Ali HassanColumn

پاکستان اور سری لنکا .. علی حسن

علی حسن

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے تگنی کے ناچ والی بات کے بعد کہا ہے کہ آئی ایم ایف ناک سے لکیر نکلوانے کے بعد بھی پیسے دینے میں تاخیر کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس مرتبہ پاکستان کو قرضہ دینے کے معاملہ میں جتنی تاخیر کی اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ یہ تاخیر شکوک و شبہات کا سبب بھی بنتا ہے۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان پر اپنی کچھ ایسی شرائط لگانے پر کمر باندھ رہا ہے جس کی تفصیل کے بعد پاکستان کے حکمران طبقہ کے دانتوں تلے پسینہ آجائے گا۔ مفروضہ پر بات کرتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف یہ کہے کہ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کی جائے تو پاکستانیوں کا کیا رد عمل ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ حکمران طبقہ اپنی ضروریات کی روشنی میں تو اسے قبول کر لے لیکن کیا عام پاکستانی اس شرط کو قبول کرے گا؟ ایک اور مفروضہ جس پر دانشور حلقے بات کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر بھی کسی قسم کا قد غن عائد کرے تو اس صورت میں پاکستانیوں کا رد عمل کیا ہوگا؟ آئی ایم ایف کا کوئی منصوبہ ہو یا نہ ہو لیکن بھارت کی تو ان دونوں معاملات پر دیرینہ خواہش ہے۔ دیکھنا تو یہی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے ناک کی لکیر کتنی لمبی کھنچواتاہے۔

ایسی صورت میں پاکستانی سیاست دانوں کو ضرورت سے زیادہ بردباری،تحمل، برداشت اور  دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ حکمران طبقہ کو بہت تحمل کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ انہوں نے آئی ایم ایف، چین یا دیگر غیر ملکی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی واپسی کے بارے کچھ سوچا بھی ہے یا بس قرضہ پر ہی زندگی گزرنے کافیصلہ کیا ہے؟یہ قرضے ایسے مہاجنوں کے ہیں جو کپڑے تک فروخت کراکے ننگا کھڑا کر کے غلاموں کی طرح فروخت کردیں گے اور پھر کوئی بھی محفو ظ نہیں رہ سکے گا۔ بھر پور سہولتوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا شاہانہ مزاج خاک میں مل کر ڈھیر ہو جائے گا۔ صرف بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات کو زندگی اور موت کا درجہ ہی نہیں بنانا چاہیے۔انتخابات میں ہار اور جیت تو لازمی ہوتی ہے۔ جہاں تک برداشت کا معاملہ ہے تو ایک سے زائد بار وفاقی وزیر رہنے والے احسن اقبال اس کے مظاہرے میں ناکام رہے۔ اگر کچھ لوگوں نے کسی غیر
ملکی(امریکی)چائے خانہ میں ان کے خلاف نعرے لگائے تو انہوں نے کہا کہ ــ’’ یہ وہ چہرے ہیں جن کی تربیت عمران نیازی نے ہٹلر کی پلے بک سے کی ہے‘‘ عام زندگی میں لوگ انہیں پڑھا لکھا سمجھتے ہوں گے لیکن تہذیب محض تعلیم سے نہیں آتی۔
والدین کی تربیت، صحبت اور زندگی میں انسان کسے فالو کرتا ہے، یہ عناصر انسان کو خواہ وہ کتنا تعلیم یافتہ ہو اسے گنوار بھی بنا سکتے ہیں۔ پلٹ کر کوئی انہیں یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ کی تربیت تو آپا نثار کے ہاتھو ں ہوئی ہیں اور آپا نثار کی تربیت جن ہاتھوں میں ہوئی ہے انہیں تو دھو کر پیا جاسکتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اپنی خامیوں، کوتا ہیوں اور اپنے معاشرتی رویوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ہمارے سیاست دان کسی سطح پر بھی عوام کو وقت دینے پر تیار ہی نہیں ہوتے ۔ کبھی بھی کہیں بھی عوام الناس سے بات نہیں کی جاتی ہے۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے سیاست دان عوام کو ایک سدھائے ہوئے جانور سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے جو صرف اپنے مالک کے پیچھے چلتا رہے۔ افسوس کے ساتھ بھی کہنا پڑتا ہے کہ عوام الناس کے ساتھ مکالمہ ضروری ہے۔
سندھ کے ایک شہر میں ایک خندق نما جگہ سے کچھ ہاری نمودار ہوئے تو ان میں سے کسی کو بیگار کیمپ کے لوگ،کمی کمین یا ہاری تصور کرتے ہیں۔ اسی کا جواب ان کے رویوں میں جھلکتا ہے۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے، انہیں حیدر آباد کے قریب ایک نجی جیل کا دورہ کرایا گیا۔ ایک نے پوچھا کہ’’ کیا یہ بادشاہ ہے‘‘۔ یہ حالت اس عوام کی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی عدالت میں جاکرجمہوریت کے بارے میں فیصلہ لیں گے۔ سیاست دان نا جانے کس دنیا میں بستے ہیں۔ وہ کیوں نہیں دیکھتے یا سمجھتے کہ عوام کو جب موقع ملتا ہے تو وہ اپنے ملک کے صدر کے گھر پر دھاوا بول کر گھس جاتے ہیں اور اس کے سوئمنگ پول میں نہا کر اپنی محرومی کا ازالہ کرتے ہیں۔یہ چھوٹی چھوٹی محرومیاں جب جمع ہوجاتی ہیں تو ہی ملک جل کر راکھ ہوتے ہیں۔
کئی لحاظ سے سری لنکا اور پاکستان کے حالات میں بڑی حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔ توجہ اور تفصیل کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ صدر کے محل پر قبضہ ہو چکا ہے۔ وزیر آعظم کے گھر پر بھی آگ لگا دی گئی ہے۔ صدر کے خاندان کے لوگ جو حکمرانی پر دندنا رہے تھے ،غائب ہو چکے ہیں۔ عوام اس سے پہلے وزراء کو سڑکوں پر قتل بھی کر چکے ہیں۔ حکمران کہیں کے بھی ہوں سمجھتے ہی نہیں کہ جب عوام بپھرتا ہے تو وہ کسی کی نہیں سنتا ہے۔ اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں سمجھتی ہیں کہ ریاست کی طاقت کو استعمال کرکے بپھرے ہوئے عوام کو قابو کر لیا جائے گا۔ سری لنکا کے2019سے شروع ہوئے بدترین اقتصادی بحران نے تخت و تاج کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ انتخابات جیتنے کے لیے  غیر حقیقی اقدامات سے ملک معاشی تباہی میں چلاگیا،ٹیکسوں میں کٹوتیاں اور بھاری سب سڈی دینے کے اعلانات نے خزانے خالی کردیئے۔ سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ معاشی بدانتظامی،بیرونی قرضوں میں اضافہ، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی،کرنسی کی قدر میں گراوٹ  اوربڑھتی ہو ئی مہنگائی ہے، عوامل ٹیکسوں کی کٹوتیاں، نوٹ چھاپنے کے اثرات ہیں۔ حکمران اتحاد کی طرف سے اکثریت کھو دینے سے سیاسی انتشار بڑھ گیاہے ۔
سیاسی بحران اور ناقابل یقین مہنگائی نے ملک بھر کو سراپا احتجاج میں تبدیل کردیاہے۔ حکومت نے 2005میں الیکشن جیتنے کے لیے کسانوں کو کھادوں پر بھاری سبسڈی دینے کا اعلان کیا جسے ماہرین نے تباہ کن فیصلہ قرار دیا لیکن یہ سبسڈی سولہ سال سے زائد تک جاری رہی جسے گزشتہ سال کے آخر پر ختم کیا گیا۔ (پاکستان میں بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، صحت کارڈ، ایک سو یونٹ بجلی بلا معاوضہ فراہم کرنے کا معاملہ غور طلب ہے)سری لنکا1965سے 2016تک آئی ایم ایف سے سولہ بار قرض پروگرام میں گیااور یہ قرض سخت شرائط کے ساتھ لیے گئے جن میں بجٹ خسارے میں کمی،غذائی اشیا پر سبسڈی کے خاتمے، مانیٹری پالیسیوں میں سختی اور کرنسی کی قدر میں کمی شامل تھی۔ 1948میں آزادی کے بعد ملک کو پہلی بارایسے شدید بحران کا سامنا ہے۔سری لنکا کی کرنسی کی قدر گر چکی،ایک ڈالر 360سری لنکن روپے کے برابر ہے۔ سری لنکا کا قرض سے جی ڈی پی تناسب 2019میں42فیصد تھا جب کہ 2021 میں 119 فیصد ہوچکاہے۔رواں برس8ارب 60 کروڑ ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر ڈھائی کروڑڈالر رہ گئے۔   (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button