Columnعبدالرشید مرزا

دم توڑتی معیشت اور حل .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

عمران خان اور شہباز شریف کی حکومت مالی خسارے میں کمی، سرکاری اداروں میں اصلاحات، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بتدریج کمی لانے میں ناکام رہی ہے۔ سیاسی اور معاشی بحرانوں کے شکار ملک پاکستان کی نئی حکومت آخری سانسیں لیتی اور دم توڑتی معیشت بچانے کے لیے اپنی پیش رو حکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔ پاکستانی سرکاری وفد دوحہ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمائندوں کے ساتھ ملکی معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اہم مذکرات کر رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی اقتصادی ٹیم کی کوشش ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے فوری طور پر کم ازکم ایک ارب ڈالر کی پہلے سے طے شدہ قسط حاصل کرلے۔
پاکستانی حکومتیں75 سال سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آ رہی ہیں۔ ہمارے نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا ایسے ہی ہے، جیسے مریض کو ہنگامی طبی امداد کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرایا جاتا ہے اور پھر اسے نارمل وارڈ منتقل کرنے کے بعد صحت یابی پر گھر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستانی معیشت ایسا مریض ہے، جو ہمیشہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں رہا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے مخالف تھے لیکن پھر انہی کی حکومت نے سن 2019 میں بیمار ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام کا معاہدہ کیا۔ موجودہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اس معاہدے کو جون 2023 تک توسیع دلوا سکے۔ حکومت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زمینی حقائق کے بجائے سیاسی مصلحتوں کو مد نظر رکھا تو اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستانی معیشت کبھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔ حکومتیں مالی خسارے میں کمی نہ لا سکیں اور نہ ہی قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی گئی ہیں، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بھی بتدریج کمی نہیں لائی گئی، گندم تک بیرون ملک سے خریدی جا رہی ہے۔ کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے ہنگامی فنڈز لیے لیکن پھر خود کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔ بھارت نے سن 1991 میں آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ انہوں نے اپنا سونا بیچ کر قرض کی رقم واپس کی اور پھر کبھی اُدھر کا رخ نہیں کیا، اسی طرح جنوبی کوریا اور ویت نام کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، جنہوں نے اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کے بعد آئی ایم ایف کا شکریہ ادا کیا اور پھر اسے کبھی نہیں پکارا۔ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر جون 2020 ء کے بعد سے اب تک کی سب سے نچلی سطح 3.10 ارب ڈالر تک آ چکے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ اور نتیجتاً افراط زر کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کو مہنگائی سے بدحال کر رکھا ہے۔ جہاں ایک جانب آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا ہو گا تو دوسری جانب آئندہ انتخابات سے قبل عوام کو تیل و بجلی پر دی جانے والی رعایتیں ختم نہ کرنے کے چیلنج کا سامنا بھی ہو گا۔

پاکستان کو اس وقت معاشی بحران کا سامنا ہے، ذرائع آمدن محدود اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان پر کوئی مشکل آتی ہے تو اس سے صرف حکومت نہیں بلکہ عوام بھی شدید متاثر ہوں گے۔ یہ مشکلات کتنی خطرناک ہوسکتی ہیں یہ جاننے کے لیے
صرف سری لنکا کی مثال کافی ہے جہاں معیشت دیوالیہ ہونے کے بعد ہر چیز کی قیمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے۔ مثلاً پٹرول 150 سے بڑھ کر 290 روپے یعنی ڈبل کے قریب صرف دو ماہ میں پہنچ گیا ہے۔ پاکستان میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی اگر آج سے کوشش کرنا شروع کریں تو اپنے ملک کو مشکل صورتحال سے بچا سکتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ عوام یعنی ہم اور اپ کیسے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور حکومت کی مدد کرسکتے ہیں؟پاکستان کوپٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر سالانہ 17 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ ہم تھوڑی سی کوشش سے گاڑی کا استعمال کم کر کے حکومت کو سالانہ 300 ڈالر تک یعنی گاڑی استعمال کرنے والا ہر شہری قریباً 60 ہزار روپے کا فائدہ پہنچا سکتا ہے جس سے ہمارا امپورٹ بل کم ہوگا اور پاکستان کو ادائیگی کے لیے درپیش مشکلات میں بھی کمی ہوگی۔ پاکستان میں مہنگے موبائل فونز رکھنا فیشن بن چکا ہے اور لوگ نئے ماڈلز کے موبائل فونز خریدنا پسند کرتے ہیں لیکن یہ جان لیں کہ بیرون ممالک سے موبائل فونز امپورٹ کرنا بھی پاکستان کی معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے۔ ملک میں گزشتہ سال قریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے موبائل فونز درآمد کئے گئے ۔ عوام مہنگے فونز کی خریداری کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے روک کر پاکستان کو بھاری بلز کی ادائیگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک طرف کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول سے باہر جارہی ہیں تو دوسری طرف پٹرول کی قیمت بھی قابو میں آنا مشکل ہے ایسے میں ملک میں مہنگی گاڑیاں منگوانا کسی بھی طرح دانشمندانہ اقدام نہیں ہوسکتا۔ پاکستان نے گزشتہ سال ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کی گاڑیاں امپورٹ کیں۔ اگر پاکستانی عوام بحران کے دوران غیر ضروری گاڑیاں منگوانا بند کردیں تو ملک پر معاشی دبائو کم
ہوسکتا ہے۔ پاکستانی عوام چائے کے بہت زیادہ شوقین ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں چائے کی پتی درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو سالانہ قریباً 600 ملین ڈالر تک خرچ کرنا پڑتے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 120 ارب روپے سے زائد بنتے ہیں لیکن اگر عوام چائے کا استعمال کم کر دیتے ہیں تو پاکستان کا درد سر کم ہوسکتا ہے۔ہمارے ملک میں اور کچھ ہو یا نہ ہو دکھاوے کے لیے برانڈڈ اشیا کا استعمال ضروری کیا جاتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان اشیا کے لیے حکومت کو بھاری زرمبادلہ بیرون ممالک کو ادا کرنا پڑتا ہے جس کے اثرات ہماری روزمرہ زندگیوں پر بھی ہوتے ہیں۔ اگر ہم برانڈڈ اشیاء کے بجائے نسبتاً سستی اور مقامی اشیاء کو ترجیح دیں تو ہماری معاشی مشکلات کافی حد تک کم ہوسکتی ہیں۔پاکستان میں خوردنی تیل بھی پٹرول کی طرح معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ملکی ضرورت کا صرف 10 فیصد مقامی جبکہ 90 فیصد خوردنی تیل بیرون ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے حکومت کو قریباً 4ارب ڈالر تک ادا کرنا پڑتے ہیں، لیکن مہنگے اور امپورٹڈ تیل کا استعمال کم کرکے ڈالرز کو ملک سے باہر جانے سے روکا جاسکتا ہے۔پاکستان میں تھرمل بجلی کی پیداوار کے لیے بھی تیل اور گیس کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان تیل اور گیس دونوں چیزوں کے لیے خود کفیل نہیں بلکہ تیل اور گیس درامد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا درآمدی بل بہت بڑھ جاتا ہے لیکن اگر عوام بتدریج بجلی کا استعمال کم کرکے سولر سسٹم کی طرف جاتے ہیں تو بجلی کی پیداوار کے لیے تیل اور گیس کا استعمال کم ہوسکتا ہے جو معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔ہمارے ملک میں چیزوں کا ضیاع بہت زیادہ عام ہے۔ جہاں کسی کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہیں کچھ لوگ آدھا کھانا کھاکر باقی ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر ہم اسراف کی یہ عادت تبدیل کرلیں تو ہمیں اپنے بجٹ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور اشیاء کی طلب میں بھی بہتری لائی جا سکتی ہے کیونکہ جب آپ ضرورت سے زیادہ کوئی چیز خرید کر ذخیرہ کرلیتے ہیں تو مارکیٹ میں اس کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور اس کا خمیازہ قیمتوں میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہوتے جارہے ہیں ایسے میں اگر شہری بڑی تعداد میں بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں تو اس کے لیے بھی ڈالرز میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے جس سے ملک کو مزید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اگر آپ کا سفر ناگزیر نہیں تو آپ کچھ وقت کے لیے اپنا ارادہ ملتوی کرکے ملک کو مشکل سے بچا سکتے ہیں۔ خصوصاً سیرو تفریح کے لیے جانے والے باہر سے زیادہ پاکستان میں سیر و تفریح کو ترجیح دیں تو اس سے ناصرف ملک میں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ ڈالرز کو بیرون ملک جانے سے روکا جاسکتا ہے۔ پوری دنیا میں آن لائن کام کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور بھارت آن لائن خدمات کی فراہمی کے عوض کروڑوں ڈالرز کما رہا ہے جبکہ ہمارے نوجوان بھی درست رہنمائی نہ ہونے کے باوجود ہزاروں ڈالرز کما رہے ہیں۔ یاد رکھیں ۔اس وقت پاکستان کو ڈالرز کی بہت زیادہ ضرورت ہے، آپ بھی اپنے بچوں کو آن لائن آمدن کے لیے تربیت دیں اور آن لائن کام کرنے کی کوشش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈالرز پاکستان کے سسٹم میں شامل ہوں اور ہمارا ملک معاشی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکے یہ ملک ہمارا ہے۔ ہمیں وطن عزیز میں ٹیکس فری انڈسٹریل زونز بنانے ہوں گے جو ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ کی بڑی وجہ بنیں گے۔ ہمیں اپنے زراعت کے سیکٹر کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ ہماری بدقسمتی ہے ترکی کی طرح ہمارے حکمران معیشت کی صحیح سمت کا تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ان کی اب تک کی کوشش رہی ہے کہ معیشت کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا جائے جس سے مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button