ColumnRoshan Lal

 پھر سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب .. روشن لعل

روشن لعل

ان دنوں لوڈ شیڈنگ ، ایک مرتبہ پھر عذاب بن کر عوام پر نازل ہے۔ چند برس کے استثنیٰ کے علاوہ پاکستان کے عوام ایک عرصہ سے یہ عذاب برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی کی بات کی جائے تو لوڈ شیڈنگ کا ایک عذاب آصف علی زرداری کے دور صدارت میں بھی لوگوں کو برداشت کرنا پڑا۔ موجودہ اور مذکورہ ادوار میں کچھ فرق ہے تو وہ صرف یہ کہ زرداری کے دور میں جو شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے خلاف دستی پنکھا ہاتھ میں پکڑ ے مینار پاکستان پر احتجاجی کیمپ لگایا کرتے تھے وہ آج وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہیں اور ان کی ٹیم یہ صفائیاں پیش کر رہی ہے کہ حالیہ لوڈ شیڈنگ کے لیے وہ کسی طرح بھی ذمہ دار نہیں۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا فرق یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کی صفائیاں پیش کرنے والی ٹیم میں اس پیپلز پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں جن کی حکومت کے خلاف مینار پاکستان میں کیمپ لگا کر احتجاج کیا جاتا رہا۔

لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لوگوں پر مشتمل جو ٹیم شہباز شریف کی صفائیاں پیش کر رہی ہے اس کے موقف کو کسی طرح بھی بے بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس ٹیم نے شہباز شریف کی قیادت میں جب اقتدار سنبھالا اس وقت ملک میں 7000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش رکھنے والے 27 پاور سٹیشن بروقت مرمت نہ کیے جانے کی وجہ سے بند پڑے تھے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے ہر ماہ پٹرول اور بجلی مہنگی کرنے کے معاہدوں کے باوجود اپنی حکومت کے خاتمہ سے کچھ عرصہ قبل سے ان دونوں اشیا کی قیمتیں منجمد کر دی تھیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک طرف دکھاوے کے لیے عوام پر پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا احسان کیا گیا مگر دوسری طرف جان بوجھ کر بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں کی مرمت سے گریز کیا گیا تاکہ مہنگا پٹرول خرید کر عوام کو سستی بجلی کی فراہمی سے ہونے والے خسارے سے بچا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے

عمران حکومت پر 27 پاور سٹیشنوں کی بروقت مرمت نہ کروانے اور ان سے بجلی پیدا نہ ہونے کی وجہ سے ہونیوالی لوڈ شیڈنگ کا الزام وزیر اعظم شہباز شریف نے لگایا تھا جس کا پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب سامنے نہیں آسکا۔اس حوالے سے ایک دلچسب بات یہ ہے کہ بجلی و توانائی کے وزیر خرم دستگیر نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کے دوران یہ انکشاف کیا کہ ملک میں کچھ ایسے پاور سٹیشنز ہیں جو خراب نہ ہونے کے باوجود صرف اس وجہ سے بند ہیں کیونکہ ان سے فرنس آئل اور ڈیزل کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت 45 روپے فی یونٹ تک آتی ہے۔ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اتنی مہنگی بجلی پیدا کرنے کا بوجھ کیونکہ آخر کار عوام پر آتا ہے لہٰذا ہم نے عوام پر یہ بوجھ نہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ پلانٹ جان بوجھ کر بند کیے ہوئے ہیں۔

عمران خان کے دور حکومت میں اگر کچھ پاور سٹیشنوں کی جان بوجھ کر بروقت مرمت نہ کرائی گئی یا
موجودہ حکومت نے اگر کچھ پاور پلانٹ اپنی مرضی سے بند رکھے ہیںتو اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ حکومت جس کسی کی بھی ہو ہمارے قومی خزانے میں اتنی سکت نہیں کہ وہ تیل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے پاور سٹیشنز کا بوجھ برداشت کرنے کا متحمل ہو سکے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں جو ہوشربا اضافہ ہوا ہے کیا اس کی وجہ سے ہمارے لیے قیمتی زرمبادلہ کے عوض تیل خریدنا مشکل ہو گیا ہے یا پھر جنم سے ہی مقروض ملک ہونے کے ناطے ہمارے لیے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگانا کبھی بھی مناسب اور آسان نہیں تھا۔ اس سوال کا درست جواب یہ ہے کہ جب ہمارے ملک میں سستے اور ماحول دوست متبادل ذرائع سے پن بجلی حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو پھر مہنگے تیل سے چلنے والے کارخانوں کوکیوں بجلی کے حصول کا ذریعہ بنایا گیا۔

اگر تیل ، گیس اور کوئلے سے بجلی بنانے والے کارخانوں کی یہاں تعمیر کی بات کی جائے تو ہمارے ناقدوں کی تان یہ کہتے ہوئے بے نظیر بھٹو شہید پر آکے ٹوٹتی ہے کہ ان کے دوسرے دور حکومت میں آئی پی پیز کے ذریعے یہاں بے دریغ تھرمل پاور سٹیشن تعمیر کیے گئے ۔ بے نظیر بھٹو کے ناقدیہ بات کرتے وقت پورا سچ نہیں بولتے۔ کیونکہ پورا سچ یہ ہے کہ جب بے نظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالا اس وقت بہت بڑی تعداد میں دیہاتوں اور کئی شہری آبادیوں بجلی کی عدم فراہمی کے باوجود پورے ملک میں قریباً دو دہائیوں سے جاری لوڈ شیڈنگ بے پناہ زیادہ اضافہ ہو گیا تھا ۔ اس صورتحال میں تھرمل پاور سٹیشنز لگانے کے علاوہ ملک میں بجلی کی فوری فراہمی کی کوئی بھی دوسری صورت نہیں ہوسکتی تھی۔

بے نظیر بھٹو نے جہاں آئی پی پیز سے دس برس کا معاہدہ کر کے قومی خزانے پر بوجھ ڈالے بغیر یہاں تھرمل پاور سٹیشنز کی تعمیر سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن بنایاوہاں 1994-95 کی پاور پالیسی کے تحت سستی پن بجلی کے ایسے پلانٹ لگانے کا آغاز بھی کیا جو اپنی تکمیل کے بعدمہنگی تھرمل بجلی کا متبادل ثابت ہو سکیں۔ افسوس کہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے دور میں شروع ہونے والے غازی بروتھا پن بجلی سٹیشن کے علاوہ دیگر تمام منصوبے ختم کر دیئے گئے۔ پھراگلے بارہ برس تک ملک میں ایک میگاواٹ پن بجلی یا تھرمل بجلی پیدا کرنے کا کوئی نیا منصوبہ شروع نہ کیا گیا۔بارہ سال کے دوران بجلی کی طلب میں بے پناہ اضافے کے باوجود نئے بجلی گھر لگانے میں غفلت برتنے کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کا وہ عذاب نازل ہوا جس کا ذمہ دار آصف علی زرداری کو قرار دے کر شہباز شریف مینار پاکستان پر احتجاجی کیمپ لگاتے رہے۔

جس طرح بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں تھرمل پاور سٹیشنز تعمیر کر کے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا اسی طرح یہ کام میاں نوازشریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں کیا۔ واضح رہے کہ میاں نوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے بے نظیر پر یہ کہتے ہوئے سخت تنقید کی تھی کہ انہوں نے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے تھرمل بجلی گھر کیوں تعمیر کیے مگر جس طرح کے منصوبوں کو وہ پہلے ہدف تنقید بناتے رہے بعدمیں عین ا سی طرح منصوبے لگا کر انہوں نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا سہرا اپنے سر سجایا۔

لوڈ شیڈنگ کا عذاب یہاں کب سے ہے اور کیوں ہے اس کا مختصر خلاصہ یہاں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس خلاصے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہنگی بجلی پیدا کرنے والے تھرمل پاور سٹیشن لگا کرلوڈ شیڈنگ کے عذاب کو وقتی طور پر کم تو کیا جاسکتا ہے مگر اس عذاب سے مکمل چھٹکارے کا حل یہی ہے کہ سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کرنے والے پانی، سورج اور ہوا جیسے ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کو ترجیح دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button