Ahmad NaveedColumn

باجڑہ گڑھی کے ہیرو .. احمد نوید

احمد نوید

یہ پاکستان کے ایک چھوٹے سے گائوں صرف  باجڑہ گڑھی کی کہانی نہیں، بلکہ پاکستان کے ہر اُس گائوں اور کچے گھر کی کہانی ہے جہاں فضل نبی جیسا مزدور اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا خواہش مند ہے ۔ تعلیم سمت کا تعین کرتی ہے ، وژن دیتی ہے اور سماجی رتبہ بدل کر وہ مقام عطا کر تی ہے ، جہاں آپ لوگوں کیلئے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔تعلیمی سہولیات کے فقدان کے باوجود پاکستان میں اکثریت فضل نبی جیسے لوگوں کی ہے جو اس بصیرت اور شعور سے مالا مال ہیں کہ گھر کی دیوار یں بے شک کچی رہ جائیں مگر بچوں کی تعلیم ، تربیت اور کردار کو اس قدر مستحکم کرنا ہے کہ وہ صرف اپنا سہارہ ہی نہ بنیں بلکہ ملک کی         عظمت اور خدمت میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے شعبہ باٹنی کے ریٹائرڈ سربراہ پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد مرزا چھ بہن بھائیوں میں فضل نبی کے سب سے چھوٹے صاحب زادے ہیں ۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، پنجاب یونیورسٹی اور دیگر بہت سے تعلیمی اداروں میں ساٹھ سال سے بھی طویل عرصے تک طلبہ کو تعلیم سے فیض یاب کیا۔ اِن ساٹھ سالوں میں اگر ان کے طلبا اور طالبات پر مشتمل شاگردوں کو شمار کیا جائے تو وہ ہزاروں میں بنتے ہیں۔ گویاہزاروں خاندانوں کے بیٹے اور بیٹیوں کو تعلیم سے ہمکنار کرکے صرف اُن خاندانوں کو استحکام نہیں بخشا بلکہ پاکستان کو مضبوط اور توانا بنایا، لیکن یہ کارنامہ اور چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ رک جاتا ،اگر پروفیسر ڈاکٹر رشید صاحب کے بڑے بھائی نذیر احمد ایف ایس سی میں نسبتاً کم نمبر آنے پر مزید تعلیم کے لیے  اُن کا اسلامیہ کالج میں داخلہ نہ کرواتے۔

پروفیسر رشید صاحب کا کہنا ہے کہ ہر گھر میں ایک فرد ہوتا ہے جو فادر آف دی فیملی بن کر سب کا ہاتھ پکڑ کا نئی راہیں دکھاتا ہے ، نئی منزلوں سے ہمکنار کرتا ہے ۔ پاکستان میں غالباً ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں ، جہاں کسی ایک فرد نے تمام کنبے کو تبدیلی اور ترقی کی راہ دکھائی ۔ رشید صاحب کا ماننا ہے کہ اُن کے بڑے بھائی نے فضل نبی کی اولاد کے ہر خالی کینوس میں رنگ بھرے اور اُسے ایک شاہکار بنا دیا۔ درحقیقت یہ وہ عمل ہے، جسے اختیار کرنے اور نہ کرنے سے براہ راست معاشرہ اور ملک متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے آس پاس بعض اوقات بہت سے رشید جب میٹرک یا ایف ایس سی جیسے امتحانات سے فارغ ہوتے ہیں تو وہ اہل خانہ کی کم توجہی یا بے خبری سے مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں یا پھر ایسی تعلیم کی جانب قدم بڑھا لیتے ہیں جو اُن کے مستقبل کے لیے خاطر خواہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی۔

ہمیں نذیر احمد بن کر سوچنا اور اُس نسل کو برباد ہونے سے بچانا ہے ۔

اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 76 فیصد نوجوان مالی وجوہات کی وجہ سے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔ 2017میں یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیاء میں افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہے ،جہاں نوجوان کم عمری میں ہی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں ۔ یقینی طور پر ایسے حالات میں کنبے کا کوئی ایک فرد ہی آگے بڑھ کر اپنے بچوں یا چھوٹے بہن بھائیوں کا تعلیم سے سلسلہ جوڑ ے رکھ کر اُنہیں مضبوط اور با اختیار بنا سکتا ہے ۔ ہر وہ فرد جو نذیر احمد بن کر کنبے کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو جاننے کی کوشش کرتا ہے اور اُن چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بہتر اور نئے راستے تلاش کرتا ہے ۔ اِس معاشرے اور ملک کی ترقی اُسی صاحبِ عرفان کی مرہون منت ہے ۔

کھلے ملتے ہیں مجھ کو در ہمیشہ
میرے ہاتھوں میں دستک بھر گئی ہے

نذیر، رشید اور ان کے بہن بھائیوں کی کہانی بھی در اور دستک کی کہانی ہے ، جہاں والدین بوڑھے ہو جائیں تو بڑا بھائی اُس دروازے کی شکل اختیار کر لیتا ہے ، جہاں سے وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی کامیابیوں کی دستک سننا چاہتا ہے ۔ ایک سایہ دار شجر جو تیز دھوپ برداشت کرکے چھوٹے بہن بھائیوں کو چھائوں دیتا ہے ۔ گوارنمنٹ کالج یونیورسٹی کے باٹنی کے ریٹائرڈ ہیڈ پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد صاحب کے والدین ، چھوٹی بہن اوردیگر کچھ قریبی عزیز 1965 کی جنگ میں سیالکوٹ باجڑہ گڑھی گائوں میں شہید ہو گئے تھے ۔

آج رشید صاحب کے بچے ڈاکٹر ز ہیں اور ایک صحت مند پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اگر کئی دہائیاں پہلے رشید احمد مرزا ایف ایس سی کے بعد تعلیم سے ڈراپ آئوٹ ہوجاتے ، جس کی شرح پاکستان کے دیہی علاقوں میں بہت زیادہ ہے ، تو یقیناً گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا شعبہ باٹنی ایک نہایت قابل استاد سے محروم رہتا ۔ اُن کے بچے ڈاکٹرز بن کر ملک کی خدمت نہ کر پاتے ۔ یہ سب کچھ تعلیم سے ممکن ہو پایا۔

پاکستان میں تمام صوبائی تعلیمی محکموں کو سکولوں میں طلبہ کے داخلے کے لیے  جارحانہ مہم اختیار کرنا ہوگی۔ مفت نصابی کتب اور مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام شہروں کے سرکاری سکولوں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں طالب علموں کو مفت کھانے کے ساتھ ساتھ مالی وظائف سے بھی تعلیمی شرح کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔پنجاب میں قریباً 54ہزار سرکاری سکول ہیں، جن میں ایک کروڑ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں ۔ اِن میں سے قریباً پچاس فیصد پرائمری کلاسز میں ڈراپ آئوٹ ہوجاتے ہیں، آگے چل کر مزید بیس فیصد طالب علم تعلیم سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

پنجاب سمیت ہر صوبے میں تعلیم چھوڑنے کی پہلی بنیادی وجہ غربت ہے ۔ سرکاری سکولوں میں دسویں جماعت تک لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو تعلیم مفت فراہم کی جارہی ہے ۔ اِس کے باوجود غریب والدین اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کروانے پر راضی نہیں ۔ ہاں فضل نبی جیسے مزدور جنہیں تعلیم کی افادیت کا شعور ہے ۔ نذیر احمد جیسے بڑے بھائی جنہیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تنزلی منظور نہیں ، وہ غریب ہونے کے باوجود معاشرے اور ملک کی تعمیر کا جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ وہ اہل عرفان ہیں جو علم ، بصیرت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ اِن میں احساس ہوتا ہے ، وژن ہوتا ہے ، جرأت ہوتی ہے ۔ یہ باکمال ،با حوصلہ لوگ ملک کے حقیقی گمنام ہیروز ہیں ، جو پنجاب کے باجڑہ گڑھی جیسے دیہات میں پیدا ہوتے ہیں ۔

ہم ذات کے کنکر ،پر ہیرے کی طرح  ہیں
ہم بجھ کے بھی منظر میں سویرے کی طرح ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button