ColumnZameer Afaqi

اقتصادی بدتری ،کیا کوئی سوچ رہا ہے؟ .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پاکستان گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل اقتصادی بحران کا شکار چلا آرہا ہے ، مہنگائی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی جبکہ غریب آدمی تو دور کی بات سفید پوش اور درمیانے درجے کے خاندانوں کی بھی مہنگائی سے چیخیں نکل رہی ہیں۔ اس پر المیہ یہ ہے کہ حکومت نام کی شے کے ناں ہونے سے ہر طرف من مانی دکھائی دے رہی ہے، حکومت کی جانب سے اگر کسی چیز میں ایک روپیہ بڑھتا ہے تو مارکیٹ کی قوتیں دس روپیہ اضافہ کرتی ہیں، عوام بہت بری طرح پس رہی جس کا کو ئی پرسان حال نہیں۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں پٹرول، بجلی جیسی چیزوں کی قیمت بڑھنے سے ہر طرف ہاہا کار مچ جاتی ہے جبکہ ڈالر کی اڑان نے کسی بھی چیز کی قیمت کو مستحکم رہنے نہیں دیا، جس سے کروباری طبقہ کے ساتھ عام آدمی بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
ادھر ہماری سیاسی ایلیٹ ایک دوسرے کو گرانے کے چکر میں ملک کے عوام کو ہی گرا رہی ہے ،مسلسل سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار پاکستانی عوام مضطرب ہیں اور موجودہ صورتحال میں بہتری کے شدت سے خواہاں ہیں۔ خبریں دیکھ لیں یا سروے جن میں عام شہری خود کو درپیش معاشی مشکلات کے حل کی خواہش ظاہر کرتے نظر آرہے ہیں۔ 2018کے انتخابات کے بعد سے پاکستانی سیاست اور معیشت پہلے بے یقینی اور پھر مسلسل بحرانی حالات کا شکار رہی ہے ۔ آج کے پاکستان میں عام آدمی کی زندگی جہاں مہنگائی، بیروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے، وہیں عوامی سطح پر مخالفت سے بھرپور سیاسی دھڑے بندیوں نے بھی بہت معاشرتی بگاڑ پیدا کیا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے ہی پاکستان شدید نوعیت کے اقتصادی بحران کا شکار ہے جبکہ سیاست دانوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی اور جوڑ توڑ ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی معاشی ہے ۔عوام کی ملک کے کرتا دھرتاؤں سے کیا توقعات ہیں۔یاد رہے جدید دور کی کسی بھی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اور اسے پولیٹیکل اکنانومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اگر ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو، یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں صرف سیاست دانوں کو معیشت کی بدحالی کے لیے مورد الزام ٹھہرانا معقول بات نہیں۔ اس لیے کہ سیاسی عدم استحکام کی کچھ بنیادی وجوہات میں سے ایک ملک کا سکیورٹی اسٹیٹ ہونا ہے، پاکستان ایک جوہری طاقت ہونے کے باعث عسکری طور پر تو مضبوط ہے مگر سیاسی معیشت عسکری پالیسیوں کی تابع بھی ہے۔ اسی لیے انسانی وسائل کی ترقی عدم توجہ کا شکار ہے۔ جب تک فوج، عدلیہ اور نوکر شاہی سیاسی معیشت کا استحکام یقینی بنانے پر مجبور نہیں ہوں گی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال دونوں جاری رہیں گے۔
یہ جاننے کے لیے کے لیے کسی ارسطو کے ذہن کی ضرورت نہیں ایک مائیک پکڑیں اور کسی بھی شاہراہ پر کھڑے ہوجائیں اور شہریوں سے سوال کریں تو آپ کو جس طرح کے جواب ملیں گے کہ اس کا نتیجہ اخذ کیاجائے تو اس کے مطابق پاکستانی عوام کا بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ ان کو نہ تو روزگار میسر ہے اور نہ ہی ریاست کی طرف سے کوئی مدد۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر، مہنگائی، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کے نرخوں اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ لوگوں کے پیٹ میں کوئی لقمہ جائے گا تو ہی کوئی سیاست اور سیاست دانوں کے بارے میں سوچے گا۔پاکستان کے عام شہریوں کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور معیشت بحران کا شکار ہے، عام شہریوں کی گذر بسر مشکل ہو چکی ہے۔ سیاست دانوں کو برا بھلا کہنا آسان بات تو ہے مگر یہ بات سمجھنا ناگزیر ہے کہ سیاسی استحکام ہی بہتر معیشت کا ضامن ہو سکتا ہے۔
شہری ریاستی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب تو غریب شہری کو جینے کا کوئی حق ہی نہیں ایک چار سے پانچ افراد کا گھرانہ جن کے گھر میں کوئی مرد کام کرنے والا بھی نہ ہو کی کیا حالت ہو گی اس کا اندازہ بجلی کا بل لیے مدد مانگتی خواتین سے ہو جاتا ہے۔ لیکن جہاں اشرافیہ کے کان آنکھیں ہی بند ہوں وہاں اس طرح کے المیے نظر نہیں آتے۔ گھروں میں کام کرنے والوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہماری تو عمر گزر گئی لوگوں کے برتن مانجھتے مانجھتے لیکن اپنا آج تک کچھ نہیں بنا۔ بس ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ ملک تو صرف غریبوں کا خون چوسنے کے لیے بنایا گیا ہو۔ اب تو برملا یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں طاقت ور حلقے جب تک کسی بھی عوامی حکومت کو اس کے اختیارات کے جائز استعمال کی اجازت اور آزادی نہیں دیں گے، ملکی معیشت اسی طرح سر کے بل کھڑی رہے گی اور عوام کے مصائب میں اضافے کا باعث بنتی رہے گی۔پاکستان میں جب تک سب سیاست دان مل کر ملک کر سیاسی اور اقتصادی دونوں حوالوں سے بہتر بنانے کا فیصلہ نہیں کریں گے، تب تک کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ عوام تو ووٹ دے دے کر تھک گئے ہیں لیکن ان کے حالات بدل جانے کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
لوگ تو اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عام آدمی تو بس اپنے مالی وسائل اور مشکلات کا موازنہ کرتے فکر مند ہی رہتا ہے۔ اس کے لیے ذاتی معاشی ترقی تو آج بھی بس ایک خواب ہی ہے۔پاکستان میں آج کل ایک خاص سیاسی جماعت کو ہر ادارے سے تحفظ مل رہا ہے۔ کبھی عدلیہ کوئی اچانک فیصلہ کر کے سیاسی استحکام کو دھچکا دیتی ہے تو کبھی کوئی ادارہ کوئی نئی سیاسی اسکیم پیش کر دیتا ہے۔ ان حالات میں معیشت کی بہتری ناممکن ہے۔ سیاسی معامالات میں ملک کے غیر سیاسی اداروں کی آئندہ بھی بے وجہ مداخلت روپے کی قدر کو اور گرائے گی اور عام آدمی کے لیے مہنگائی کا طوفان شدید ہوتا جائے گا۔
ملکی سیاست پر نگاہ رکھنے والے دانشوروں اور معاشی ماہرین کے مطابق معیشت اور سیاست ساتھ ساتھ ہی چلتی ہیں۔ جب تک جمہوریت اور سیاست میں استحکام نہیں آئے گا، معیشت کی حالت نازک ہی رہے گی۔ ہم نے فوجی صدر پرویز مشرف کے دور کا اقتصادی بلبلہ دیکھا ہے، جو پھٹا تو دو جمہوری حکومتوں نے اسے سنبھالا دیا تھا مگر خود ان حکومتوں کو سنبھلنے نہیں دیا گیا تھا۔ ‘ہائبرڈ رجیم نے معیشت کا جو حشر کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہو گا کہ معیشت کو ٹھیک کس نے کرنا ہے؟ ٹیکنوکریٹس نے، عدلیہ نے، اسٹیبلشمنٹ نے یا کسی اور نے؟ دنیا بھر میں تو یہ معاملات سیاست دان ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں آپ سی پیک منصوبے ہی کی مثال لے لیں، جو اب بدترین مثال بن چکا ہے۔
سیاسی استحکام اور اقتصادی مضبوطی دونوں ایک دوسرے کے بغیر غیر یقینی ہی رہیں گے۔ پاکستانی معیشت ہی مسائل کی اصل وجہ ہے اور پھر سیاسی عدم استحکام ان مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح پندرہ فیصد ہے، جو اگلے سال بیس فیصد تک ہو جانے کا خدشہ ہے تو یہ ایک عام پاکستانی کے لیے کسی عذاب سے کم ہے کیا؟ معیشت گڑھے میں گرتی جا رہی ہے اور سیاسی جماعتیں پارلیمانی رائے دہی کے نتیجے میں فیصلوں تک کی تشریح کے لیے اعلیٰ ترین عدلیہ سے رجوع کرتی ہیں۔ تو ایسے میں سیاسی استحکام اور اقتصادی ترقی کس طرح ممکن ہو پائے گی۔ضروت اس امر کی ہے کہ تمام ریاستی ادارے محکمے ، سیاسی و مذہبی جماعتیں مل جل کر ایک تو اپنے اخراجات کم کریں اور دوسرا معاشی میدان میں اصلاحات لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں ورنہ دو دومرلے کی گاڑیوں پر گن مینوں کے ساتھ پھرنا اور کنالوں کے گھروں میں رہنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button