ColumnNasir Naqvi

واہ!ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ .. ناصرنقوی

ناصرنقوی

بدقسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ 75سالگرہ منانے والی پاکستانی قوم نامساعد حالات، بحرانوں اور قائداعظم جیسا لیڈر نہ ملنے کے باوجود دنیا کی ساتویں اوراسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت تو بن گئی لیکن ایک متحد قوم نہیں بن سکی۔ لہٰذا اس یکجہتی کے مظاہرے اور عالمی سطح پر اپنی انسان دوست طاقت اور اتحاد کو منوانے کے لیے کسی سانحے کا انتظار کرنا پڑتا ہے یعنی جب تک کوئی زمینی ، آسمانی یا دنیاوی آفت ہمارا گلا نہ دبائے ہم بحیثیت قوم خواب خرگوش کے مزے محض اپنے فائدے میں لوٹنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ جنگ 65 ، 2005ء کا زلزلہ، قرضوں کی بہتات میں ڈی فالٹ کا خوف اور ازلی دشمن بھارت کی دشمنی میں پاکستانیوں نے جن خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اس سے دنیا حیران و پریشان رہ چکی ہے لیکن ہم نے کبھی بھی حالات اور بحرانوں سے نہ کچھ سیکھا اور نہ ہی سیکھنے کو تیار ہیں۔ تین آمرانہ ادوار کی ناانصافیوں نے ہمیں زبردستی سکھایا کہ لنگڑی لولی جمہوریت آمریت سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ لہٰذا لنگڑی لولی جمہوریت ہی مقدر بن چکی ہےاور ہمارے تمام لیڈربات بات پر علامہ اقبال مفکر پاکستان کے خواب سے شروع کر کے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ ہم ان کی زبان و بیان کے طلسم سے باہر نکلنے کی طاقت ہی کھو چکے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں صرف یہ رہ جاتا ہے کہ خواب کی تعبیرہے پاکستان۔ اچھے اچھے خواب دیکھیں گے تو مستقبل میں بہترین تعبیر بھی ملے گی، مایوسی گناہ ہے،مالک کائنات نے اسلام کے نام پر مملکت محمد علی جناحؒ اور ان کی رفقاء کی جدوجہد کی جھولی میں ڈال دی۔ یہ 27رمضان المبارک 14اگست 1947ء کودنیا کے نقشے پر بغیر کسی جنگ کے وجود میں آئی اس لیے تاقیامت نہ صرف رہے گی بلکہ شہریوں کی ترقی و خوشحالی کا باعث بنے گی کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ تحریک آزادی میں صالح قیادت کی کامیابی صدق دل سے کی جانے والی جدوجہد ہی بنیاد تھی۔

ملک اپنے کرتوتوں اور حکمرانوں کی کرامات سے دولخت کرا لیا پھر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اپنے اپنے خواب سجائے بیٹھے ہیں۔ کسی محب وطن سے یہ سوال کر دیں کہ حالات اچھے نہیں، کیا بنے گا؟ جواب ملے گا اللہ بہتر کرے گا۔ پوچھیں کہ آپ اس کی بہتری کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ جواب آئے گابھائی ہمارے کرنے سے کچھ نہیں ہو گا، ہمارے حکمران اور سیاستدان ہی بے کار ہیں ہم بھلا کیا کر سکتے ہیں؟ اگر آپ یہ کہہ دیںحضور! اس بار الیکشن میں انہیں مستردکر دو، سب ٹھیک ہو جائے گا تو بولیں گےجناب! ووٹ تو صرف نام کا ہمارا ہوتاہے، برادری، چودھری، نمبردار، صنعت کار ہمیں بے وقوف بنا کر اپنا اُلو سیدھا کر لیتے ہیں ۔ ان کے اپنے مفادات ہیں اس لیے ہمیں صرف پارٹی منشور اور اس کی افادیت کی کہانی سناتے ہیں خود ان کی کہانی کچھ اور ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہر صاحب اقتدار نیک، ایماندار اور حقیقی خدمت گار ہوتا ہے جونہی تخت تختہ بنتا ہے سب کے سب چور، ڈاکو اور کرپشن کے بادشاہ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ تنقید، الزامات اور مقدمات کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ آج کے حکمران اقتدار میں آنے کے بعد بھی مقدمات بھگت رہے ہیں،بلکہ ماضی کے حکمرانوں ریاست مدینہ کے وارثوں کے خلاف بھی مقدمات درج ہو چکے ہیں، صادق اور امین تبدیلی سرکار کے خان اعظم انکار کے باوجود ایک درجن سے زائد مقدمات میں ضمانت کرا چکے اور فرزند پنڈی شیخ رشید احمد بھی عمران خاں پر جان نچھاور کرنے کا اعلان کرنے کے بعد ضمانت پر اس لیے مجبور ہو گئے کہ خودکشی حرام ہے، بے موت نہیں مرنا۔ انہوں نے لانگ مارچ پر بہادری اور دلیری کی تاریخ رقم کرنی تھی لیکن وہاں بھی بات اس لیے نہیں بنی کہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے راولپنڈی اسلام آباد جڑواں شہروں پر مسلح جتھوں کی مدد سے راستے بند کر کے شہری زندگی معطل کر دی۔ آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ہوائی فائرنگ بھی کی گئی ایسے ماحول میں بہادری اور دلیری کا مظاہرہ ممکن ہی نہیں تھا، نہ ہی عوام سڑکوں پر اس تعداد میں تھے ، جس کا دعویٰ تھا ایسے بُرے حالات میں بہادری اور دلیری کی جنگ بھی خودکشی بن جاتی ہے اس لیے مجبوراً ارادہ ترک کر دیا۔
واہ!ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ اقتدار مل جائے تو سب کچھ ہماری محنت اور جدوجہد کا ثمر،چھین لیا جائے تو سازش؟ اقتدار میں یہ بالکل نہیں سوچتے کہ معصوم عوام اور ووٹرز اپنی جگہ، ہم تو درپرہ طاقتوں سے ہاتھ ملا کر یہاں تک پہنچے ہیں لہٰذا فکر لاحق ہونی چاہیے کہ کہیں اور ہتھ جوڑی نہ ہو جائے اور ہم بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح سازش کے بیانیے پر کھیلنے پر مجبور ہو جائیں، لیکن مقتدرہ قوتیں سیاست دانوں اور عوام کو اپنی طاقت سے ایسی گولیاں اور ٹیکے لگا دیتی ہیں کہ مسند اقتدار خودپرستی کے نشے سے نکلتا ہی نہیں،اُس کے اردگرد ایسےڈیوٹی فل لوگوں کا حصار قائم کر دیا جاتا ہے جو اسے اٹھتے بیٹھتے اس بات کا احساس کراتے ہیں کہ تجھ سا دوسرا کوئی نہیں، جو دعویدار ہیں وہ کم تر ہیں اسی لیے انہیں منہ نہیں لگایا گیا۔ بس یہی منتر جنترچلتا ہے اور اس کے پائوں زمین پر نہیں لگتے، بھلااس میں استحکام کہاں ہو سکتا ہے جس کے پائوں ہی زمین پرنہ ہوں، بنیاد ہمیشہ زمین سے ہوتی ہےمعلق تو عجوبہ ہوتا ہے اور عمارات خواہ خواہشوں کی ہو کہ مفادات کی بے بنیادکی بے قدری اور منہدم ہونا لازم امر ہے۔
ہمارے طرزِ عمل نے رواداری اور برداشت کا خاتمہ کر کے ذاتی مفادات پر اجتماعی مفادات سے ٹکر لے لے تب سیاست کی موجودہ ابتری دیکھنے کو ملی، یہی کارروائی ہر شعبہ میں جاری ہے اور نتائج بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، سیاست کے ساتھ صحافت بھی لونڈی بن گئی۔ دونوں خدائی خدمت گاری کے داعی اب مشن اور خدمت چھوڑ کر کاروباری ہو گئے لہٰذا عزت و تکریم نہیں، اعتماد بھی کھو بیٹھے، اب لگائو نعرے چور، چور، ڈاکو ، ڈاکو، زرد صحافت، لفافے ،کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، جنہیں لوٹا ازم کا شاہکار قرار دیا جارہا ہے، وہ اختلاف رائے رکھنے والے جنگجو ہیں، کہتے ہیں نظریہ ضرورت دفن ہو چکا لیکن آپ اس کا عملی مظاہرہ جگہ جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ سیاسی اعلیٰ ظرف اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، آئینی منحرف شرمندہ ہرگز نہیں، کیونکہ یہ عادی مجرم ہیں پہلے بھی اختلاف رائے میں اڑان بھر کے اقتدار کے لیے عمران خان کی چھتری پر بیٹھے تھے، آج بھی اختلاف رائے پر اڑ گئے یہی جمہوری حسن ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب نظریہ ضرورت پر عمران خاں کے حمایتی بنے تھے تو درست تھا، اب تبدیلی سرکار گھر چلی گئی تو یہ لوٹے ہیں اس دور نے ایک اور ستم ڈھایا کہ صحافت کے باصلاحیت اور سپر سٹارز کی فصل کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا یہ کارنامہ موکلوں نے دکھایا کہ چمک نے، کوئی تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے اصولی دلیری اور بہادری کے نام پر پروان چڑھایا گیا۔ خان اعظم کی یادداشت نے ساتھ نہیں دیا کہ وہ میڈیا کے کندھوں پر سوار ہو کر میدان سیاست کے شہسوار بنے تھے، وجہ درپردہ گھوڑوں کی سواری تھی اسی لیے انہوں نے میڈیا کی بجائے گھوڑوں پر اعتبار کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس قدر پُراعتماد ہو گئے کہ ہوا کے گھوڑے پر سیاسی رفعتوں کو چھونے لگ گئے اردگرد ڈیوٹی فل لوگوں نے ایسی قصیدہ خوانی کی کہ انہیں اپنے طویل اقتدار کا جنون محسوس ہونے لگا، ذہن ایسا خراب ہو اکہ اگر کرپٹ اور چور تیس سال اقتدار میں رہ سکتے ہیں تو عدالت عظمیٰ سے صادق اور امین کی ڈگری حاصل کرنے والا 30سال حکومت کیوں نہیں کر سکتا، یقیناً کسی کی خواہش پر اچھی بُری پر پابندی ممکن نہیں، تاہم اس حقیقت سے مسلسل انکار کیا گیا کہ جانوروں یعنی گھڑ سواری کے شوقین کو کبھی کبھار دولتی بھی کھانی پڑتی ہے ا س صورت حال میں مقابلہ کرنا دل گردے کا کام ہوتا ہے جو عمران خان سے ابھی تک نہیں ہو سکا۔ انہیں اپنا اقتدار خواب محسوس ہو رہا ہے اور خواب بکھرنے پر لاڈلا اور اس کے حواری اس قدر پریشان ہیں کہ ان کے سامنے اب کوئی قابل عزت نہیں، کسی کی پرواہ نہیں،
تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز ایک ہی بولی بول رہے ہیں جو ہم جیسے سے بطور مثال لکھی بھی نہیں جا سکتی لیکن وہ بول کر داد حاصل کر رہے ہیں بلکہ ٹی وی سکرین اور یوٹیوب پر بھی وہی گالم گلوچ جاری ہے ان کا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی امپورٹڈحکومت کا مہمان خاص ہے پھر بھی کسی وقت بھول جاتے ہیں کہ ملکی صدر ہیں تحریک انصاف کے نہیں، لہٰذا اچانک ان کی زبان بدل جاتی ہے تاہم کھلاڑی صحافی عمران ریاض خان کی عید کی خوشی میں رہائی پر زبان بندی قبول کی جا چکی ہے۔ یہ وہی دلیر اور بہادر ہے جس کا اعلان 10سال کی قید کاٹنے کے بعد بھی اپنی ثابت قدمی کا عہد تھا لیکن صرف تین دن میں اٹک، اسلام آباد، چکوال اور لاہور کے تھانے کی سیر کر کے بولنے کی پابندی قبول کر بیٹھے ہیں۔ دوسرے اہم حمایتی ایک خواجہ سرا کے ہاتھوں عزت کروا کر یہ بتا چکے کہ صحافت پر اس قدر بُرا وقت آن پڑا ہے پولیس، خفیہ والے اور دیگر پر ہیجڑے سبقت لے گئے۔ یہ بغیر ہتھیار اس قسم کاقاتلانہ حملہ کرتے ہیں کہ اچھے بھلے ڈائریکٹر نیوزکو بھاگ کر جان بچانی پڑتی ہے۔ یقیناً یہ صورت حال عظیم پیشہ صحافت کے لیے بدنامی نہیں، بے توقیری کا باعث بننے کے بعد سوال اٹھا رہی ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ صحافت کی اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیا ہو گی؟ بھلا ہواینکر پرسن غریدہ فاروقی کا جنہوں نے ٹویٹ کر کے صحافت کی عزت بچا لی کہ اس لڑائی جھگڑے کو صحافت کا کارنامہ نہ سمجھیں۔ حقیقت میں یہ لین دین کا سادہ سا کیس ہے۔ خواجہ سرا کی جانب سے پٹائی بھی زیادہ سے زیادہ کتنی ہو سکتی ہے؟ وہ تو بے چارے مارتے نہیں، گھسیٹتے ہیں۔ واہ!ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ سیاست کے بعد صحافت بھی ’’بے آبرو‘‘ ہو گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button