ColumnImtiaz Ahmad Shad

کمپنی فلاپ ہو چکی .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

ملک گرداب میں پھنس چکا،ہر سو تاریکی کے بادل گرج برس رہے ہیں۔جس سے بات کرو ،فکر معاش نے نڈھال کر رکھا ہے۔آمدن کہیں سے نہیں اور ادائیگیاں ہر حال میں کرنی ہیں۔مستقبل کی بہتری تو دور اپنے حال میں جینا مشکل ترین ہو چکا۔گفتار کے غازیوں نے ایسا کردار روشناس کروایاکہ خالق کائنات کی پوری زمین پر نہ تو ہم پر کوئی بھروسہ کرتا ہے اور نہ ہی ترس کھاتا ہے۔جسے دیکھو عقل کل اور عقل سلیم کا مالک دکھائی دیتا ہے۔عوامی شعور اور غیرت و حمیت کب کے رخصت ہو چکے۔اجڑے ہوئے چمن میں بہار کی امید لگائے22کروڑ لوگ شب و روز اس امید پر بسر کر رہے ہیں کہ فلاں شخص آئے گا تو ریاست کا نقشہ ہی بدل جائے گا،کھیت کھلیان ہرے بھرے ہو جائیں گے، آسمان سے من و سلوا اترے گا اور ہماری صدیوں کی بھوک مٹ جائے گی۔اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ـ میں اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو اپنی حالت بدلنے کا خود خیال نہ ہو۔کبھی غور کریں کیا بطور قوم ہمارے اندر وہ شعور موجود ہے جو قوموں کی ترقی کا سبب بنتا ہے؟کیا وہ ہم نہیں جو لالچ اور حرص کے پجاری بن چکے؟ہمارے رہنمائوںنے حصہ بقدر جثہ جس انداز سے ریاست اور اس کے وسائل کو نوچا ہے،ٹھنڈے دماغ سے غور کریں کیا گوشت اور خون کے بغیر خالی ہڈیوں کا ڈھانچہ تیز رفتار دنیا کا مقابلہ کر سکتا ہے؟جن پر ہم تکیہ لگائے دہائیاں گزار چکے وہ کبھی ہمارے بارے فکر مند تھے ہی نہیں۔75سال سے قوم اس امید کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے کہ چند دنوں کی بات ہے آنے والا سال ہمارے لیئے خوشیاں لائے گا مگر اسے کیا معلوم بقول منیر نیازی: اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو،دریا کے پار اترا تو میں نے جانا۔2005میں زلزلہ آیا تو ملک کے اندر اور ملک سے باہر موجود مخیر حضرات نے خزانوں کے منہ کھول دیئے آج حالت یہ ہے کہ بلوچستان بارشوں اور سیلاب سے مکمل تباہ ہو چکا مگر کوئی بھی امداد کے لیئے آگے نہیں آرہا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کو ہم پر اعتبار ہی نہیں رہا۔ہمیں نہ تو کوئی قرض دینے کو تیار ہے اور نہ ہی امداد تو سوچئے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ دشنام بازی اور چرب زبانی کا راج ہے۔
ہمارے سیاستدان اپنا وطیرہ بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچئے کہ جن کو ہم نے اپنی نمائندگی کے لیئے چنا،وہ ریاست پاکستان میں کسی قسم کا اسٹیک رکھتے ہیں؟اولاد سے لے کر جائیداد تک ،تعلیم سے لے کر علاج تک سب کچھ ان کا باہر ہے،سیاست کے سوا اس ملک میں ان کا کوئی دھندہ نہیں تو کیا ایسے رہنمائوں پر ہم اپنے بہتر مستقبل کی امید باندھ سکتے ہیں؟ جب تک آپ کا مرنا جینا پاکستان کے ساتھ نہیں ہوتا آپ لاکھ یقین دلاتے رہیں محب وطن یقین نہیں کرینگے۔ جو پاکستانی حالات سے باخبر ہے وہ بہت پریشان ہے۔ اس کی رات کی نیندیں حرام اور دنوں کا چین برباد ہے۔صرف ایک لمحے کو سوچئے کہ کل اگر پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوگئے تو کیا ہوگا؟ سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد گلی کوچوں میں جذباتی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جس کو ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت اور اس کو اقتدار منتقل کرنے سے ٹھنڈا کیا گیا۔ بھٹو کو جو کچھ بھی کہا جائے لیکن وہ سیاستدانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے کہ جن کا جینا مرنا اس ملک سے وابستہ تھا۔ اس کی زندگی کا محورعوام تھے۔ حالات آج بھی اسی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان ،ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مقبول لیڈر ہے ۔ہوسکتا ہے عمران خان میں بے پناہ صلاحتیں ہو ںمگر یاد رکھیں ملک کو جس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے عمران خان ابھی مقبولیت کے اس درجے پر فائز نہیں کہ اس آتش فشاں کی طرح ابلنے والی صورتحال کو کنٹرول کرسکے۔ ابھی وقت ہے ،حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ عمران خان کوئی کردار ادا کر جائے،چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ موجودہ سیاسی رجیم میں وہ سب سے زیادہ عوامی مقبولیت رکھتا ہے۔ اس کی گفتار اور کردار قومی امنگوں کے ترجمان دکھائی دیتے ہیں۔اس کی اٹھان میںعلامہ اقبال کے شاہین کی جھلک واضح ہے۔اقوام عالم سے اس کا خطاب واضح کرتا ہے کہ اگر ایسے شخص کو موقع دیا جائے تو دنیا کی امامت کے راستے پر ملک خدادا دکو ڈال سکتا ہے۔اور کتنے امتحانات سے گزرنا ہے؟جب اخلاقیات سے اقتصادیات تک سب کچھ ہم برباد کر چکے تو اب مزید کیا رہ گیا ہے جس کی بربادی کے لیے ان سب کو متحد کر کے حکومت دے دی گئی ہے جنہوں نے 35 سالوں میں باریاں لگا کر ریاست اور قوم دونوں برباد کر دیئے۔سب کو معلوم ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کا ایجنڈہ کیا ہے؟وہ جس مقصد کے لیے آئے یا لائے گئے اس کی تکمیل وہ مرحلہ وار کرتے جا رہے ہیں۔ان کی منشاء اور مرضی الیکشن اور نیب قوانین میں ترامیم تھی سو وہ کرچکے،اپنے سابقہ کرتوتوں کو چھپانا تھا وہ داغ مٹا چکے ۔این آر او پارٹ ٹو مکمل ہوا ۔ نظام عدل میں تھوڑی بہت مزحمت کرنے کی سکت تھی وہ بھی ختم کرنے کی کوشش میں وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ و ہ آئندہ الیکشن میں جیت کے لیے منصوبہ بنارہے ہیں ان کا خیال ہے کہ عوام کو لولی پاپ دے کر اپنی سیاسی جادو گری سے رام کر لیں گے مگر اس بار یہ انکی بھول ہے ۔سوشل میڈیا نے ان کی تمام چالاکیوں کو ناکام بنا دیا ہے۔اپنے لالچ اور حرص کو پورا کرنے کے لیے اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے جس قوم کو انہوں نے ہجوم بنایا تھا ،وہی ہجوم اب ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔یہ کمپنی فلاپ ہو چکی۔یہ چورن اب نہیں بکے گا۔اتحاد بنا کر حکومت میں آنے اور انہیں لانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہجوم کا غصہ طوفان بنتا ہے تو پھر کوئی سلامت نہیں رہتا۔پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ان کی ہر چال الٹی پڑی ہے۔عمران خان پاکستان کی تاریخ کا پہلا وزیر اعظم ہے جس کو اقتدار سے نکالا گیا تو عوام نے کندھوں پر بٹھا لیا ورنہ اس ملک کی تاریخ ہے کہ جب بھی کسی کو اقتدار سے ہٹایا گیا ،مٹھائیاں بانٹی گئی۔سیاست کو سیاست لیا جائے ۔ ریاست کو بچانے کے لیے ضد اور انا کے پہاڑ توڑنا ہوں گے ۔عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے سٹاک مارکیٹ میں مسلسل مندی ہے۔ ڈالر آسمان سے باتیں کر رہا ہے،پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔بجلی جس قدر مہنگی کی جارہی ہے عوام بل ادا نہیں کر پائیں گے،سول نافرمانی ہماری منتظر ہے۔ان تمام حالات میں روزگار کے مواقع نہ ہونے سے مزدور طبقہ پریشان ہے ْ۔ سرمایہ دار ملک سے سرمایہ نکالنے کی تگ و دومیںہے۔سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والوں کے سوا کسی شخص کے پاس پیسا نہیں آرہا، جو سرکاری ملازم ہیں ان کے پاس جو تنخواہ آرہی ہے اس سے گھر چلانا ممکن نہیں، تو یقینی بات ہے ہجوم بپھر جائے گا،اور پھر شاید ہماری داستاں تک نہ رہے داستانوں میں۔ موجودہ صورتحال سے ملک کو نکالنے کا واحد حل صاف شفاف الیکشن ہے۔ سب سٹیک ہولڈرز ملک و قوم کے مفاد میں ایک میز پر بیٹھیں۔ وطن عزیز کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button