ColumnM Anwar Griwal

جب عوام غضب ناک ہو جائیں گے! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال
کیا ملک پر قابض اشرافیہ کی بے حِسی ، خود غرضی اور مفاد پرستی کی انتہا نہیں، کہ اس قدر معاشی بحران کے ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ قومی خزانے سے عیاشیوں میںمگن ہیں۔ گزشتہ روز ہی وزیراعظم نے تین مزید مشیر بھرتی کئے ، اب اُن کی کابینہ کی تعداد 54ہو گئی ہے، جس سے سابق حکومت کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ یہ مشیر وزرائے مملکت کی حیثیت سے قوم کی خدمت پر مامور کئے گئے ہیں، جو لاکھوں روپے ماہانہ قومی خزانے سے نچوڑیں گے اور عوام کے سینے پر مونگ دلیں گے ۔ قوم پوچھنا چاہتی ہے کہ یہ سیاستدان جو خدمت کے نام سے میدان میں آتے ہیں، یہ منتخب ہو جانے کے بعد تنخواہ، ٹی اے ڈی اے ، گاڑیاں، ملازمین اور دیگر عیاشیاں کس منہ سے حاصل کرتے ہیں؟ کیا پاکستان بھر میں کوئی منتخب نمائندہ اس قدر غریب اور مستحق ہے کہ اسے معاشی مدد کی ضرورت ہو؟ (شاید ہی ایسی کوئی مثال موجود ہو) جو سب سے زیادہ غریب ہیں ، وہ بھی مناسب گزارہ ضرور کرتے ہیں۔ اکثریت کروڑ اور ارب پتی نمائندوں کی ہے۔ یہ اسمبلیوں میں نہ جاکر بھی پیسے وصول کرتے ہیں۔ کیا کام کئے بغیر پیسے لینا جائز اور حلال ہے؟ اور یہ وہاں جا کر کام کرتے بھی کیاہیں؟ ہنگامہ، گالی گلوچ، ہُلڑ بازی، مغلظات  اور ایسی ہی دیگر سرگرمیاں؟ اوپر سے یہ وزراء کا لشکر جن کو صرف سیاسی رشوت کے ذریعے سرکاری وسائل سے سہولیات مہیا کی جاتی ہیں؟یہاں تو پارلیمانی سیکریٹریز تک کو گاڑیاں ، پٹرول، ڈرائیور وغیرہ دستیاب ہیں۔ یہ رشوت ہی کی صورت ہے۔ تمام ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہ اور دیگر مراعات یکسر ختم کی جائیں، جس نے خدمت کرنی ہے وہ اپنی جیب سے کرے۔
سابق صدور اور گورنرز کو تاحیات مراعات پنشن سمیت ملتی ہے، یہ عمل ملک و قوم پراللہ تعالیٰ کا ایک عذاب ہی ہے، کون ساصدر یا کسی صوبے کا گورنر غریب مستحق ہے؟ یہ کون سا اعزاز ہے، جو غریب عوام کا خون نچوڑ کر صدروں اور گورنروں کو عطا کیا جاتا ہے؟ جب تک وہ عہدہ پر ہوتے ہیں، عوام کی حیثیت اُن کے سامنے کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر ہوتی ہے،یہ زمینی مخلوق فراٹے بھرتی بیسیوں گاڑیوں کو حسرت سے بس دیکھتی ہی رہ جاتی ہے۔ عہدہ ختم ہونے کے بعد (کہ اکثر کو ذلت کے ساتھ عہدے سے ہٹایا جاتا ہے)بھی یہ قوم کے سر پر سوار ہی رہتے ہیں۔ اگر ہماری حکومتوں کا زور چلے تو مرنے کے بعد بھی اس جابر اشرافیہ کو مراعات دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام شروع ہو جاتا ہے۔ اوّل تو صدر اور گورنر وغیرہ کا اس قدر پروٹوکول اور مراعات ہونا نہیں چاہئیں اور بعد میں تو بالکل کوئی جواز نہیں بنتا ۔ اگر یہ سب کچھ قانون کی کسی کتاب میں لکھا ہے تو غلامی کا ہر قانون خاک میں ملایا جانا ضروری ہے، یہ تو انگریز نے ایک غلام قوم پر حاکمیت چلانے کے لیے بنایا تھا، ہم پون صدی سے غلامی سے نہیں نکل سکے۔ اِ ن قوانین کو تبدیل کرنا از حد ضروری ہے۔
اندھیر نگری نہیں؟ کہ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے صاحب اندر اے سی میں بیٹھیں، مراعات کی صورت میں عیاشیاں کریں اور اُن کے دفتر کے باہر بیٹھنے والے چند ہزار روپے تنخواہ لینے والے اپنی جیب سے پٹرول ڈلوائیں۔ یہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کو دیکھیں، بڑی بڑی تنخواہ ، ماہانہ سیکڑوں لٹر پٹرول، گاڑیاں، نوکر چاکر، حفاظتی دستے اور بھی نہ جانے کیا کیا کچھ۔ جس افسر کی ڈیوٹی فیلڈ کی ہے، یا جس نے فیلڈ کا دورہ کرنا ہے، وہاں تک تو بات قابلِ قبول ہے، مگر افسروں کے بیوی بچوں کے لیے سرکاری پٹرول، ڈرائیور اور گارڈ سمیت سہولیات قوم کی نفرت بڑھانے کا ذریعہ ہیں، صاحب کے گھر والی کی شاپنگ، بچوں کی ٹیوشن ، تقریبات، سیر سپاٹے، سب کچھ سرکاری خرچ پر ہوتا ہے۔ قوم کے پیسوں پر اِن لوگوں کو عیاشی کرتے ہوئے کبھی احساس نہیں ہوتا؟
کہ ہم جن لوگوں کے خون پسینے کی کمائی سے عیاشی کر رہے ہیں وہ دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں، اُن کے گھر میں فروٹ نام کی کوئی چیز نہیں جاتی، وہ مشکل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، غمی ہو یا خوشی، وہ بے بسی میں گُھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ کیا غریب کے ہاتھ سے لقمہ چھین کر خود کھانے والے کسی غاصب کو کبھی اس ظلم کا خیا ل نہیں آتا؟
بے حِسی اب دیدہ دلیری بن چکی ہے، ملک کے معاشی تنزل کے بعد مجال ہے کسی سیاستدان نے اپنی مراعات (یعنی عیاشیوں) میں ذرہ بھر کمی کا اعلان کیا ہو، کسی بیوروکریٹ نے اپنی ضرورتوں سے زیادہ مفت پٹرول کی حکومت کو واپسی کا اشارہ دیا ہو۔ ستم تو یہ ہے کہ آج ہی سابق وزیرا علیٰ پنجاب عدالتِ عالیہ کے دروازے پر دستک دیتے پائے گئے کہ میری سکیورٹی میں کھٹارہ گاڑیاں دی گئی ہیں، ملازمین نہیں دیئے گئے۔ خدا کی پناہ! جس بندے کو اچانک وزارتِ علیہ تک رسائی مل گئی، وہ اب تاحیات اِ س سہانے خواب سے باہر نہیں جانا چاہتا۔ مفت کا مال اس قدر راس آگیا ہے کہ اب اپنی گاڑی پر سفر کرتے ہوئے حرام کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ایک بزدار کا معاملہ نہیں، یہ پورے نظام کا مسئلہ ہے۔ جن سرکاری افسران کی پنشن لاکھوں میں ہے، وہ بھی کم کی جائے۔
اگر فوری طور پر سرکاری اشرافیہ کی عیاشیوں کو ختم نہ کیا گیا اور پوری معاشی تنزلی کا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا تو اشرافیہ کا وہی حشر ہو گا، جس کا ذکر سابقہ ادوار میں میاں شہباز شریف تقریبات میں حبیب جالب کی نظم گا کر کیا کرتے تھے، ’’میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا ، اس صبح بے نور کو، ظلم کے دستور کو۔۔۔‘‘۔ پھر یہی ہوگا کہ مظلوم، بھوکے ، ننگے، غریب عوام ظالموں اور غاصبوں کے محلات پر چڑھ د وڑیں گے، اِس آنے والے انقلاب کو موجودہ دور کے کسی سیاستدان کی قیادت کی محتاجی نہ ہوگی، عوام خود ہی اپنا قائد چُنیں گے، خود ہی فیصلے کریں گے۔ جو سیاسی کارکن غلامی کے چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں، انہیں بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، غاصب اور ظالم حکمرانوں کی حمایت کرنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ابھی عوام میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے، ابھی غم وغصہ بڑھ رہا ہے، ابھی مذمت شروع ہوئی ہے، پھر یہ جذبات نفرت میں تبدیل ہوں گے اور نفرت کا نتیجہ بہت برا ہوگا۔ حکومت مشکل فیصلہ کرے، مقتدر اشرافیہ کی مراعات اور پٹرول وغیرہ پر فوری پابندی لگائے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے، کہ حکومت کے غضب کا نشانہ صرف عوام ہیں اور جب عوام غضبناک ہو گئے تو حکمران اشرافیہ کو سر چھپانے کو جگہ نہ ملے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button