ColumnImtiaz Ahmad Shad

 فاقہ مستی اپنا رنگ دکھا رہی ہے .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوئے، اکٹھے سفر کا آغاز کیا۔ دونوں کی آزادی کو 75 برس ہوئے مگر آزاد فقط ہندوستان ہوا۔وزیر خزانہ کا بیان پڑھ کر احساس ہوا کہ ہم آج بھی غلام ہیں اور ہماری آنے والی نسلیں بھی شاید آزادی کی بہاروں سے لطف اندوز نہ ہو سکیں۔مفتاح اسماعیل فرماتے ہیں کہ ہم نے جوبجٹ پیش کیا ہے اس پر آئی ایم ایف ناخوش ہے، ہم اسے کسی صورت ناراض نہیں کرسکتے۔ہم 15 روز تک اس میں تبدیلیاں کریں گے اور قہقہہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ سخت فیصلوں کے سوا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں۔اس جملے نے میرے تن من میں آگ لگا دی۔انہوں نے فرمایا کہ ہم ملک کے وسیع ترمفاد میں مشکل فیصلے کر رہے ہیں اور کریں گے۔میرے وطن کے حکمران ملک کے وسیع تر مفاد میں جب بھی سخت اور مشکل فیصلے کرتے ہیں ان کی زد میں آتے صرف وہی ہیں جنہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں پہلے ہی اپنا تن ،من ،دھن سب قربان کر دیا۔اشرافیہ نہ پہلے کبھی اس کی زد میں آئی اور نہ آگے آنے کا امکان ہے۔

بھارت نے آزادی کے پہلے سال ہی بڑی جاگیرداریاں، رجواڑے اور ریاستیں ختم کردی تھیں۔ غیر ملکی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کی۔ یہاں تک کہ سرکار سے لے کر اہلکار تک سبھی بھارت میں تیار شدہ گاڑیاں استعمال کرنے لگے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔جس کے نتیجے میں بھارت نے 90 کی دہائی میں ہی اپنی معیشت آزاد کروا لی، اقتصادی بنیادیں مضبوط کر لیںاور آزاد خارجہ پالیسی کا آغاز کر دیا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں پرانی جاگیریں تو کیا ختم ہونی تھیں نودولتیوں نے ہی ات مچا دی۔معاشی اور اقتصادی ترقی اگر ہوئی بھی تو اس کا فائدہ انہی جاگیرداروں اور صنعت کاروں کو ہوا جو آج بھی قربانی اس عوام سے مانگ رہے ہیں جو دہائیوں سے قربان ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بھارت جب معاشی طور پر آزاد ہو رہا تھا ،ہم اس وقت امریکہ کی چاپلوسی میں مرے جارہے تھے۔ ملک کو بڑے فخر سے غیر ملکیوں کے مال کی منڈی بنارہے تھے۔ نہ اس وقت ہم نے پائوں پر کھڑا ہونے کو ترجیح دی اور نہ آج ہمارا کوئی ارادہ ہے۔ عیش و عشر ت کی ایسی لت پڑی کہ قرض لے کر ہم اپنی نوابی کا بھرم رکھتے رہے۔ چین ،سعودی عرب، امریکہ اورسوئٹزرلینڈ ایسے ممالک ہماری طرز زندگی پر رشک کرتے اور ہم قرض کے نشے میں بدمست ہوکر بڑے بڑے قافلوں کی شکل میں مزید قرض لینے پہنچ جاتے۔
بہت سے عقل کے اندھے اس عمل کو آج بھی ترقی کا راستہ گردانتے ہیں،حالانکہ یہ سب اعلیٰ معیار زندگی قرضوں پر قرضے لے کر حاصل کیا جارہا تھا۔کسی چودھری صاحب کے ہاں برکت نام کا ایک ملازم سالہا سال سے کام کر رہا تھا،فصل کی بیجائی سے لے کر کٹائی تک ایک ایک چیز کا دھیان رکھتا اور مجال ہے کہیں سے فصل کو نقصان ہونے دے۔چودھری صاحب جہاں بیٹھتے رحمت کی تعریفوں کے پل باندھتے،ہر کسی کو بتاتے کہ میرا سب کچھ رحمت کا ہی تو ہے،اصل مالک تو رحمت ہی ہے میں تو اس کے بغیر بے کار ہوں۔رحمت بھی اسی بات پر خوش تھا کہ چودھری صاحب کی ترقی در اصل میری ہی خوشحالی ہے۔جب بھی فصل سمیٹی جاتی ہر بار رحمت کو یہ سننے کو ملتا کہ اس بار فصل میں وہ بات نہیں، اگلی بار ہم مزید محنت کریں گے اور خوشحال ہو جائیں گے۔ رحمت کو فصل میں سے تو کچھ نہ ملتا مگر چودھری صاحب کی جانب سے القابات وافر مقدار میں دستیاب ہوتے۔چودھری صاحب کی نسلیں مالا مال ہو گئیں اور رحمت کے تن کو کبھی مکمل لباس میسر نہ آیا۔ وہ بچارا اسی فکر میں رہتا کہ معلوم نہیں چودھری صاحب کتنے مقروض ہیں کہ فصل ہونے کے باوجود ہم قرض نہیں ادا کر پارہے۔
ایک دن چودھری صاحب سے رحمت نے بڑی راز داری سے پوچھا کہ چودھری صاحب کوئی تاریخ ہی بتا دیں کہ آخر کب ہمارا قرض اترے گا اور ہم خوشحال ہوں گے؟ تو چودھری  صاحب نے فرمایا کہ رحمت میاں لگتا ہے تم بھی دشمنوں کی زبان بولنے لگے ہو، میں ہر وقت تمہاری خوشحالی کا ہی تو سوچتا ہوں۔اس طرح کے الفاظ بول کر تم ہمارے دشمنوں کو مضبوط اور خوش کررہے ہو۔مایوسی کی حالت میں رحمت نم آنکھوں کے ساتھ بولا کہ حضور اگر میری حالت آپ کو خوشحال لگتی ہے تو یہ آپ اپنا لیں اور مجھے اپنی تنگدست زندگی عطا فرما دیں۔سرخ آنکھوں اور مغرور چہرے کے ساتھ چودھری  صاحب نے کہا کہ اب تم مجھ سے حساب مانگو گے؟ رحمت بچارے کی تو جیسی تیسی زندگانی کٹ گئی مگر رہی جاگیر چودھری صاحب کی بھی نہیں۔آج پھر ایک بار شور برپا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔
سابقہ حکمرانوں نے ملکی معیشت کا ستیا ناس کر دیا،ملک ہمیں مشکل حالات میں ملا ۔اس لیے پٹرول مہنگا کرنا پڑ رہا ہے۔ بجلی اورگیس کی قیمتیں بھی مجبوری کی وجہ سے زیادہ کرنا پڑ رہی ہیں۔قوم سے ملک کی سالمیت کی خاطر مذید قربانی مانگی جارہی ہے۔حالانکہ بچارے رحمت کی ماند قوم تو 75 سالوں سے آپ کی خوشحالی کو ہی اپنی خوشحالی گردانتی آرہی ہے۔بقول آپ کے ملکی معیشت خطرے میں ہے تو اس دفعہ آپ ہی قربانی دے دوہو سکتا ہے یہ معیشت سنبھل جائے۔آج ایک مرتبہ پھر بچارے رحمت کو بتایا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تناظر میں مشکل حالات میں نئے مالی سال کے لیے متوازن بجٹ پیش کیا گیا ہے جس میں عام آدمی کو ریلیف دینے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، پہلا ہدف مالیاتی استحکام اورپاکستان کو سری لنکا بننے سے روکنا ہے جبکہ دوسرا غریب عوام کو ریلیف دیناہے،
پاکستانی عوام غیور ہے اورپاکستان باوقار ملک ہے اور ہمیں اپنی معیشت کو سنبھالنا ہو گا،تاہم مزید قربانی درکار ہے۔اب ان عقل سلیم رکھنے والوں کو کون بتائے کہ قرض کی پیتے تھے مے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں،رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن کے مصداق ہماری فاقہ مستی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ مگر صرف ان کو جو فاقے کرتے آرہے ہیں جو اس ملک کا 98فی صد ہیں۔ 2فی صد اشرافیہ تو اب بھی اپنا دن لندن اور نیو یارک میں گزارتے ہیں اور راتیں استنبول میںگزار رہے ہیں۔جب ہماری آمدن روپوں میں ہے تو خرچ ڈالر وںمیں کیسے افورڈ کر سکتے ہیں؟ اگر سارا بحران ڈالر کی قلت کا ہے تو پٹرول ،بجلی ،پانی اور گیس سستے کرو تاکہ مصنوعات تیارکرکے باہر بھیجیں اور ڈالر کمائیں،بیرون ملک پاکستانیوں کو سہولتیں دیں تاکہ ڈالر ملک میں آئے۔ اگر آپ اپنی زراعت پر ہی توجہ دیںاور اپنی فصلیں اچھی اُگائیں تو ڈالر ہمارے کھیتوں میں بھی اُگ سکتا ہے۔یاد رکھیں اس بار 98 فیصد کی قربانی سے کچھ نہیں ہونے والا،موجودہ حالات کے تناظر میں 2فیصد کو قربانی دینا ہو گی۔ اس سے پیشتر کہ محکوم حاکموں کے محلات میں گھسنا شروع کریں۔ اپنے محلات بچانے کے لیے ذاتی خزانوں کا کچھ حصہ ملک بچانے پر لگا دو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button