ColumnMazhar Ch

چائلڈ لیبر، کٹھن چیلنج .. مظہر چودھری

مظہر چودھری
دنیا بھر میں12جون محنت کش بچوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ یہ دن منانے کا مقصد محنت کش بچوں کے مسائل کو حکومت و دیگر ذمہ داران تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر کے تدارک کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا ہے۔عام طور پر بچے کو اس کے تعلیم و تفریح کے حق سے محروم کر کے چھوٹی عمر میں ہی کام پرلگا دینا چائلڈ لیبر کہلاتا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد میں گذشتہ بیس برسوں کے دوران پہلی باراضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2016میں جبری مشقت کا شکار بچوں کی تعداد 152 ملین تھی جو اب بڑھ کر 160 ملین سے زائد ہو چکی ہے اور اس صورت حال پر قابوپانے کے لیے اہم اقدامات نہیں کئے گئے تو 2022 کے اواخر تک بچہ مزدوروں کی تعداد بڑھ کر 200ملین تک پہنچے کے خدشات ہیں ۔ واضح رہے کہ چائلڈ لیبر میں حالیہ اضافہ کوویڈ19کے دنوں میں دیکھنے میں آیا تھا لیکن کوویڈ پر کافی حد تک قابو پانے کے باوجودیہ اضافہ رکنے کا نام نہیںلے رہا۔سماجی ماہرین کے مطابق اس کی وجہ کوویڈ اور دیگر وجوہات کی بنا پر عالمی سطح پرہونے والی مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہے جس کے نتیجے میں غریب خاندان بچوں کو چائلڈ لیبرمیں جھونسنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ہر چار برس کے وقفے سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کی نصف تعداد پانچ سے گیارہ برس کے بچوں کی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جبری مشقت پر مجبور بچوں کی کل تعداد کا نصف بچے انتہائی جسمانی مشقت والے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تونہایت گمبھیر تصویر سامنے آتی ہے۔ ہمارے ہاںبچوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اٹھائے گئے ناکافی اقدامات کے باعث بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں محنت و مشقت(چائلڈ لیبر) کرنے پر مجبور ہے ۔پاکستان میں بچوں سے محنت و مشقت سے متعلق 23سالہ پرانے اعدادوشمار دستیاب ہیں جن میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں سمیت بدترین اقسام کی چائلڈ لیبر شامل ہی نہیں۔اگرچہ حکومت نے پچھلے سال چائلڈ لیبر سروے کرایالیکن ابھی تک اس کے نتائج نہیں آئے۔ 1996میں کیے گئے سروے کے مطابق 33لاکھ بچے جبری مشقت پر مجبور تھے۔حالیہ سروے کے نتائج ابھی آنے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق اب ایک کروڑ کے قریب بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں جن میں 55لاکھ بچے 10سال سے کم عمر کے ہیں۔غیر سرکاری تنظیموں کے اعددوشمار کے مطابق پچھلے دس سالوں میںپاکستان میں چائلڈ لیبر میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ملک میں مجموعی طورپر 2کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔یہ بچے کسی بھی وقت مزدور بن کر چائلڈلیبر فورس کا باقاعدہ حصہ بن سکتے ہیں۔پاکستان میں ڈومیسٹک چائلڈ لیبر کے علاوہ چوڑیاں بنانے ، سرجیکل آلات ، کھیلوں کے سامان اور گہرے پانیوں میں ماہی گیری جیسے خطرناک پیشوں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد جبری مشقت کرنے پر مجبور ہے جو بین الااقوامی سطح پر چائلڈ لیبر کی بدترین اقسام میں شمار ہوتی ہیں۔ سابقہ شہبازشریف حکومت میں بھٹہ مزدور بچوںکے حوالے سے پنجاب حکومت نے موثر قانون سازی کی تھی جس پرایک سال قبل تک کافی حد تک عمل درآمد ہونے سے ہزاروں کی تعداد میں بچے جبری مشقت کے شیطانی چکر سے نکل کر تعلیم جیسے بنیادی حق سے مستفید ہونے میں کامیاب ہو ئے
لیکن عمران حکومت کی جانب سے شہباز شریف دور میں قائم کئے گئے بھٹہ مزدور سکولوں کو فنڈز جاری نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے بھٹہ مزدوروں کے بچے دوبارہ سے جبری مشقت پر مجبورہوئے۔تلخ حقائق یہ ہیں کہ اب بھی بہت سے غریب لوگ زمین داروں یا امیر کسانوں سے لیے ہوئے قرضوں کے بوجھ تلے پھنس کر اپنے بچوں کو بھی بانڈڈ لیبر کا شکار بنارہے ہیں ۔حقیقت میں چائلڈ لیبر کا معاملہ معاشی ہے۔گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو تو8سال کا بچہ بھی اپنے بچپن میں ہی جوان ہو جاتا ہے اور اپنے گھر کا بڑا بن کر روزی روٹی کمانے کی بھاگ دوڑ میں شامل ہونا اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔
اگرچہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے چائلڈ لیبر میں کمی ایک کٹھن چیلنج ہے تاہم حکومت کو مشکل ترین حالات کے باوجود یہ کٹھن چیلنج قبول کرناچاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرضوں میں جکڑی معیشت کے حامل ملک کے لیے فوری طور پر چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھاتے ہوئے غریب خاندانوں کو معاشی ریلیف دینا یا مختلف شعبوں میں جبری مشقت پر مجبوربچوں کو اس دلدل سے نکالنا کافی مشکل ہے تاہم اس کے باوجود بہت کچھ کیا جانا ممکن ہے۔وزیراعظم شہباز شریف اپنے سابقہ دور کی طرح چائلڈ لیبر میں کمی کے لیے پرعزم ہو جائیں تو اینٹوں کے بھٹوں سمیت زراعت اور مینوفیکچرنگ کمپنیز سمیت دیگر شعبوں سے بھی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف بننے والے قوانین ناکافی اور غیر موثر ہیں۔ان میںزیادہ تر قوانین رسمی یا فارمل سیکٹر سے متعلق ہیں۔غیر رسمی سیکٹر سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں۔ اسی طرح جو بچے دیہات میں زراعت کے پیشے میں کام کرتے ہیں، ان سے متعلق بھی کوئی قانون نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ چائلڈ لیبر کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے مروجہ قوانین میں ضروری ترامیم اور اضافے کرے۔ ورکشاپوں، ہوٹلوں ، دکانوں، چھوٹے صنعتی وتجارتی اداروں، تجارتی مراکز اور خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں پر چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات ہونے چاہئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے چائلڈ لیبر کے حوالے سے گذشتہ سال ہونے والے سروے کے نتائج کو فوری پبلش کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے رسمی و غیر رسمی سیکٹرز میں اتنے سخت اور موثر قوانین بنائے جائیں کہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سمیت کوئی شخص معصوم بچوں کاجسمانی و معاشی استحصال کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ کسی بھی فیکٹری یا صنعت میں ملازمت کرنے کے لیے عمرکی کم سے کم حدعالمی معیار کے مطابق 18سال ہونی چاہیے۔ بچوں کو سکولوں میں داخل نہ کروانے والے والدین کو سزا اور جرمانہ کیا جائے ۔ حکومت کو جبری مشقت پر مجبور انتہائی غریب بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ماہانہ اور روزانہ بنیادوں پر وظائف اور الائونسز دینے چاہئیں۔چائلڈ لیبر کے شکار بچوں کے والدین کی معاشی حالت بہتر بنائے بغیراس ناسور کا خاتمہ ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button