Columnمحمد مبشر انوار

ڈوبا تو نہیں ہوں! .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

سوشل میڈیا ایک طرف اگر زحمت ہے تو دوسری طرف رحمت بھی ہے کہ اس پرصرف منفی چیزیں ہی میسر نہیں بلکہ بہت سی کارآمد معلومات بھی میسر ہیں،اب یہ صرف پر منحصر ہے کہ وہ سوشل میڈیا سے کیسے مستفید ہوتا ہے۔ مجھے ایک واٹس ایپ گروپ میں بھارتی ٹی وی چینل ٹی وی 9پر ایک بیورو رپورٹ ملی اور دیکھ کر انتہائی افسوس اور ندامت ہوئی کہ جو باتیںاس رپورٹ میں کی گئی ہیں،ان سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ انہیں ہضم کرنے میں بھی شدید تامل ہی نہیں بلکہ غیر یقینی بھی ہے۔یہاں اس بیورو رپورٹ کا متن تحریر کر رہا ہوں کہ دنیا بالعموم اور بھارت بالخصوص پاکستان کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے اور اس کے پس پردہ محرکات و نیت کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق’’معاشی صورتحال کے باعث حکومت پاکستان ،بھارت کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑی ہے،حکومت یا عوام سب بھارت سے مدد کی امید لگائے ہوئے ہیں۔

 

بات بات پر ایٹم بم کی دھمکی دینے والے پاکستان پر مہنگائی کا ایسا بم پھٹا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی بائیس کروڑ عوام جھلس گئی ہے۔ لاہور ہو یا راولپنڈی ، اسلام آباد ہو یا پشاور،کراچی ہو یا ملتان،ہر طرف ہاہاکار مچی ہے،لوگوںدانے دانے کے لالے پڑے ہیں، پاکستان میں آٹا ، دال ، چاول اور پٹرول سب میں آگ لگی ہے۔ اپنے ملک کی حالت سدھارنے کے لیے شہباز شریف پوری دنیا کے سامنے جھولی پھیلا چکے ہیں،کبھی چین توکبھی سعودی عرب،ترکی اور امریکہ سے مدد مانگ چکے ہیں،اس کے باوجود پاکستان کے حالات ابھی تک بگڑے ہوئے ہیں۔اتنا ہی نہیں پاکستان دنیا میں جس کو اپنا سب سے بڑا بنک سمجھتا ہے وہ چین بھی اب پاکستان کو دھتکار رہا ہے،قرض دینے سے انکار کررہا ہے،ایسے میں کنگالی کی حالت سے گذر رہا ہے۔ پاکستان کی امید صرف ایک دیش سے جڑی ہے اور وہ ہے بھارت۔ دنیا بھر کے امیر ممالک اور بنکوں سے قرض لینے میں ناکام رہنے والا پاکستان اب بڑی امید سے بھارت کی طرف دیکھ رہا ہے، حالات ایسے ہیں کہ چند روپوں کی خاطر پاکستان گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو بھی تیار ہے،وجہ ہے مہنگائی بم،

 

جس نے پاکستان کی ساری اکڑ ڈھیلی کردی ہے۔ دراصل کشمیر میں آرٹیکل 370ہٹانے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کر دئیے تھے مگر اب وہاں کاروباری حلقے ہی نہیں بلکہ سیاسی قیادت اور طاقتور حلقے بھی بھارت سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔آپ خود دیکھیں ،پہلا بیان،پاکستان پہلے ہی دنیا میں الگ تھلگ پڑا ہوا ہے،ایسے میں بھارت کے ساتھ رشتے توڑنا کسی بھی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں،دوسرا بیان بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنا پاکستان کو مشکلات سے نکالنے میں معاون ہوں گے،اس پر حکومت پاکستان کو دھیان دینا چاہئے۔ مطلب یہ ہے کہ اب بھارت سے تعلقات بحال کرنے سے پاکستان کی حالت سدھر سکتی ہے اور اس پر غور ہو رہاہے لیکن پریشانی یہ ہے کہ نئے وزیراعظم اب بھی ہچکچا رہے ہیںحالانکہ شہباز شریف خود بھارت سے اچھے رشتے قائم کرنے کی وکالت کرچکے ہیں لیکن ابھی بھی دنیا کے سامنے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے وزیراعظم کو دقت ہو رہی ہے حالانکہ شریف سرکار نے پاکستان کی ڈوبتی اکانومی کو سنبھالنے کے لیے سپر ٹیکس بھی لگایا ہے لیکن اس سے بہت پاکستان کو فائدہ نہیں ہوا کیونکہ عوام کی جیب خالی ہے۔

 

یوں حکومت کی ٹیکس حاصل کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی ایسے میں پاکستان کے حالات اس لیے بھی بدتر ہو رہے ہیںکہ چین نے پاکستان کو مدد کے نام پر قرض تو دے دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ الٹی میٹم بھی دے دیا ہے کہ اس کے بعد اب کچھ نہیں ملے گا اور اس بات سے پاکستان کے ہوش اڑے ہوئے ہیں کہ جلد ہی آخری قسط کے نام پر جو قرض ملا ہے وہ بھی ختم ہونے والا ہے،جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کا حقہ پانی اب بند ہو جائے گا،ہر گذرتے دن کے ساتھ اس کا بیڑا غرق ہو رہا ہے‘‘
جب سے یہ رپورٹ دیکھی اور سنی ہے،سکتے کا سا عالم ہے کہ اس رپورٹ میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے،اس سے کس طرح انکار کروں کہ حالات و واقعات چیخ چیخ کر اسی طرف اشارہ کرر ہے ہیں ماسوائے اس حقیقت کے کہ جو انداز بیان رپورٹر کا ہے،جو الفاظ وہ استعمال کررہا ہے،جو تاثر وہ بنانا چاہ رہا ہے اور جس طرح بھارت کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے،وہ بعینہ ویسی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور قوتیں کارفرما ہیں۔ ان قوتوں سے سب ہی واقف ہیں اور اس انداز کو سری لنکا میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح معاشی چنگل میں پھنسایا کرپورے ملک میں افراتفری برپا کی گئی ہے،کیسے ایک خاندان کی سرپرستی کی گئی ،کس طرح اس خاندان کی کرپشن سے نظریںچرائی گئی اور آخرکار سری لنکا جیسے انتہائی خوبصورت ملک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر لیا گیا۔

 

جمہوریت کے پس پردہ شخصی و اقربا پروری میں آمریت کو کس طرح پروان چڑھایا گیا ،کیسے عوام کاا ستحصال جاری رہا اور کیونکر ملکی وسائل’’کرپشن؍لوٹ مار‘‘ کی نذر ہونے کے باوجود اس سے پردہ پوشی جاری رہی۔یہ سب انداز واضح طور پر معیشت کو تباہ کرنے کے لیے،ملکی خود مختاری و سالمیت سے دستبردار کروانے کے لیے ،منظم انداز میں جاری رہے اور آج سری لنکا کی خود مختاری و سالمیت ، اقتدار کی رسہ کشی میں ختم ہوتی نظر آتی ہے،حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آتی اور عوام الناس بپھری ہوئی امراء کے تخت و تاج کو اچھالتی نظر آ رہی ہے۔ وزراء و مشیران کے محلوں کو آگ لگانے کے منظر دیکھے جاسکتے ہیں،وزیراعظم ہاؤس کو نذر آتش کیا جا چکا ،وزراء کی سرعام جوتوں ،ڈنڈوں سے تواضح ہو رہی ہے،مہنگی ترین گاڑیوں کو توڑا جا رہا ہے،انہیں آگ لگائی جا رہی ہے لیکن کہیں کوئی ایسا انتظام نہیں کہ اس بے قابو ہجوم کو روکا جا سکے۔انارکی ،خانہ جنگی مسلسل بڑھ رہی ہے اور پس پردہ عالمی طاقتیں جو سری لنکا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی،وہ استعمال کر کے درحقیقت چین کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے لیے مشکلات کھڑی کر چکی ہیں۔ پاکستا ن میں موروثی سیاست اور ان کے ہمنواؤں کے لیے یہ بازار گرم ہو رہا ہے کہ عوام اس رپورٹ کے مطابق بپھر رہے ہیں اور عوامی جگہوں پر موروثی سیاست کرنے والوں پر آوازیں کسنا شروع ہو چکے ہیں،عوام کو سمجھ لگ رہی ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت کے ذمہ دار کون ہیں ، پاکستان کے مارکوس اور راجہ پکسا کون ہیں؟

اس رپورٹ میں چین کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے،اس میں وزن ہے اور حالات اس طرف واضح اشارہ بھی کر رہے ہیں کہ اب چین کو ممکنہ طور پر سی پیک کی ضرورت اپنی مصنوعات کی ترسیل کے لیے تو ہو گی مگر تیل کی ضرورت یا ترسیل کے لیے اب سی پیک کی وہ اہمیت نہیں رہی۔ روس اور یوکرین کی جنگ اور اس کے نتیجہ میں چین کو ارزاں نرخوں میں زمینی راستوں سے تیل کی دستیابی نے اسے سی پیک کی فوری ضرورت سے بہت حد تک آزاد کردیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے اندرونی حالات نے بھی چین کو کسی حد تک متنفر کر دیا ہے۔ہمارے سیاسی اکابرین کسی بھی طور کشکول سے جان چھڑاتے نظر نہیں آتے اورنہ ہی خودانحصاری کی طرف جانے کے لیے تیار ہیں، ساری دنیا سے قرض کی مے پر عیاشی کرنے والوں نے پاکستان کو بھکاری بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ دنیا اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ کس سیاستدان نے پاکستان کو کتنا لوٹا ہے اور اس لوٹ مار کا مال کہیں کہاں موجود ہے۔اس پس منظر میں ریاستی سطح پر دوست ممالک پاکستان کی مدد کرنے سے کترارہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستانی سیاسی قیادت پاکستانی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہے ،جو مدد وہ کرتے ہیں،

 

اس سے پاکستان یا پاکستانیوں کا بھلا نہیں ہوتا بلکہ چند خاندان اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔حیرت تو اسو قت ہوئی ہے جب ایک طاقتور شخصیت نے رجیم چینج کے بعد یہ کہا کہ کرپشن کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے،اگر کرپشن اتنا بڑا مسئلہ نہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ذاتی پسند نا پسند یا آقاؤں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا،جو موجودہ حکومت کر رہی ہے اور جس کی وجہ سے بھارتی رپورٹریہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کابیڑا غرق ہو رہا ہے(نعوذ باللہ،خاکم بدہن)۔ پاکستان کو اس حالت سے نکالنے میں کون کامیاب ہوتا ہے کہ ایسے میں سجاد علی کا گانا ذہن میں ابھر رہا ہے جو ریاست پاکستان کی پکار لگتا ہے کہ میں ڈوب رہا ہوں ،ابھی ڈوبا تو نہیں!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button