر بجلی کے اگلے بلوں پر ہی پتا چلے گا کہ عوام اس اعلان کے نتیجے میں کتنے مطمئن ہیں اور انہیں موصول ہونے والے بلوں نے انہیں کتنا ریلیف دیا ہے۔ بلاشبہ مہنگے تیل سے مہنگی بجلی پیدا ہوتی ہے اور صارفین کو تیل کی قیمت کے مطابق ہی بجلی کا بل ڈالا جاتا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے مگر دیکھاجانا چاہیے کہ ہر صارف کو جی ایس ٹی سمیت کم ازکم 17 فیصد سے زیادہ مختلف ٹیکس بھی ہر بل کے ساتھ ادا کرنا پڑتے ہیںپھر ٹیلی ویژن فیس وغیرہ بھی شامل کردیئے
جاتے ہیں پس ایک عام صارف جو ایک دو بلب اور ایک پنکھے کے ساتھ گزر بسر کررہا ہے اُن سے بھی وہ ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں چاہے اس کے گھر دو وقت کی روٹی ہو یا نہ ہو۔ فیول ایڈجسٹمنٹ ہو یا دوسرے ٹیکسز کم ازکم عام صارف کا معیار زندگی بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے جو لوگ ایک سے دو سو یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں اُن سفید پوشوں کی آمدن کتنی ہوگی اور وہ اس مشکل ترین دورمیں کیسے گزربسر کررہے ہوں گے اور پھر وہ صارف جو ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں اُن کا معیار زندگی کیا ہوگا ؟ شاید وہ دو وقت کی روٹی بھی پوری نہ کرپاتے ہوں ۔ اس لیے ارباب اختیار کو بجلی کا بل سامنے رکھ کر غورکرنا چاہیے کہ جو شہر سو یا دو سویونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں ان کا معیار زندگی کیا ہوگا اور وہ کس حد تک مالی بوجھ برداشت کرسکتے ہیں اور ان سے فیول ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر مدات میں بجلی بل کے ذریعے وصولی قرین انصاف ہے بھی یا نہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں پانی سے بجلی پیداکرنے کی وسیع صلاحیت کے باوجود ہم پانی کی بجائے مہنگے ذرائع یعنی ایندھن سے پیدا شدہ بجلی سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اس کی وجہ واضح ہے کہ ماضی میں جو بھی حکومتیں آئیں انہوںنے مستقبل کی طلب و رسد کو مدنظر نہ رکھا اور دوسرے مسائل میں الجھ کر آخری حل یہی سوچا کہ بجلی کے کارخانے لگاکر بجلی کی طلب پوری کرلی جائے جو یقیناً ہنگامی ضروری کےلیے تو موزوں فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن مستقل بنیادوں پر مہنگی بجلی پیداکرنا درحقیقت اپنے لیے خود مسائل پیداکرنے کے مترادف ہے جس کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے ہمارے ہاں بجلی بھی مہنگی کرنا پڑتی ہے جس سے گھریلو اور کمرشل صارف دونوں متاثر ہوتے ہیں اور دونوں کی ہی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ گھریلو صارفین کے اخراجات میں اضافہ ہوجاتا ہے اور کسی دوسری ضرورت کو عارضی طور پر روک کر بجلی کا بل بھرا جاتا ہے، انڈسٹریز اور کارخانے مہنگی بجلی سے مہنگی مصنوعات تیارکرکے مقامی اور برآمدی ضروریات پوری کرتے ہیں اور عالمی منڈی میں خریدار انہی چیزوں کو ترجیح دیتے ہیں جن کی قیمت کم اور معیار اچھا ہو اسی لیے ہمیں ہر مشکل کے وقت یاد آئے گا کہ ہم نے ڈیم بنانے کی بجائے بجلی گھر لگانے کا فیصلہ ٹھیک کیا یا غلط ۔ حکومت نے ایک کروڑ ستر لاکھ صارفین کو دو ارب روپے کا ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے اور یہ دو ارب روپے اب حکومت قومی خزانے سے بجلی پیداکرنے والے کارخانوں کو ادا کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا یہ احسن اقدام ہے اور اس کی بہت پہلے ضرورت تھی ۔ ہمارے ہاںمہنگائی کی جو صورتحال ہے اس پر صرف عوام ہی سراپا احتجاج نہیں بلکہ مہنگائی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے بھی مہنگائی کی صحیح صورتحال کو عیاں کرتے ہیں اور ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سری لنکاکے بعد جنوبی ایشیائی علاقائی ممالک میں جولائی 2022 میں سی پی آئی (صارف قیمت کا اشاریہ) پر مبنی افراط زر کی وجہ سے پاکستان 24.9 فیصد کو چھو کر دوسرے نمبر پر ہے۔ سری لنکا میں افراط زر 60.8 فیصد کو چھوچکی ہے۔ بھارت میں میں اس وقت افراط زر کی شرح 6.7 فیصد جبکہ نیپال میں یہ 8.08 فیصد کے آس پاس ہے۔ مالدیپ میں مہنگائی کا عفریت جون 2022 میں 5.2 فیصد پر ہے۔ بنگلہ دیش میں مہنگائی کی سالانہ شرح جون 2022 میں بڑھ کر 7.56 فیصد ہوگئی جو پچھلے مہینے 7.42 فیصد تھی۔ بھوٹان میں مہنگائی کی شرح مئی میں بڑھ کر 5.95 فیصد ہوگئی جو اپریل 2022 میں 5.79 فیصد تھی۔ کچھ اور ممالک بھی ہیں جہاں مہنگائی پاکستان سے زیادہ تھی جیسا کہ ایران میں مہنگائی 54 فیصد اور ترکی میں 79.6 فیصد رہی۔ پاکستان میں حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ پی او ایل اور اشیاء کی بین الاقوامی قیمتوں نے مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ کیا لیکن مزید گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے کچھ دوسرے عوامل نے بھی افراط زر کو بڑھاوا دیا۔ پیداواری صلاحیت میں کمی اور وزارتوں، محکموں، صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مسابقتی کمیشن آف پاکستان اور دیگر کے غیر موثر کردار نے بھی مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ کیا ہے بہرکیف معاشی بحران اور تمام تر مسائل کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے اور اس کا واحد حل یہی ہے کہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھنے اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی پوری آزادی دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ حکومت عوام کی اُس کثیرتعداد کو ریلیف دینے کی مسلسل منصوبہ بندی کرے اور ریلیف بھی دے کیونکہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں جس طرح ریلیف دیاگیا ہے عام اور معاشی مسائل سے دوچار پاکستانیوں کو پٹرول اور دیگر مدات میں بھی ریلیف دیں تاکہ عوام کا اضطراب ختم ہو۔ عام آدمی پر بوجھ کم کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنے کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں ایک طرف ٹارگٹڈ سبسڈی دے کر لوگوں کا سفر زیست آسان کیا جائے تو دوسری طرف مصنوعی مہنگائی پر بھی قابو پایا جائے اورسب سے زیادہ ضروری ہے فیصلہ سازی کرتے وقت مدنظر رکھاجائے کہ کونسے فیصلوں کے نتیجے میں عام صارف پر بلاواسطہ یا بالواسطہ بوجھ پڑے گاہم نے دیکھا ہے کہ حکومت نے جن بڑے اداروں پر ٹیکس عائد کیا ہے انہوں نے مارکیٹوں میں اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھاکر وہ بوجھ عام صارف پر منتقل کردیا ہے اِس لیے نظام مملکت چلاتے ہوئے ان تمام پہلوئوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن کے اثرات عام صارف پر منتقل ہوتے ہیں۔ ہم ایک بار پھر فیول ایڈجسٹمنٹ پر حکومتی اعلان کو سراہتے ہوئے کہنا چاہیں گے کہ ایسے فیصلے حالات کی اشد ضرورت ہیں کیونکہ عامۃ الناس موجودہ معاشی بحران کے دوران انتہائی کٹھن دور سے گزر رہے ہیں اور انہیں ریلیف دے کر ان کی زندگی آسان کی جاسکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button