ColumnNasir Sherazi

صرف چوبیس گھنٹے .. ناصر شیرازی

تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ریاست مدینہ بنانے کا تصور پیش کیا تو ملک بھر سے مختلف انداز اس پر مثبت و منفی انداز میں اظہار خیال سامنے آیا، ان کی مخالف سیاسی جماعتوں نے اپنا حق ووٹ سمجھتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ عمران خان اپنے اوپر عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ آنے پر حق حکومت کھو بیٹھے ہیں لیکن وہ چاہیں تو ریاست مدینہ آج بھی بناسکتے ہیں اس کے لیے اقتدار جیب میں ہونا ضروری نہیں، انہیں اس حوالے سے ایک فائل پیش کی گئی تھی، وہ اس نیک کام کا آغاز کسی بھی صبح فیصل مسجد اسلام آباد سے کریں،جہاں ان کی پارلیمانی پارٹی، ان کی کابینہ میں شامل تمام سابق وزرا موجود ہوں۔ وہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد بنی گالا آجائیں، سی ڈی اے عملے کو حکم دیں کہ کئی سو کنال پر مشتمل ان کی رہائش گاہ کو مسمار کرکے اس قطعہ زمین کے پانچ پانچ مرلے کے پلاٹ بنادیں، پھر ان کے خرچ پر پانچ پانچ مرلہ ڈبل سٹوری گھر تعمیر کردیں، جنہیں وہ اپنے ہاتھ سے بے گھر افراد میں تقسیم کردیں،
اپنا اور اپن بیگم کا تمام قیمتی سامان تحائف، جیولری، برانڈڈ ملبوسات، توشہ خانہ کی اشیااور قیمتی ترین گاڑیاںنیلام کرکے وصول شدہ رقم قومی خزانے میں جمع کرادیں ، بیگم صاحبہ کا مال اسباب جائیداد بھی ریاست کے خزانے میں جمع کرادیں تاکہ دین کی بھلائی، تعلیم و ترویج میں خرچ ہوسکے، اپنے اوربیگم کے لیے دو چار جوڑے کپڑے اور چپلیں، چادریں، برقعے، ضرورت کے کچھ برتن رکھ لیں باقی ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں، کوئی شلوار قمیص پھٹا ہوا ہو تو اپنے ہاتھ سے پیوند لگائیں، سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے لیے بیگم صاحبہ کی خدمات حاصل کریں، کوئی چپل ٹوٹ چکی ہو تو اسے بھی خود گانٹھیں پھر اپنے وزیروں، مشیروں، اے ٹی ایمز اور دیگر چاہنے والوں سے کہیں کہ وہ بھی ان کی طرح ایثار کا مظاہرہ کریں اور خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گھر کا تمام مال، ایسا ممکن نہ ہو تو کم ازکم آدھا مال تو ضرور لائیں اور اسی طرح ضرورت مند غریبوں میں بانٹ دیں، ضمنی انتخابات کے حوالے سے مختلف حلقوں کا دورہ ضرور کریں لیکن ووٹ مانگنے کی بجائے اپنے ایم این اے اور ایم پی ایز کی جائیدادیں ،وسائل اپنے ہاتھ سے اسی حلقے کے نادرار افراد میں تقسیم کردیں۔
اپنے اور رفقا کے قیمتی اثاثے ایکسپورٹ کردیں، زندگی میں پہلی مرتبہ جناب جہانگیر ترین اور ان کا جہاز منگوائیں اور اسے ملک و قوم کے لیے استعمال کریں، سب سے پہلے صوبہ خیبر کا دورہ کریں اور اپنے صوبائی وزرا، ایم پی ایز اور دیگر امیر و کبیر چاہنے والوں کے اثاثے اسی طرح تقسیم کریں جس طرح انہوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے اثاثے تقسیم کئے، یہاں سے فارغ ہوکر لاہور آجائیں، زمان پارک کا ماڈرن ترین اور قریباً بیس کروڑ روپے سے تعمیر ہونے والا گھر ہسپتال میں تبدیل کردیں، لاہور کی دیگر جائیدادیں بمعہ بیگم کی آبائی گائوں اور لاہور کی جائیداد بھی اسی طرح غریبوں میں تقسیم کردیں، اس سے فارغ ہوکر اپنے محبوب وسیم اکرم پلس جناب عثمان بزدار اور ان کی کابینہ و ایم پی اے حضرات کی جائیدادیں، د
ولت و دیگر اثاثہ جات راہ خدا میں حق داروں، ضرورت مند بیوائوں اور یتیموں میں تقسیم کردیں، اس کے بعد لاکھوں افراد کا ایک عظیم الشان جلوس لیکر سندھ کا رخ کریں اور کاخ امرا کے درودیوارہلادیں، مجھے یقین ہے حقیقی انقلاب کو آتا دیکھ کر سندھ کے لیڈر اور حکومت ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے مجبور ہوجائے گی بلکہ ایسا کرنے کو اپنے لیے بہت بڑی سعادت سمجھے گی، یہاں سے فارغ ہوکر نان سٹاپ بلوچستان کا رخ کریں، جہاں کے غریب عوام سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر ان کا استقبال کرنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں کئی روز پہلے سے جمع ہوں گے، ان کی قیادت کرتے ہوئے سیدھے کوئٹہ کی ٹھنڈی سڑک المعروف جناح روڈ کے گورنر ہائوس میں گھس جائیں اور ریاست مدینہ کے لیے کئے جانے والے اقدامات کا اعلان کریں جسے وہاں کے نواب، جاگیر دار، وڈیرے، ملک اور سردار بخوبی دل و جان سے تسلیم کریں گے اور خان کے لیے ہر قربانی دینے کا عہد کریں گے، بلوچستان سے فارغ ہوکر واپسی پر آزاد کشمیر اور پھر گلگت بلتستان جائیں،
ریاست مدینہ کا لہراتا پرچم دیکھ کر وہاں بسنے والے عظیم الشان استقبال کریں گے، اہم اقدامات کا اعلان کرنے کے بعد رات وہاں قیام کریں کیونکہ طوفانی دورے کے بعد جہاز اور جہاز سوار سب لوگ تھک چکے ہوں گے، ان کے لیے ریسٹ مسٹ ہوچکا ہوگا، آئندہ صبح واپس اسلام آباد پہنچیں اور اپنے سابق وزیر اطلاعات سے کہیں کہ وہ آپ کے قوم سے خطاب کے انتظامات کرے، یہ خطاب بعد نماز ظہر کے وقت ہونا ضروری ہے تاکہ سر ِ شام ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں اس حیرت انگیز اور انقلاب آفریں خطاب پر تبصرے شروع ہوجائیں اور پیک ٹائم میں صر ف اسی پر گفتگو ہو، یہ بات تو دنیا جانتی ہے کہ خان اب وزیراعظم پاکستان نہیں لیکن یہ خطاب وزیراعظم پاکستان سٹائل میں دو پرچموں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر یعنی فرشی نشست پر ہونا چاہئے، اس معاملے میں لباس کا خاص خیال رکھنا ضروری ہوگا، سیاہ یا بند چوغے میں سے کسی ایک رنگ کا انتخاب کرلیں، ویسے میرے خیال میں سیاہ چوغہ بہتر رہے گا، ہاتھ میں تسبیح ضرور رکھیں، اس سے دیکھنے والوں کو یقین ہوجائے گا کہ آپ کی کایا پلٹ چکی ہے، اب آپ ملک اور قوم کی کایا پلٹنے میں سنجیدہ ہیں۔
قوم سے خطاب کا آغاز سورۃ اخلاص کی تلاوت سے خود کریں اور مکمل کلمہ طیبہ ضرور پڑھیں، اس کے بعد وزیراعظم پاکستان نہ ہونے کے باوجود اعلان کریں کہ قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں، آئین منسوخ کردیاگیا ہے، آج کے بعد سے قرآن ہمارا آئین ہے، تمام معاملات حکومت قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں چلائے جائیں گے، ملک میں اسلامی نظام رائج کردیاگیا ہے، سودی نظام، تمام ٹیکسز کا خاتمہ کردیاگیا ہے، زکوۃ اور عشر لیا جائے گا، ستر پوشی کے کلچر کو فروغ دیا جائے گا،ملک فلاحی ریاست ہوگا، ضرورت مندوں،   یتیموں اور بیوائوں کی مدد بیت المال سے ہوگی، صحت و تعلیم کو کاروبار بنانے کی اجازت نہیں ہوگی، قتل، اغوا برائے تاوان، ملک سے غداری، رشوت، ملاوٹ، زخیرہ اندوزی اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بکواس کی سزا، سزائے موت ہوگی۔
نماز جمعہ کے بعد سرقلم کرنے کے لیے جلاد اور کوڑے لگانے کے لیے سٹاف جامع مسجد کے باہرڈیوٹی پر موجود ہوگا، اخلاقی بے راہ روی، عریانی و فحاشی پھیلانے والے سخت سزا کے مستحق ہوں گے، ہر شخص پر فوجی تربیت لازمی ہوگی، افواج کی تعداد اور بجٹ بڑھایا جائے گا، ملک میں تیار ہونے والی اشیا کی برآمد بند، زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے پر پابندی، زراعت و لائیو سٹاک کو فروغ دیا جائے گا، بائیس کی بجائے دس گریڈ ہوں گے، ہر شعبہ زندگی سے نمائندوں پر مشتمل مجلس شوریٰ اور ٹیکنوکریٹ پر مشتمل فقط دو درجن افراد پر مشتمل کابینہ ہوگی، قاضی کورٹس ہوں گی، ہر شخص اپنا مقدمہ خود پیش کرے گا، فوجداری مقدمات کا فیصلہ آٹھ روز، دیوانی مقدمات کا فیصلہ ایک ماہ میں ہوگا، ایک ٹرائل کورٹ اور ایک اپیلٹ کورٹ ہوگی، سادگی حکومت کی ترجیح اول ہوگی، غیر ملکی قرضوں سے پرہیز، مال کے بدلے مال اور مدد لی جاسکے گی، میرے خیال میں تو ریاست مدینہ بنانے کے لیے چوبیس گھنٹے کافی تھے، خان نے جانے کیوں چار سال ضائع کردیئے، وہ اب بھی ایسا کرلے تو مرتے دم تک امیر المومنین بن سکتا ہے، اہم سوال، کیا وہ اس کام کے لیے لایاگیا تھا، جواب ہے جی نہیں۔                 (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button