Ahmad NaveedColumn

چودھری رحمت علی پاکستان میں دفن کیوں نہیں ! .. احمد نوید

احمد نوید

 

انسان زندگی میں ہر پل ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ہمارے نیشنل کالج آف آرٹس میں (کارپینٹر) بڑھئی محمد صدیق صاحب ہیں ۔ وہ لکڑی کے اچھے کاریگر تو ہیں ہی ،ساتھ ہی بہت کھلے دل و دماغ کے مالک بھی ہیں ۔ وہ سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھتے ہیں کہ ملک میں کیا صحیح ہو رہاہے اور کیا غلط۔ ایک دن کالج کے برآمدے میں مجھے سرراہ روک کر پوچھنے لگے کہ پاکستان کا نام کس نے رکھا تھا؟ میں نے بڑے اعتماد سے فوراً جواب دیا ، چودھری رحمت علی نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا اور وہی اس نام کے تخلیق کار ہیں ۔ محمد صدیق صاحب نے میری بات کی فوراً تردید کرتے ہوئے کہا، جناب ایسا نہیں۔ آپ اس معاملے پر تحقیق کریں اور میرے پاس حامد میر صاحب کے پروگرام کی ایک ویڈیو ہے ، میں آپ کو بھیج دوں گا ، وہ بھی آپ دیکھ لیں ۔ اسی دن رات گئے صدیق صاحب نے مجھے حامد میر صاحب کا کلپ بھیج دیا۔ جسے دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ واقعی پاکستان کے نام کی تاریخ کے حوالے سے یہ معاملہ وضاحت طلب اور درستگی کی گنجائش لیے ہوئے ہے۔
معروف محقق عقیل عباس جعفری صاحب کی تحقیق کے مطابق لفظ پاکستان کے خالق کشمیری صحافی تھے۔ علامہ حسن شاہ کاظمی نے 1928میں ’’پاکستان ‘‘کے نام سے ایک ہفت روزہ شائع کرنے کے لیے ڈیکلریشن کی درخواست دی تھی، جسے منظور نہیں کیا گیا تھا لیکن بعد میں علامہ حسن شاہ کاظمی صاحب نے یہ اخبار 1935میں ایبٹ آباد سے شائع کیا ۔ لہٰذا تاریخی اعتبار سے اس معاملے کی درستگی ضروری ہے۔محمد صدیق صاحب کی وجہ سے نہ صرف میری بصیرت میں اضافہ ہوا بلکہ میں اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ ہم انسانوں کو خود کو عقل کل تصور نہیں کر لینا چاہیے اور خاص طور پر علمی معلومات اور تاریخی شواہد تک پہنچنے والے دروازوں کو بھی خود پر کھلا رکھنا چاہیے تاکہ اصلاح کا عمل جاری رہے ۔

چودھری رحمت علی لفظ’’ پاکستان ‘‘کے تخلیق کار نہ سہی مگر اس ارض پاک اور اس ملک خداد اد کے نام کے تخلیق کار ضرور ہیں ۔ چودھری رحمت علی کا مسلم گجر گھرانے سے تعلق تھا ۔ انہیں بچپن میں ہی بتادیا گیا تھا کہ تعلیمی قابلیت نہ صرف اُن کی شخصیت میں نکھار پیدا کرے گی بلکہ وہ دنیا کی نظروں میں نظریں ملا کر کھڑے ہونے کے قابل بھی ہو جائیں گے۔ چودھری رحمت علی اعلیٰ تعلیم کے لیے کیمبرج میں طویل عرصہ قیام پذیر رہے۔ آپ نے 1930سے 1933کے درمیان پاکستان نیشنل موومنٹ قائم کی اور اپنی اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر کیمبرج ہی رکھا۔غالباً 1933میں ہی انہوں نے اپنا یادگار پمفلٹ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں ‘‘جاری کیا، جس میں انہوں نے تذکرہ کیا کہ ’’ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے یا فنا ہو جائیں گے‘‘۔

چودھری رحمت علی صاحب کو ادراک ہو چکا تھا کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک قابل عمل، خود مختار ، آزاد کمیونٹی بننے کے لیے سیاسی طور پر آگے بڑھنا ہوگا اور جدوجہد کرنا ہوگی ۔ چودھری رحمت علی اپنی سوچ اور فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 1947تک اپنی تحریروں پر مشتمل مختلف کتابچے شائع کرتے رہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی لازم ہے کہ جب چودھری رحمت علی نے پاکستان کے لیے ،پاکستان کا نام تجویز کیا تو اپنے اُس کتابچے کے مسودے کے لیے جسے انہوں نے اکیلے ہی تیار کیا تھا، ایسے لوگوں کی تلاش تھی جو اُس اعلامیے پر بطور نمائندہ ددستخط کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ۔ یہ تلاش آسان نہیں تھی۔ انگلستان کی جامعات میں اُس وقت مسلم انڈین نیشنل ازم کی گرفت بہت مضبوط تھی ۔ چودھری رحمت علی کو اس اعلامیے پر دستخط کے لیے تین نوجوان ڈھونڈنے میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگا۔ 1933کے اس مشہورپمفلٹ میں جسے پاکستان ڈیکلریشن بھی کہا جاتا ہے ، چودھری رحمت علی کی اس تحریر سے شروع ہوا۔ ’’ہندوستان کی تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر ،جب برطانوی اور ہندوستانی سیاستدان، اس سرزمین کیلئے ایک وفاقی آئین کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہم تین کروڑ مسلمانوں کی طرف سے اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے بھائیوں ، جس سے مراد ہندوستان کی پانچ وہ شمالی اکائیاں ہیں، جن میں پنجاب ، شمال مغربی سرحدی صوبہ ، کشمیر، سندھ اور بلوچستان شامل ہیں انہیں یکجا کر کے ایک علیحدہ سرزمین کے طورپر تسلیم کیا جائے ۔ ‘‘

چودھری رحمت علی کے پاکستان بنانے کے لیے کیے جانے والے اس مطالبے پر ہندو قوم
پرستوں نے بہت واویلا مچایا ۔ قریباً سبھی نے اس نظریے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ مگر چودھری رحمت علی 1947تک اپنے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹے ۔یہاں یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ چودھری رحمت علی نے اگر ہندوستان کی شمالی اکائیوں پر مشتمل ایک آزاد وطن کے لیے پاکستان کی بات کی تودوسری جانب بنگال اور حیدرآباد دکن کے مسلمانوں کے لیے ’’عثمانستان ‘‘ کے نام سے ملک بنانے کی تجویز پیش کی ۔ 1947میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد چودھری رحمت علی 1948میں لاہور پاکستان واپس آئے، کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان پہنچ کر قیام پاکستان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ وہ 1933میں اپنے پمفلٹ میں تجویز کردہ پاکستان سے چھوٹا پاکستان لینے پر ناخوش تھے۔ کچھ سیاسی تجزیہ نگار اور مورخین کا خیال ہے کہ چودھری رحمت علی اور لیاقت علی خان میں پاکستان کے قیام سے قبل ہی اختلافات شروع ہو چکے تھے۔

چودھری رحمت علی ’’وسیع پاکستان پلان‘‘ کے حامی تھے جبکہ لیاقت علی خان کا خیال تھا کہ پہلے پاکستان کا بننا ضروری ہے پھر اِسے سفارتی کوششوں سے وسیع کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ چودھری رحمت علی جب پاکستان آئے تو فیض احمد فیض صاحب نے اُن کے انٹرویو ز کا سلسلہ پاکستان ٹائمز میں شائع کرنا شروع کر دیا۔ انٹرویوز کا یہ سلسلہ کچھ مقتدرہ اداروں کو کچھ خاص پسند نہ آیا۔لہٰذا قائداعظم کی رحلت تک اِسے برداشت کیا گیا مگر قائداعظم کے انتقال کے بعد چودھری رحمت علی کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

1951میں چودھری رحمت علی جن کی پاکستان کے قیام کے لیے بے شمار خدمات تھیں ، بے یارو مدد گار لاوارثو ں کی طرح کیمبرج میں انتقال کر گئے ۔ اُنہیں امانتاً وہاں دفن کر دیا گیا یہ سوچ کر کہ چودھری رحمت علی کو واپس پاکستان لا کر دفن کیا جائے گا۔چودھری رحمت علی ایک کسان کا بیٹا تھا ۔ جس نے برطانوی راج سے آزادی کی جنگ لڑی ۔ جس نے استحصال سے پاک فلاحی ریاست کا خواب دیکھا۔ پاکستان کے اس بیٹے نے پاکستان کے لیے جگہوں اور علاقوں کا تعین کیامگر صد افسوس کہ اُسے خالی ہاتھ پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اُسے پاکستان میں دفن ہونے کیلئے چھے فٹ جگہ بھی نصیب نہ ہوئی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button