ColumnRoshan Lal

 17 جولائی کے ضمنی الیکشن .. روشن لعل

روشن لعل

ضمنی انتخابات ، جمہوری عمل کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں۔کسی بھی ضمنی انتخاب کی اہمیت عام انتخابات جیسی تو نہیں ہوتی لیکن اسمبلیوں میں کسی بھی وجہ سے خالی ہونے والی نشستوں پر طے شدہ مدت میں یہ انتخابات کرانا ضروری ہوتے ہیں تاکہ کسی بھی حلقہ کے عوام پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم نہ رہیں۔ عام انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلیوں کی آئینی مدت کے دوران کسی نہ کسی وجہ سے کسی نہ کسی حلقہ نیابت کی نشستیں خالی ہوتی رہتی ہیں اور ان پر ضمنی انتخابات کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ گو کہ ضمنی الیکشنوں کا انعقاد ایک آئینی تقاضا ہے لیکن روایت ہے کہ یہ انتخاب عام انتخابات کی طرح عوام ، میڈیا اور حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یکساں توجہ اور دلچسبی کا باعث نہیں بن پاتے۔ اس قسم کی سابقہ روایات کے برعکس پنجاب اسمبلی کی خالی ہونیوالی بیس نشستوں پر جو ضمنی انتخابات 17جولائی کو منعقد ہو رہے ہیں ان کے لیے عوام، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا رویہ یکسر مختلف نظر آرہا ہے۔عام انتخاب اور ضمنی انتخاب کا ایک فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ اول الذکر میں انتخابی مہم کا مرکز سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جبکہ آخری الذکر کے دوران انتخابی مہم کی سرگرمیاں امیدواروں کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ موجودہ ضمنی انتخابات میں مختلف چیز یہ نظر آرہی ہے کہ ان میں حصہ لینے والے امیدواروں کی سیاسی جماعتوں اور مرکزی قیادت نے ان کی انتخابی مہم کا بیڑہ خود اٹھایا ہوا ہے۔

پاکستان میں اب تک کوئی ایسے انتخابات منعقد نہیں ہوئے جن کے دھاندلی زدہ ہونے کا شور نہ مچایا گیا ہو۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے انتخابی نتائج کے بعد دھاندلی کا شور مچایا جاتا ہے جبکہ عام انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران ہی دھاندلی کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کر دیا جاتا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران عمران خان اور تحریک انصاف کی طرف سے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ تاثر ظاہر کیا جا چکا ہے کہ اگر ان کی پارٹی کے نامزد امیدوار ان انتخابات میں ناکام رہے تو ایسا صرف دھاندلی کی صورت میں ممکن ہوگا۔ عمران خان کی طرف سے اس قسم کا بیانیہ سامنے آنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر انتخابی نتائج ان کی خواہش کے مطابق ظاہر نہ ہوئے تو وہ کس قسم کے رد عمل کا مظاہرہ کریں گے۔ عمران خان کے حوالے سے یہ بات عیاں ہے کہ سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے بعد جس انتخاب کے نتیجے میںانہیں وزیر اعظم بنایا گیا اس کے علاوہ وہ ہر انتخاب کو دھاندلی زدہ کہتے ہیں۔
عمران خان کے متعلق یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ 17 جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن کو کیوں دھاندلی زدہ اور کیسے شفاف قرار دے سکتے ہیں۔ عمران خان ان انتخابات کے نتائج کے متعلق کیا رائے ظاہر کریںگے ، ان باتوںسے قطع نظر ہم اس عام انتخاب کے نتائج کو آئینہ بنا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ وزیر اعظم بنے تھے اور یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جب عمران خان کے بقول دھاندلی نہیں ہوئی تھی تو کس قسم کے نتائج برآمد ہوئے تھے۔
17 جولائی کو جن بیس نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں،2018 کے عام انتخابات میں 20نشستوں میں سے11  پر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے نہیں بلکہ آزاد حیثیت میں حصہ لینے والے امیدوار کامیاب ہوئے۔ آزاد حیثیت میں الیکشن جیتنے والے ان گیارہ امیدواروں نے عمران خان کی آشیر باد سے کی گئی جہانگیر ترین کی خاص کوششوں سے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، لہٰذا جب ان گیارہ لوگوں نے حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ دیا تو پی ٹی آئی کا رکن اسمبلی تصور کرتے ہوئے انہیں ان کی نشستوں سے محروم کر دیا گیا۔ عام انتخابات میں یہ لوگ جن نشستوں پر آزاد حیثیت میں جیتے تھے ان میں سے سات پر بلے کے نشان پر الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار اور شیر کے نشان پر الیکشن میں حصہ لینے والے مسلم لیگ نون کے تین امیدوار دوسرے نمبر پررہے تھے۔ بیس نشستوں میں سے جن 9 پر پی ٹی آئی کے امیدوار جیتے تھے ان میںسے7 پرمسلم لیگ نون اور دو پر آزاد امیدواردوسرے نمبر پرآئے تھے۔جن بیس نشستوں پر ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں ان کے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق اگر چوتھی پوزیشن تک آنے والی پارٹیوں کی بات کی جائے 12 نشستیں ایسی تھیں جن پر تحریک لبیک پاکستان دوسرے سے چوتھے نمبر پر رہی اور اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے9 نشستوں پر تیسری اور چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں تحریک لبیک پاکستان نے تو مختلف نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں لیکن پیپلز پارٹی اتحادی حکومت کا حصہ ہونے کی وجہ سے تمام بیس نشستوں پر مسلم لیگ نون کے امیدواروں کی حمایت کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ ان نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد قریباً دوہزار سے بارہ ہزار کے درمیان رہی تھی ۔ پیپلز پارٹی کے ان ووٹروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اپنی پارٹی کے امیدوار کی جیت کا امکان نہ ہونے کے باوجو د انہوں نے صرف اپنی سیاسی وابستگی کے اظہار کے لیے ووٹ ڈالا تھا ۔ اس ضمنی انتخاب میں ان کے یہ ووٹ مسلم لیگ نون کے امیدواروں کھاتے میں جانے کا قوی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
ضروری ہے کہ یہ بھی بیاں کر دیا جائے کہ 2018 کے عام  انتخابات کے بعد پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کی جن 22  نشستوں پر وقتاً فوقتاً ضمنی الیکشن ہوئے ان میں کس پارٹی نے کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پنجاب میں عام انتخابات کے دوران صوبائی اسمبلی کی جن دونشستوں پر الیکشن نہیں ہو سکے تھے ان پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایک سیٹ مسلم لیگ نون اور دوسری پی ٹی آئی نے جیتی ۔ ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون کے امیدواروں نے تین ایسی نشستوں پر کامیابی حاصل کی جو عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے جیتی تھیں، اسی طرح مسلم لیگ کی چھوڑی ہوئی دو نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ اس دوران اگر ن لیگ پنجاب میں اپنی چھوڑی ہوئی 10 میں سے7 نشستیں دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو پی ٹی آئی اپنی چھوڑی ہوئی 9 میں سے 5 سیٹیں دوبارہ حاصل کر پائی ۔پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کی چھوڑی ہوئی ایک ایک سیٹ ایسی بھی تھی جس پر کسی سیاسی جماعت کی بجائے آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔
جن بیس سیٹوں پرپنجاب میں ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں اور جن 22 نشستوں پرضمنی الیکشن ہو چکے ہیں ان کا خلاصہ یہاں بیان کر دیا گیا ہے ۔ اس خلاصے  سے کسی نہ کسی حد تک یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں کس قسم کے  نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button