ColumnRoshan Lal

ہمارا نظامِ انصاف .. روشن لعل

روشن لعل
قدرت کے بنائے چہروں کے خدوخال کو انسانوں کے بنائے ہوئے خوبصورتی یا بدصورتی کے معیار کے مطابق کوئی نام دینے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس انسانوں کے تراشیدہ، ڈھانچوں کے متعلق رائے دینے کا حق کسی سے بھی چھینا نہیں جانا چاہیے۔ انسان اپنے ہاتھوں سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی کچھ ڈھانچے تخلیق کرتے ہیں۔یہ ڈھانچے مورتیوں،  مشینوں، عمارتوں اور حتیٰ کہ کسی نظام کے بھی ہو سکتے ہیں۔ جن نظاموں کے ڈھانچے انسانوں نے تخلیق کیے ان میں ایک ڈھانچہ نظام انصاف کا بھی ہے۔ کسی بھی شے کی تخلیق میں سب سے بڑا کردار اس کی طلب کا ہوتا ہے۔ کسی بھی تخلیق کے ساتھ اگر طلب کا عنصر جڑا نہ رہے تو نہ اس کا وجود پائیدار ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں ارتقا ممکن ہوپاتا ہے۔اگر نظام انصاف کی بات کی جائے تو قدیم ترین زمانوں میں اس کی طلب نے ہی اس کی تخلیق کا جواز پیدا کیا تھا۔ انصاف کی طلب کا اولین احساس پیدا ہونے میں جنگل کے قانون،  جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے خلاف نفرت نے محرک کا کردار ادا کیا۔ جنگل کے قانون کے خلاف زمانہ قدیم کے انسانوں کی بغاوتوں اور قربانیوں نے یہ تصور قائم ہونے کی راہ ہموار کی کہ انصاف اور ناانصافی میں کیا فرق ہے۔
انصاف کا تصور پیدا ہونے کے بعد انسانوں نے ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ جیسے جنگل کے قانون کو مسترد اور متروک قرار دے دیا۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد آج صورتحال یہ ہے کہ کتابوں میں متروک ہونے کے باوجود بھی  یہ قانون ہماری عملی زندگی سے موقوف نہیں ہو سکا۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں انصاف کا جو بھی نظام رائج ہے، ان میں سے شاید کسی بھی ملک کے نظام انصاف کو’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کے اثرات سے مکمل طور پر پاک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن ملکوں میں انصاف کی دیوی کے ہاتھوں میں پکڑا ہوا ترازو انتہائی متوازن نظر آتا ہے وہاں بھی اگر ترازو کے انتہائی قریب جا کر باریک بینی سے دیکھا جائے تو کچھ نہ کچھ جھول نظر آہی جائے گا۔ اس دنیا میں ایسے ملک بھی موجود ہیں جہاں انصاف کے ترازو کے ہلکے سے جھول کو نہ تو خارج ازامکان قرار دیا جاتا اور نہ ہی اس کی نشاندہی پر توہین جیسے فتوے صادر فرما ئے جاتے ہیں ۔ان ملکوں میں نہ صرف نظام انصاف کے کسی جھول کی نشاندہی کا خیر مقدم کیا جاتا ہے بلکہ سنجیدہ کوششیں کی جاتی ہے کہ آئندہ کسی کو اس طرح کی نشاندہی کا موقع نہ ملے۔
انصاف کے ترازو میں ہلکا سا جھول ہونے کے باوجود اس طرح کے ملکوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں نظام انصاف کا چہرہ داغدار نہیں ہے۔ مذکورہ ملکوں کے برعکس دنیا میں بہت سے ایسی ریاستیں بھی ہیں جہاں نہ صرف غیر متوازن انصاف کا ترازو دور سے نظر آجاتا ہے بلکہ یہ بھی صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ کس نے طاقت کی لاٹھی ہاتھ میںپکڑکرانصاف کی دیوی کو بھینس بنارکھا ہے۔ ایسے ملکوں میں نظام انصاف کے داغدار چہرے کی جھلک کو جبر کی کاسمیٹک سرجری کرتے ہوئے ذہنوں سے محو کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی روشن دماغ اگر داغدار چہرے کی جھلک محو کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر اس کو توہین کے پھندے میں جکڑ کر بے بس کردیا جاتاہے۔ اب یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن دو قسم کے ملکوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ہمارے ملک کا شمار کس قسم میں ہوتا ہے۔پاکستان کے نظام انصاف کے چہرے کے خدوخال کیا ہیں، اس کے متعلق کچھ بھی بیان کرنے کی بجائے صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ نظام انصاف کے معیار کے لیے کی گئی عالمی رینکنگ میں دنیا کے 139  ملکوں میں سے ہمارا ملک 130 ویں نمبر پر ہے۔
جب بھی پاکستان کے نظام انصاف کے چہرے کی بات ہو تو جن دو لوگوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں ان میں سے ایک چہرہ سابق چیف جسٹس افتخار محمدچودھری  اور دوسرا عمران خان کا ہے۔ افتخار محمدچودھری نے پہلے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کے لیے اور پھر اس ڈاکٹر کو پولیس میں اے ایس پی لگوانے کے لیے جس طرح قوائدوضوابط کی دھجیاں بکھیریں وہ سب پر عیاں تھا، مگر پھر بھی عوام نے سب کچھ فراموش کرتے ہوئے مشرف کے مقابلے میں ان کی حمایت کی اور ان سے امیدیں وابستہ کر لیں کہ چیف جسٹس کے عہدے پر بحال ہو کر وہ ملک میں قانون و انصاف کا بول بالا کریں گے۔ پاکستانی عوام کے دبائو کی وجہ سے افتخار چودھری کی بحالی ممکن ہوئی مگر چیف جسٹس کی حیثیت سے بحال ہونے کے بعد ان کی وجہ شہرت کوئی قابل تحسین عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ پھر اسی بیٹے پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات بنے جس بیٹے کو انہوں نے انصاف کا گلا گھونٹ کر پہلے ڈاکٹر اور پھر اے ایس پی بنوایا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر از خود لے کر عدالت میں سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی پگڑیاں اچھالنے والے اس منصف اعلیٰ نے اپنے بیٹے پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات پر جس رویے کا مظاہر کیا اسے قانون اور انصاف کا مذاق اڑانے کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جاتا۔
افتخار چودھری سے بھی پہلے جس بندے نے یہاں انصاف کی دہائی دی اس کا نام عمران خان ہے ۔ عمران خان نے اس ملک میں انصاف کے فقدان کی دہائی دے کر حقیقی نظام انصاف قائم کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے تحریک انصاف  کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی۔ عمران خان نے اپنے چار سالہ دور حکومت میں یہاں انصاف کا حقیقی نظام قائم کرنے کی بجائے جو کچھ کیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ملک و قوم کو معیاری نظام انصاف دینے کے لیے افتخار محمدچودھری اور عمران خان کی کارکردگی ایک دوسرے کا عکس ثابت ہوئی ۔
اس طرح کی کارکردگی کے باوجود عمران خان کا اب بھی دعویٰ ہے کہ وہ بائیس برس عوام کو معیاری نظام انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ کسی تفصیل میں جانے کی بجائے عمران خان کی حقیقت بیان کرنے کے لیے یہاں صرف یہ کہنا ہے کافی ہے کہ اصغر خان کیس جو اس ملک کے نظام انصاف کے چہرے پر ایک بد نما داغ ہے، اس کی عمر عمران خان کی مبینہ جدوجہد سے بھی زیادہ ہے ۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ عمران خان نے اپنی مبینہ جدوجہد کے دوران کبھی اصغر خان کیس کے منطقی فیصلے کے لیے بھی آواز اٹھائی۔ اب تو اصغر خان کیس قریباً دفن ہو چکا مگر جب یہ کیس پوری طرح زندہ تھااس وقت بھی عمران خان نے اس حوالے سے رسمی باتیں کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا تھا۔آہ !س ملک میں جس طرح کے چہرے محض انصاف کی تسبیح پڑھنے پر اکتفا کر نے والوں کے ہیں ہو بہو اسی طرح کا چہرہ نظام انصاف کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button