Editorial

صوبائی حکومتوں کے بجٹ اور عوام کو توقعات

وفاقی حکومت کے بعد سندھ اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں نے بھی مالی سال 2022-23کے لیے بجٹ منظور کرلیے ہیں۔ وفاقی حکومت نے 9502 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کیا گیاجس کا خسارہ 3798 ارب روپے تھا۔ پیر کے روز پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں میں بجٹ پیش ہونے تھے لیکن صرف خیبر پختونخوا اسمبلی میں بجٹ پیش اور منظور ہوا ، پنجاب اسمبلی میں کیا ہوا اِس پر ہم سندھ اور خیبر پختونخوا کے بجٹ کا جائزہ لینے کے بعد بات کریں گے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے مالی سال 2022- 23کے لیے 1332ارب روپے کا متوازن بجٹ پیش کیا، جس میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 418ارب روپے مختص کیے گئے۔بجٹ کی اہم بات صوبہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں16 اور پنشن میں15فیصد اضافہ ہے۔
نئے مالی سال میں عوام کے لیے انصاف فوڈکارڈکا اجرا ہوگا جس کے تحت 26ارب کی لاگت سےانصاف فوڈ کارڈ کے ذریعے ریلیف دیا جائے گا، نوجوانوں اور چھوٹے صنعتکاروں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی کے لیے انصاف روزگار سکیم کا آغاز ہوگا۔بجٹ میں اس کے لیے 25ارب روپے رکھے گئے ہیں،نئے مالی سال کے دوران 63ہزار سرکاری ملازمین کو مستقل کیاجائے گا۔ پشاور میں نیو پشاور ویلی سٹی کے نیا جدید شہر بسایا جائے گا۔ سرکاری ملازمین جمعہ کو ورک فرام ہوم کریں گے، صحت کارڈ پروگرام کے تحت تمام سرکاری ملازمین کے لیے او پی ڈی سہولیات کا اجرا کیا جائے گا،
ادویات کی مفت فراہمی کے لیے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،ریسکیو سروس1122کا دائرہ کار صوبہ کی تمام تحصیلوںتک بڑھایا جائے گا ،فائربریگیڈ سروس کو ریسکیو 1122 میں ضم کیا جائے گا، بلدیاتی حکومتوں کے لیے24 ارب60کروڑ ، بلین ٹری پروگرام کے لیے 2 ارب ، سیاحت کے فروغ کے لیے 15ارب50 کروڑ روپے بجٹ میں رکھے گئے ہیں۔ صوبے میں9نئی یونیورسٹیاں اور 3نئے ہسپتال قائم ہوں گے۔ خیبر پختونخوا کے بعد سندھ کے صوبائی بجٹ برائے مالی سال 2022-23کا ذکر کیا جائے تو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے سندھ کا 17 سو 14 ارب روپے کا بجٹ پیش کیاہے۔ سندھ بجٹ کاتخمینہ ایک کھرب 714 ارب روپے ہے، آئندہ مالی سال 33 ارب روپےکا خسارہ ہے، سروسزپرصوبائی سیلز ٹیکس 180 ارب روپے ہوگا، سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 332.165 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بجٹ میں غریبوں کے سماجی تحفظ کے لیے 26 ارب روپےکے پیکیج کا اعلان کیا گیا۔
محکمہ سماجی تحفظ کے لیے 15.435 ارب روپے مختص کیےگئے ہیں، تعلیم کے شعبے کے لیے 326.80ارب روپے رکھے گئے ہیں، سندھ کے 7 اضلاع میں یونیورسٹی یا کیمپس قائم کرنےکا بھی اعلان کیا گیا ہے۔واٹر اینڈ سیوریج سیکٹر کے لیے224.675 ارب روپے رکھے گئے ہیں، محکمہ زراعت اور آبپاشی کے ترقیاتی پروگرام کے لیے36.2ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ داخلہ بشمول پولیس اور جیل خانہ جات کے لیے 124.873ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کے مطابق بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایااور فنانس بل بھی پیش نہیں کریں گے۔ ایک اور خوش آئند بات جو وزیر اعلیٰ سندھ نے کہی کہ تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کے باوجود وفاق یا کسی صوبے میں تنخواہ اور پنشن زیادہ ہوئی تو ان کے برابر لائیں گے۔وفاق ، خیبر پختونخوا اور سندھ کے بعد پنجاب کی بات کریں تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سوموار کے روز بجٹ پیش نہ کیا جاسکا۔
اسمبلی میں بجٹ لانے سے پہلے پنجاب کابینہ کا اجلاس وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کی زیر صدارت ہوا جس میں سالانہ بجٹ کی منظوری دی گئی جس کا حجم 3226ارب روپے تھا۔ صوبائی وزیر اویس لغاری نے اسمبلی میں بجٹ پیش کرنا تھا جس کی خاص بات ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافے کی تجویز بتائی گئی اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اس کو عوامی ریلیف کا بجٹ قرار دے رہے تھے لیکن اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آسکی ۔ صوبائی اسمبلی پنجاب کے اجلاس سے قبل حسب معمول ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا تو اپوزیشن کی جانب سے بعض معاملات حکومتی ٹیم کے سامنے رکھے گئے جن پر گھنٹوں ڈیڈ لاک رہا، اس کے بعد معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو پھر ایوان میں مختصر کارروائی کے بعد اجلاس روک دیاگیا اور سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے آئی جی پولیس پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو اسمبلی میں بلانے کا کہا۔ اِس معاملے پر طویل ڈیڈ لاک رہا اور بالآخر سہ پہر تین بجے شروع ہونیوالا اجلاس رات قریباً سواگیارہ بجے بغیر بجٹ منظور ہوئے اگلے دن کے لیے ملتوی کردیاگیا۔
گذشتہ روز دوپہر ایک بجے دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو وہی تقاضا اور اسی پر ڈیڈ لاک رہا اور بالآخر گورنرپنجاب محمد بلیغ الرحمان نے پنجاب اسمبلی کا 40 واں اجلاس برخواست کرکے پنجاب اسمبلی کا 41واں اجلاس آج سہ پہر 3 بجے ایوان اقبال میں طلب کر لیا ہے جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے بھی اجلاس آج دوپہر طلب کرلیا ہے۔  وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہبازکا اِس صورتحال پر کہنا ہے کہ سپیکر اسمبلی عوام کی خدمت کا میرا راستہ نہیں روک سکتے۔یکم جولائی سے بی ایچ یو اور ٹی ایچ کیو ہسپتالوں میں مفت ادویات ملیں گی۔کینسر کی ادویات بھی فری دی جائیں گی۔ ہم کہتے ہیں کہ بجٹ پیش کرنے دو، یہ کہتے ہیں آئی جی کو پیش کرو،میں یہیں بیٹھا ہوں۔آج پھر میں انتظار کروں گا۔ یہ کھیل تماشے میں لگے ہیں۔سب سے بڑے صوبے میں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اجلاس بلا کر ملتوی کردیا جاتا ہے۔ایسے لگتا ہے یہ کوئی بادشاہت ہے۔سپیکر پنجاب اسمبلی راجہ اندر بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ہمارے وزیر دہائی دے رہے تھے اور انہیں آئی جی اور چیف سیکرٹری کی یاد آ رہی تھی۔جب ڈپٹی سپیکر نے انتخاب کرایا تو غنڈوں کو کس نے اندر بھیجا۔یہ میری ذات کا یا انا کا معاملہ نہیں۔سپیکر کی انا اور بنی گالا میں بیٹھے شخص کی انا ختم ہی نہیں ہورہی۔گزشتہ 3 ماہ سے صوبے میں قانون اور آئین کیساتھ کھلواڑ کیا گیا اور تین ماہ میں جو تماشہ ہوا کبھی تاریخ میں نہیں دیکھا۔یہ اسمبلی عوام کے پیسوں سے چلتی ہے۔اجلاس بلاکر چند منٹ میں ملتوی کردیا جاتا ہے۔ ہم بجٹ پیش کرنا چاہتے ہیں۔یہ تماشا بند ہونا چاہیے، اس آدمی کو سمجھ آنی چاہیے۔آپ حمزہ شہباز کی نہیں عوام کی دشمنی مول لے رہے ہیں۔اب ان کو عوام کی عدالت میں پیش کریں گے، ان کو جوابدہ ہونا ہوگا۔ ایک طرف ہم نے سندھ اور خیبر پختونخوا کے صوبائی بجٹ پر بات کی تو دوسری طرف پنجاب میں بجٹ پیش نہ ہونے کے معاملے کا مختصر ذکر کیا ۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق اپوزیشن آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری پنجاب سے اپنے ساتھ روا رکھے گئے مبینہ ناروا سلوک پر جواب طلبی کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت اُن کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے اسی لیے انہیں ایوان میں لانے سے گریزاں ہے۔ متذکرہ صورتحال ہماری قومی سیاست میں تلخی اور عدم برداشت کی واضح مثال ہے، اور ملک کے سنجیدہ طبقے ہمیشہ سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ خدارا سیاست میں ایسی نوبت لانے سے گریز کیا جائے کیونکہ ماضی میں ایسی تلخیوں اور عدم برداشت کا نتیجہ ہم جمہوریت کی قربانی کے صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن مخالفت کو اِس نہج تک نہیں پہنچنا چاہیے کہ واپسی اور مصلحت کے تمام دروازے ہی بند کردیئے جائیں،
ہم کسی ایک سیاسی جماعت کو اِس معاملے پر متوجہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ ہم سبھی سے کہنا چاہتے ہیںکہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات کو پروان چڑھائیں لیکن اِن روایات کو نہیں جو حال ہی میں عدم برداشت کے نتیجے میں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ جمہوریت میں مثبت روایات کو فروغ دیںتاکہ بدلے اور انتقام کی سیاست ختم ہواور جمہوریت کے حقیقی ثمرات عام پاکستانی تک پہنچ سکیں۔ ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، شاید تب بھی یہی سمجھا جاتا تھا کہ ’’کچھ نہیں ہوگا‘‘اور یہ ’’جمہوریت کا حُسن ہے‘‘ مگر بالآخر نقصان ہوا اور سبھی نے اُن غلطیوں اور عدم برداشت کا خمیازہ بھگتا۔ ہم ہمیشہ کی طرح توقع کرتے ہیں کہ سنیئر اور بزرگ سیاست دانوں کو ایسی صورتحال اور تلخیوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ جمہوریت کو کسی غلطی کے نتیجے میں نقصان نہ پہنچے۔
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button