ColumnFayyaz Malik

مفت کے مفت برَ .. فیاض ملک

فیاض ملک

لوگوں کا مال بلا قیمت یا بلا عوض لے جانےوالے شخص کو ہمارے معاشرے میں، مفت خور اور مفت بر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔اسی طرح شاہ خرچی جو مفت خوری کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے، موجودہ حالات میں ہماری تباہ حالی کا بڑا سبب بن چکی ہے، عوام کی مشکلات کو ختم کرنے اور ان کو فوری ریلیف دینے کے دعوؤں کے ساتھ سرکاری خزانے کو جس بے رحمی سے اڑا یا جاتا ہے اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں آتی،یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری خزانے کی لوٹ مارکا سلسلہ صرف چند صاحب اقتدار اور ان کے حواریوں تک محدود نہیں۔ بلکہ اب یہ بیماری بھی ایک مکمل ،وبا،کی شکل اختیار کرچکی ہے ،کیا شاہسوار اور کیا اس کے پیادے، سب کے سب (مال مفت دل بے رحم )کی پالیسی کے تحت لوٹ ما راور صرف لوٹ مار کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔

پرانے زمانے میں کچھ قاعدے اور اصول تھے جن کی پاسداری لازم ہوا کرتی تھی، سرکاری وسائل کا ذاتی استعمال میں لانا محض معیوب ہی نہیں بلکہ قابل گرفت سمجھا جاتا تھا۔ سرکاری گاڑی تو کیا دفتری فون تک فقط کار سرکار کےلیے موقوف تھا۔ ایک وقت تو وہ بھی تھا جب سرکاری گاڑیاں دفتروں میں ہی پارک ہوا کرتی تھیں اور بڑے افسر کے پاس صرف ایک گاڑی ہوا کرتی تھی ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ سرکاری گاڑیاں بیگم صاحبہ کو بازاروں میں لئے پھریں یا بچوں کو سکول چھوڑنے کے کام آئیں۔مگر کہتے ہیں ناں کہ گردش زمانہ جب غضب ڈھاتی ہے تو بہت کچھ تہس نہس ہو جاتا ہے ، اور پھر ہوا بھی یہی وقت کے ساتھ ساتھ مختلف دور اقتدار میں حکومتی نظام کی چولیں ڈھیلی پڑتی گئیں اور مراعات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ اعلیٰ عہدیداروں کےلیے بجلی، گیس، فون، گاڑی کا بوجھ سرکار نے اپنے کندھوں پرلے لیا۔ یہ دیکھ کرماتحتوں کے حوصلے بڑھے تو وہ بھی اسی راہ پر چل نکلے سہولتوں کے پھیلاؤ نے کام اور بھی بگاڑ دیا، مقدر کے سکندر کئی کئی گاڑیاں بٹورنے لگے اور پھر دوڑ لگ گئی جس کے گھر اور آفس کے دالان میں جتنی زیادہ گاڑیاں پارک ہوں گی وہ اتنا ہی تابعدار ہو گا،بجلی ، گیس، پانی اور فون کا بھی یہ حشر ہوتا ہے جن خوش نصیبوں کے ہاں ان کا بل سرکار کے ذمہ ہے، وہاں ان کا استعمال بے دریغ ہوتا ہے، کوٹھیوں اور اداروں سے ملحقہ رہائش کوارٹر ان نعمتوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں نہ صرف ان میں اے سی اور ہیٹر لگے ہوتے ہیں بلکہ وہ بلا ضرورت بھی چلتے رہتے ہیں
بل کتنا آتا ہو گا کوئی علیحدہ حساب نہیں لگاتا،خاموشی سے متعلقہ ادارے کے بجٹ میں سما جاتا ہے۔چند برس پہلے تک صرف محکمہ کے سربراہ کے پاس سرکاری گاڑی ہوتی تھی اب شاید ہی کوئی افسر ہو گا جو اس سہولت سے محروم ہو، غضب یہ ہے کہ یہ سب گاڑیاں سرکار کے کھاتے میں چلتی ہیں۔ مفت کا مال ہمیشہ بڑی بے رحمی سے خرچ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے گاڑی نہ صرف احباب اور بچوں کے کام آتی ہے بلکہ بازار سے گروسری بھی اس پر آتی ہے۔ ملک اس وقت معاشی بدحالی کی طرف بڑھتا جارہا ہے، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کررکھ دی ہے، رہی سہی کسر بجلی،پانی اور گیس کے بلوں نے پوری کردی ہے، عام آدمی اب یہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بوجھ میں بے تحاشا اضافہ کا بڑا سبب افسر شاہی ہے۔ پرانے محکمے جواپنی تمام تر شاہ خرچیوں کے اخراجات عوام سے وصول کرنے کے باوجود باوجود ہر وقت خسارے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں،اس کی واضح مثال واپڈا میں نظر آتی ہے جواپنے دو لاکھ سے زائد ملازمین کو سرکاری خزانے سے تنخواہوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مفت بجلی فراہم کر رہا ہے،
ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق لائن مین کو ہر ماہ 150 یونٹ، ایس ڈی او کی سطح پر 300 یونٹ ماہا نہ اور ایکسئین کی سطح کے افسر کو 1800 یونٹ ماہانہ بجلی مفت فراہم کی جا رہی ہے۔ فرض کریں کہ ان دو لاکھ میں سے پچاس ہزار افسران کو ہر ماہ 1800 یونٹ فی کس مہیا کیے جائیں توکل 9 کروڑ یونٹ، اور بقیہ ڈیڑھ لاکھ ملازمین کو 150 فی یونٹ مفت مہیا کیے جائیں تو کل 2.25کروڑ یونٹ یہ بھی بنتے ہیں، ان تمام اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ کم از کم 10 کروڑ ماہانہ یونٹ کا بوجھ عام صارف اٹھاتا ہے۔ لائن لاسز کے ساتھ ساتھ چوری شدہ بجلی اور واپڈا ملازمین کو مفت دی جانےوالی بجلی کی قیمت بھی غریب عوام کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے، یہی صورتحال پی ٹی وی کی ہے جو ہر ماہ عوام کو موصول ہونےوالے بجلی کے بلوں میں اپنے 35 روپے وصول کرنے کے باوجود آج بھی روز بروز زبوں حالی کی طرف ہی جاتی دکھائی دیتا ہے، اسی طرح کئی ادارے اور محکمے ایسے ہیں جن کے کئی 19سے لے کر 22گریڈ تک کے 80فیصد اعلیٰ افسران سال میں کئی بار غیر ملکوں کی یاترا پر جاتے ہیں ان کا آنا جانا بیچاری سرکار پر بہت گراں گزرتا ہے کیونکہ ان کے سفر کے اخراجات سرکاری خزانے میں ڈالر کی صورت میں دینا پڑتے ہیں۔
مفت خوری ایک ایسی جان لیوا بیماری کی شکل اختیار کرگئی ہے جس نے قومی کردار کےساتھ ساتھ قومی خزانے کو بھی اندر ہی اندرسے چاٹنے کا عمل بھی تیز کردیا ہے، معاشرتی بے حسی کی وجہ سے یہ مرض تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرتی سطح پر یہ رجحان ابھر رہا ہے کہ مفت ملے تو حرج کیا ہے۔ اب جبکہ باڑ ہی فصل کھانے پر تلی ہو تو ایسے میں کھیت کی رکھوالی کون کرے، جب تک مراعات کا نظام یکسر نہیں بدلتا کوئی بہتری نہیں آ سکتی، لامحدود سہولتیں دینے کی بجائے اگر ان افسران اور اہلکاروں کو الاؤنس دے دیا جائے تویہ سب اللے تللے کم ہو جائیں گے، ہر صاحب اختیار کو ریلیف دینے کے لیے ان کی تنخواہیں مناسب حد تک بڑھا دی جائیں مگر سرکاری رہائش گاہوں کے تمام اخراجات ان کے مکینوں کے ذمہ ہوں، پٹرول اور بجلی کی مد میں اگر25 سے لیکر 50 ہزار روپے ماہانہ بھی دے دیئے جائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا، جب ہر آفیسر اپنا بل اپنی جیب سے دے گا تو اس کو اپنی فضول خرچیوں کا بھی بخوبی احساس ہوگا ، جس سے اس کا رہن سہن بدل جائے گااور اسی احساس کی ہی بدولت پٹرول اور بجلی کی کھپت آدھی رہ جائے گی، یہی نہیں بلکہ صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزرا ءاعلیٰ بھی اس پابندی سے مستثنیٰ نہ ہوں اگر موجودہ بل انکی استطاعت سے باہر ہوں تو وہ بھی اپنی شان و شوکت میں کمی لائیں ۔یقین جائنے اگر یہ رسم چل نکلی تو کلچر بدل جائے گا، سرکاری اخراجات کم ہو نے کےساتھ ساتھ وسائل کا ضیاع بھی واضح طور پر رک جائے گا، جب حکومتی اور سرکاری عہدیدار مہنگائی کی آگ میں جھلستے ہوئے بجلی کے بل اور تیل کے بھاؤ کے صدموں سے دو چار ہوں گے تو انہیں بھی عوام کی مشکلات کا احساس ہو گا ،یکجہتی اور مساوات کی فضا فروغ پائے گی جس سے روشن مستقبل کے امکانات ابھریں گے۔ یوں اس ثقافتی انقلاب کی راہیں ہموار ہو ں گی جس کا انتظار کب سے ہے اور جس کے آثار کہیں نظر نہیں آتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button