ColumnHabib Ullah Qamar

بھارتیوں کو کشمیر میں ووٹ ڈالنے کی اجازت .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

بھارت کی مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں نوکری،تعلیم یاکاروبار کرنے والے ہندوستانی شہریوں کو آئندہ انتخابات میں ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئے قانون کے تحت ووٹر بننے کے لیے کسی بھی شخص کے پاس جموں کشمیر کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ہونا ضروری نہیں ۔ کسی بھی حوالے سے کشمیر میں رہنے والا شخص ووٹنگ لسٹ میں اپنا نام درج کروا سکتا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کو کمزور کرنے کی نئی سازش کے تحت بھارت سرکار مقبوضہ کشمیر میں پچیس لاکھ نئے ووٹروں کا اندراج کرے گی جس سے ووٹروں کی کل تعداد میں ایک تہائی سے زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔جموں کشمیر کی ووٹر لسٹوں میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کیا جارہا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے چیف الیکٹرول آفیسر ہردیش کمار نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کے بھارتی فوج میں تعینات باشندے جو انڈیاکی مختلف ریاستوں میں رہ رہے ہیں انہیں حق دیا جارہا ہے کہ وہ خود کو بطور سروس ووٹر رجسٹرڈ کروائیں تاکہ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں ۔
بھارت میں ہندوانتہاپسند تنظیم بی جے پی کی حکومت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ تین سال قبل جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت والی دفعات ختم کرنے کے بعد سے بھارتی سازشوں میں بہت تیزی آئی ہے اور مودی سرکار مسلسل کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35اے ختم کرکے مقبوضہ وادی کو لداخ سے الگ کیا اور اسے بھارتی زیرانتظام وفاق کا علاقہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ آرٹیکل 35اے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کا حصہ تھا جس کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا تھا اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔آرٹیکل 370کے تحت سکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی کے علاوہ باقی تمام اختیارات جموں کشمیر حکومت کے پاس تھے۔ انڈیا کی پارلیمنٹ جموں کشمیر کے حوالے سے بہت کم قانون بنا سکتی تھی۔ یہ وہ خاص چیزیں تھیں جن کی وجہ سے بھارت آج تک کشمیر میں صحیح معنوں میں مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی میڈیا کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرتے وقت یہ پراپیگنڈا بہت شدومد سے کیا جاتا رہا کہ کشمیر کی ترقی کی راہ میں دفعہ 35اے سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیوں کہ دیگر بھارتی یہاں آکر آباد نہیں ہو سکتے اور سرمایہ کاری نہیں ہوتی لیکن یہ ساراپراپیگنڈا جھوٹ پر مبنی اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھا۔بھارت نے جب سے یہ دفعات ختم کی ہیں اس وقت سے لاکھوں کی تعداد میں ہندوئوںکی آبادکاری اور انہیں زمینوں، وسائل اورروزگار پر قابض ہونے کے مواقع سرکاری سرپرستی میں فراہم کیے جارہے ہیں۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کچھ عرصہ قبل ڈومیسائل (شہریت) کا نیا قانون بھی نافذ کیا اور جموں کشمیر تنظیم نو آرڈرکے تحت ہندوستانیوں کو کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر نوکریاں اور جائیداد کی ملکیت وغیرہ کا حق دیا گیاہے۔ اسی طرح
لاکھوں ایکڑ اراضی ہندوسرمایہ کاروں کو ایک روپیہ فی کنال کے حساب سے فراہم کی گئی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پانچ ہزار سے زائد جائیدادوں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت سرکار نے عام کشمیریوں کو بھارتی فوج کی طرف سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ ملنے تک نوکریاں دینے پر پابندی لگا دی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مسلمانوں کو یہ کہہ کر ملازمتوںسے برطرف کیاجارہا ہے کہ وہ تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ بھارتی فورسز نے حالیہ دنوں میں بدترین دہشت گردی کا بازار گرم کرتے ہوئے سرگرم کشمیریوں کے گھروں کو بارود سے تباہ کرنے اور ان کی جائیدادیں قبضے میں لینے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ مودی سرکار جموں کشمیر کوبالکل اسی طرح غیر کشمیریوںکی کالونی میںتبدیل کر رہی ہے جس طرح اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں کر رہا ہے۔ اس ساری مشق کا مقصد مسلم اکثریت کو ان کے اپنے وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ بھارتی حکومت راجستھان، اتر پردیش، بہار، پنجاب اور دیگر بھارتی ریاستوں سے لوگوں کو جموں و کشمیر میں بسانے کے لیے لا رہی ہے تاکہ کشمیر کے نام نہاد اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکے اور علاقے میں آبادی کے موجودہ خدوخال کو بھی مسخ کیا جا سکے۔ بھارتی حکام ماضی میں ڈھونگ انتخابات کے دوران لوگوں کے انتخابی عمل میں دلچسپی لینے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر خالی پولنگ کیمپوں اور ویران سڑکوں کی تصویریں ان کے اس گمراہ کن پراپیگنڈا کا پول کھول دیتی تھیں، اب بھارت چاہتا ہے کہ پچیس
لاکھ نئے ووٹر شامل کر لیے جائیں تاکہ آئندہ الیکشن میں دنیا کو بتایا جائے کہ ٹرن آئوٹ بھی زیادہ رہا اور دوسری طرف اپنی مرضی کے انتخابی نتائج بھی حاصل کیے جاسکیں۔ بھارت کی طرف سے غیرریاستی عناصر کو جموں کشمیر میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے پر حریت کانفرنس سمیت تمام کشمیری تنظیموں اور عوام الناس کے مختلف طبقات نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ نے جیل سے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کی تحریک آزادی کے حوالے سے ایک طویل تاریخ ہے اور وہ اس وقت تک کبھی بھی بھارت کے آگے سر تسلیم خم نہیں کریں گے جب تک انہیں اقوام متحدہ کی طرف سے دیا گیا حق خودارادیت نہیں مل جاتا۔ انہوںنے بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتی شہریوں کو ووٹ کا حق دینے کے مودی حکومت کے تازہ اقدام کے بعد نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور بھارتی غلامی کو الوداع کہہ کر کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی میں شامل ہوں۔ اس طرح ہم اپنے وطن اور لوگوں کو خطرے سے بچا سکتے ہیں۔
بی جے پی سرکار کے حالیہ اقدام پرمقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز جماعتوںنے بھی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر کشمیریوں کو ووٹ کا حق دینے کا مقصد انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونا ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ اصل مقصد مقامی لوگوں کو بے اختیارکرنا اور جبرواستبداد کے ذریعے جموں وکشمیر میں حکمرانی جاری رکھنا ہے۔ادھر جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ریاست کے سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے بھی اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا بی جے پی جموں وکشمیر کے حقیقی رائے دہندگان کی حمایت کے بارے میں اتنی غیرمحفوظ ہے کہ اسے نشستیں جیتنے کے لیے عارضی رائے دہندگان درآمد کرنے کی ضرورت پیش آگئی ہے؟۔ مقبوضہ کشمیر کی دوسری جماعتوںنے مودی حکومت کے حالیہ فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کشمیر کے ان بھارت نواز سیاست دانوں کی اپنی سیاست خطرے میں پڑی ہے تو انہوںنے بھی مخالفت میں آواز بلند کرناشروع کی ہے وگرنہ حریت پسند قائدین ہمیشہ انہیں یہی کہتے رہے ہیں کہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے والا بھارت جنت ارضی کشمیر کے خلاف سازشوں سے کسی طور باز نہیںآئے گا، اس لیے انہیں بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرنے سے باز رہتے ہوئے کشمیر کی آزادی کے لیے حریت پسند قیادت کا ساتھ دینا چاہیے لیکن ان کی طرف سے اس حوالے سے کبھی کوئی مثبت قدم نہیں بڑھایا گیا۔ بہرحال اب بھی وقت ہے کہ بھارت نواز جماعتیں انڈیا کی کاسہ لیسی چھوڑ کر صحیح معنوں میں تحریک آزادی کا حصہ بنیں اور کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس سے جدوجہد آزادی کشمیر مضبوط ہو گی اور بھارت کو وہاں اپنے قدم جمانے میں یقینی طورپر مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسی طرح حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ بھارت کے حالیہ دہشت گردانہ اور غیرقانونی اقدامات کے خلاف دنیا بھر کے تمام فورمز پر بھر پور آواز بلند کرے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کو تمامتر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں تاکہ کشمیریوں کو یہ پیغام جائے کہ پاکستانی عوام کا ہر طبقہ مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہے اور وہ کسی بھی مشکل وقت میں اپنے کشمیری بھائیوں کو کسی طور تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button