ColumnNasir Sherazi

عید میری غارت ہوگئی .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

کوئی آپ سے کہے کہ ملک بھر میں عید جوش و جذبے سے منائی گئی تو براہ کرم اس پر یقین نہ کیجئے گا، امسال ایسا نہیں ہوا، ویسے بھی سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کا زمانہ نہیں رہا، عید سے قبل بازاروں میں رونق نہ تھی، رونق بڑھانے کے لیے جو چہرے خاص طور پر عید سے قبل رات کو رونق بڑھانے کے لیے آتے ہیں وہ لٹکے ہوئے نظر آئے، برسات کے موسم میں حبس بڑھ جاتا ہے جس کے سبب انسان کا بہت کچھ لٹک جاتا ہے ، سوائے امید کے، امید برقرار رہتی ہے کہ بارش برس جائے تو سکھ کا سانس آئے، میں نے جن چہروں کا ذکر کیا ان میں کچھ کتابی چہرے بھی تھے لیکن انہوںنے زندگی بھر کبھی کتاب کو چھوکر نہ دیکھا تھا، انہیں حسابی چہرے کہنا چاہیے، یہ حساب کے ماہر ہوتے ہیں، انہیں کسی کی جیب میں ہاتھ ڈالے بنا ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ کس جیب میں کتنا مال ہے، کتنا حلال ہے، کتنا حرام کا ہے، حرام کا مال اور ایسا مالدار انہیں ازحد عزیز ہوتا ہے، عید کی رونقیں برباد کرنے میں وزارت خزانہ کا اہم کردار ہے، ویسے تو اس وزارت کا کوئی کردار رہا ہی نہیں لیکن وزیر خزانہ نے ڈیفالٹ کا ڈرا وا دے کر دل کھول کر چیزوں کی قیمتیں بڑھائیں، ایسا کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی نہ پوچھا کہ قوم کی بوٹی چھوٹی رکھنی ہے یا موٹی، وہ اندھا دھند بغدہ چلاتے رہے، یوں بکرا عید پر بکرے کی بجائے انسانوں کا قیمہ ہوگیا۔

ملک بھر میں لاکھوں فرزندان توحید کی طرح میری عید بھی برباد ہوئی لیکن اس کی وجہ مفتاح اسماعیل نہیں بلکہ جناب وزیراعظم تھے، کمر توڑ مہنگائی کردینے کے بعدانہوں نے اعلان کیا کہ وہ عوام کو مہنگائی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے کپڑے تک بیچ دیں گے، یہ اعلان میرے ڈوبتے ارمانوں کو سہارا دینے کے لیے کافی تھا، مجھے یقین تھا کہ شہبازشریف ایسا ہی کریں گے کیونکہ وہ اپنی بات کے پکے ہیں، جو ایک مرتبہ کہہ دیں وہ کرگذرتے ہیں، ماضی میں بھی انہوں نے جب جو کیا وہ کردکھایا، پس میں نے بے تابی سے ان کے دورہ لاہور کا انتظار شروع کردیا، وہ ہمیشہ لاہور سے منتخب ہوکر صوبائی اسمبلی اور اب قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں، لہٰذا قرین ازقیاس یہی تھا کہ وہ اپنے کپڑے بیچنے کا آغاز بھی لاہور سے کریں گے، رائے ونڈ میں اپنا گھر موجود ہونے کے باوجود وہ وہاں مستقل نہیں رہتے، شہباز ہونے کے ناطے اور علامہ اقبال سے روحانی تعلق کے سبب ان کا ٹھکانہ مختلف پہاڑوں کی چٹانوں پر رہتا ہے، ان میں سے ایک ٹھکانہ ماڈل ٹائون بھی ہے، بہت سوچا مگر ایک گتھی نہ سلجھی کہ وہ اپنے کپڑے بیچنے کا آغاز کیسے کریں گے، ماڈل ٹائون میں ہی کہیں ایک سٹال لگائیں گے یا ڈور ٹو ڈور جاکر یہ نیک کام سرانجام دیں گے، ان کے سٹاف افسر سے جاننے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی، یہ تصور بہت خوش کن تھا کہ چارمرتبہ کا وزیراعلیٰ اور اب وزیراعظم پاکستان جب اپنے کپڑے بیچے گا تو یہ ٹرکوں میں بھر کر لائے جائیں گے، ان میں ان کے اپنے خریدے ہوئے کچھ لندن، امریکہ، مڈل ایسٹ کی اہم شخصیات اور کچھ ان کے ذاتی دوستوں کی طرف سے دیئے گئے بیش قیمت ڈیزائنر ملبوسات ہوں گے، جو انہیں گذشتہ تیس برسوں میں بطور تحفہ ملتے رہے ہیں، ان میں بیشتر تو بکسوں میں بند یا الماریوں میں لٹکے ہوں گے، کیونکہ شہبازشریف صاحب کو جب بھی دیکھا، نیلے، سبز اور بسکٹ کلر کی شرٹ میں دیکھا، پتلونیں وہ دو ہی رنگ کی پہنتے ہیں، ایک سیاہ اور دوسری ہلکی سلیٹی رنگ کی، کچھ ایسا ہی معاملہ ان کے سوٹوں کا ہے، وہ گہرے نیلے رنگ کا سوٹ شوق سے پہنتے ہیں جبکہ سفید سوٹ اور دھاری دار سوٹ بھی کبھی کبھار پہنے نظر آتے ہیں، جب سے وزیراعظم بنے ہیں انہوںنے ہیٹ پہننا چھوڑ دیا ہے، شاید انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ مخالف ہوا سب سے پہلے ہیٹ کو اڑالے جاتی ہے۔
میں نے اپنے ذہن کو ہر دو قسم کی صورتحال کے لیے تیار کرلیا تھا کہ ماڈل ٹائون میں سٹال لگنے کی خبر آئی تو بھاگ کر وہاں پہنچ جائوں گا اور اگر شہبازشریف ڈور ٹو ڈور کپڑے بیچنے نکلے تو بھی وہ ماڈل ٹائون سے ہوتے گلبرگ اور پھر صراط محبت عبور کرتے ہوئے کینٹ میں داخل ہوجائیں گے جہاں ان سے ملاقات ہوجائے گی، میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ میں ایک شلوار قمیص برائے نماز عید اور ایک پینٹ شرٹ ان سے اونے پونے خریدوں گا، اسی سوچ میں گم بلکہ مست کہنا چاہیے، میں نے ان کا انتظار شروع کردیا، دن گذر رہا تھا، میری تشویش میں اضافہ ہورہا تھا، میری نظریں اورکان گیٹ کی طرف تھے، ہر آہٹ پر یوں لگتا تھا وہ آئے ہوں جیسے، ایک دو مرتبہ تو کھٹکا سن کر میں باہر کی طرف لپکا لیکن یہ جھونکا ہوا کا تھا، دن ڈھل گیا، رات بیت گئی، وہ نہ آئے، صبح ہوئی تو گذشتہ عید پر خریدا شلوار قمیص پہنا تو اپنی قسمت پر بہت رونا آیا کہ میرے نصیب میں شہبازشریف کا شلوار سوٹ بھی نہیں، لیکن میں سوچوں میں گم نماز عید کی ادائیگی کے بعدگھر واپس آتے ہوئے دائیں بائیں بغور دیکھتا رہا کہ شاید کہیں دور سے قافلہ شہباز آتا نظر آجائے، تمام دن اسی انتظار میں بیت گیا، وہ نہ آئے، میں ناامید نہ ہوا بلکہ دل کو تسلی دیتا رہا کہ عید صرف ایک روز نہیں بلکہ تین روز ہوتی ہے، عین ممکن ہے وہ عید
کے دوسرے یا تیسرے دن کپڑے بیچنے نکلیں، اس خیال کو ایک اور سوچ سے تقویت ملی کہ پہلا دن ہر شخص اپنے گھر پر گذارتا ہے، دوسرا دن شادی شدہ افراد کے لیے سسرال ڈے ہوتا ہے جبکہ تیسرا دن وہ دوستوں کے ساتھ گذارتا ہے، شہبازشریف ملک کے مقبول رہنما ہیں، بہت سے لوگ انہیں گھر ملنے آتے رہے ہوں گے،دوسرے دن انہوں نے سسرال بھگتانے ہوں گے، پس تیسرے روز وہ کپڑے بیچنے ضرور نکلیں گے، شومئی قسمت تیسرا دن نصف سے زیادہ گذرا تو میری تشویش میں اضافہ ہوگیا میری تمام امیدیں دم توڑ گئیں، میں بھاگم بھاگ منڈی مویشیاں پہنچا، مریل سے بکرے ہی بچے تھے، کچھ تو دیکھنے میں ایک اُس پالتو جانور جیسے لگتے تھے جو ہر متمول گھرانے میں پالا جاتا ہے اور اپنی اولاد کی طرح اس کا منہ بھی چوما جاتا ہے، کچھ صاحبان ذوق اسے اپنے ساتھ بستر پر سلاتے ہیں، ویڈیو وائرل کرکے امریکیوں کا قریب حاصل کرتے ہیں۔
بھائو تائو کے بعد ایک ننھے سے بکرے کا معاملہ فائنل ہوا تو اس کاپہلے سے ٹوٹے ہوئے سینگ کا ٹکڑا زمین پر گر گیا، مالک نے میرے سامنے اپنے چھوٹے سے ایلفی منگواکر اسے جوڑا اور کہنے لگا لیجئے صاحب! آپ کا بکرا تیار ہے، میں نے اسے کہا کہ میں یہ بکرا نہیں خریدوں گا، یہ عیب دار ہے، جواب ملا اس میں کوئی عیب نہیں، یہ ری کنڈیشن بکرا ہے، آپ لوگ ری کنڈیشن گاڑیاں بڑے شوق سے خریدتے ہیں، بکرا ری کنڈیشن ہو تو باتیں بناتے ہیں، میں اس کی سنی ان سنی کرکے آگے بڑھ گیا، زیادہ تر بکرے ایسے ہی تھے، کچھ کن ٹٹے تھے، کچھ باتیں بنانے والے زیادہ تھے، پلے ان کے کچھ نہ تھا، ایک اور بکرا مناسب لگا، اس کا منہ کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا وہ بھی کسی ماہر ڈینٹل سرجن کا مستقل کلائنٹ ہے، میں ناکام واپس لوٹنے ہی والا تھا کہ ایک شخص دو لیلے لیے میرے قریب آیا اور کہنے لگا سرجی! آپ شکل سے امیر آدمی لیکن گفتگو سے غریب آدمی لگتے ہیں، میں آپ کی پسند کی قیمت پر یہ بھائیاں دی جوڑی آپ کودے سکتا ہوں، میں نے غور سے دیکھا ایک لیلا تو ٹھیک تھا لیکن دوسری  کچھ لیلی سی تھی، اس شخص سے پوچھا یہ کیا تو کہنے لگا سرجی بکروں اور لیلوں میں بھی خواجہ سرا ہوتے ہیں، میں خاموش رہا، میں اسے کیا بتاتا کہ مجھے اس حال میں شہبازشریف نے پہنچایا ہے، میرا پروگرام تھا شہبازشریف کی شرٹ پر ان کا آٹو گراف لیتا اور پھر اسے کروڑوں میں فروخت کرکے کروڑ پتی بن جاتا، بلیک منی کو وائٹ کرنے کا یہ جدید طریقہ بھی ہے، عید میری غارت ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button