Editorial

اقتصادی سلامتی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ایک بار پھرحالات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی قوتوں کو میثاق معیشت پر متفق ہونے کے لیے کہا ہے۔ سیاسی قوتوں اور سٹیک ہولڈرز کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اقتصادی سلامتی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے۔ سیاسی قوتیں اور تمام فریقین اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات سے بالاتر ہو کر میثاق معیشت پر متفق ہوں، کیوں کہ میثاق معیشت کے تحت پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنانا ہو گا۔
اتحادی حکومت نے معیشت کے استحکام کے لیے مشکل فیصلے کئے ہیں، ہم نے اپنی سیاست پر اس کے اثرات کی پرواہ نہیں کی کیوں کہ ایسا کرنا ملک کے بہترین مفاد میں ہے، کب تک ہم قومی ذمہ داریوں کی قیمت پر اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کا شکار ہوتے رہیں گے۔بلاشبہ وزیراعظم پاکستان بار بار سیاسی قوتوں کو مخاطب کرکے میثاق معیشت پر اتفاق کے لیے زور دے رہے ہیں لیکن ماسوائے حکومتی اتحاد کے، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود سیاسی قوتیں اِس معاملے پر رضا مند نظر نہیں آتیں بلکہ ملک کی معاشی صورتحال ، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کو بنیاد بناکر احتجاج کررہی ہیں، لیکن سوال تو یہ اُٹھتا ہے کہ موجودہ معاشی بحران کا حل احتجاج اور مظاہرے ہیں یا پھر متفقہ لائحہ عمل ؟ اگر سڑکوں پر نکل آنے سے معاشی بحران ختم ہوجائے گا تو پوری قوم کو سڑک پر نکل آنا چاہیے
لیکن اگر متفقہ لائحہ عمل اور مشکل فیصلے اور پھر اِن پر عمل ناگزیر ہے تو سیاسی قوتوں کو میثاق معیشت پر سیاست قطعی نہیں کرنی چاہیے۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا کہ اتحادی حکومت نے معیشت کے استحکام کے لیے مشکل فیصلے کئے ۔ ہم نے اپنی سیاست پر اس کے اثرات کی پرواہ نہیں کی کیوں کہ ایسا کرنا ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔بلاشبہ آج حکومت ایسے مشکل لیکن ناگزیر فیصلے کرنے پر مجبور ہے جس کے سیاسی سطح پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن وزیراعظم اور اتحادی جماعتیں اِس وقت ملک کو سنگین معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک کے بعد دوسرا مشکل لیکن ناگزیر فیصلہ کررہی ہیں کیونکہ معیشت کی صحت یابی کے لیے سرجری بھی کرانا پڑے گی اور کڑی دوا بھی نگلنا پڑے گی، اب پھونکوں سے صحت یابی ممکن نہیں رہی اور پانی سر سے گزر چکا ہے۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف نے وزارت اعظمیٰ سنبھالنے کے بعد ہی نہیں بلکہ اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں بھی سیاسی قوتوں کو میثاق معیشت پر متفق ہونے پر زور دیا اور ایک سیاسی رہنما کا یہی ویژ ن ہوتا ہے کہ وہ سیاسی قوتوں اور سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیکر چلتا ہے
لیکن جب دوسری جانب سے سنجیدگی سے عاری رویے دیکھنے کو ملیں اور چھوٹے چھوٹے مفادات کو قومی مفادات اور ذمہ داریوں پر ترجیح دیتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے تو آزمائش جلد ختم ہونے کی بجائے طویل ہوجاتی ہے اور ایسے رویے قطعی پہلی بار دیکھنے کو نہیں مل رہے بلکہ ہمیشہ سے سیاسی قوتوں نے مخالفت برائے مخالفت کی روش کو برقرار رکھتے ہوئے ہر موقع پر میثاق کی پیشکش کو رد کیا ہے۔ آج ہم جس معاشی کیفیت سے گزر رہے ہیں ، ماضی میں کبھی ایسی تشویش ناک صورتحال کا وطن عزیز کو سامنا نہیں کرنا پڑا مگر آج وطن عزیز نازک دوراہے پر کھڑا ہے تو سبھی سیاسی قوتوں کو بلکہ ہر پاکستانی کو اِس میثاق معیشت کا حصہ بن جانا چاہیے کیوں کہ اِسی میں ہماری بقا اور ترقی ہے۔ موجودہ حکمران قیادت نے ملک کو معاشی چیلنجز سے باہر نکالنے کے لیے مشکل ترین سیاسی فیصلہ کیا اور قرضوں کے پہاڑ، عالمی مالیاتی اداروں کے تقاضوں اور مہنگائی سمیت تمام تر چیلنجز کو قبول کرکے معاشی اصلاحات کا عمل شروع کیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو بار نمایاں اضافہ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ جیسے مشکل فیصلے موجودہ حکمران قیادت نے یہ جانتے ہوئے کیے کہ اِن فیصلوں سے مہنگائی بڑھے گی ، مصنوعی مہنگائی بھی لائی جائے گی، لوگوں کی قوت خرید پر اثر پڑے گا،
غریب اور مڈل کلاس طبقہ زیادہ متاثر ہوگا مگر اِس کے باوجود ایک کے بعد دوسرا مشکل فیصلہ کیاگیا اور بلاشبہ آنے والے عام انتخابات میں سیاسی مخالفین اِن معاشی اصلاحات کو منفی رنگ دے کر اِس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے مگر سوچنے کی ضرورت ہے کہ غیر ملکی بینکوں سے قرض لیکر کب تک قوم کو سستا پٹرول، سستی گیس، سستی بجلی اور سستااناج دیا جاسکتا ہے، قرض اُٹھاکر سبسڈی دینا قطعی دانشمندانہ فیصلہ نہیں، قومی خزانہ بھرا ہو تو حکومت جس مرضی چیز پر سبسڈی دیدے، لیکن جب قومی خزانہ خالی اور ڈیفالٹ کے خطرات منڈلارہے ہوں تو کیا ایسے مشکل فیصلے کرکے ملک کو بچانا ضروری ہے یا مخالف سیاسی قوتوں کی خواہشات اور مخالفت برائے مخالفت کا تسلسل برقرار رکھنا ضروری ہے۔ قومی سیاسی قیادت میثاق معیشت پر متحد و متفق ہوتی تو آج قوم دو حصوں میں تقسیم ہونے کی بجائے متحد ہوتی اور ہر آزمائش کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرتی مگر افسوس صرف یہی ہے کہ سنگین اور حساس معاملات پر بھی بعض سیاسی جماعتیں قوم کو منتشر کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔ سیاست دان ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کسی میثاق کا حصہ بننے کو تیار نظر نہیں آتے بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو بھی فیصلے ہورہے ہیں وہ ملک و قوم کے مفادات کے برعکس ہورہے ہیں۔
ماضی میں سیاسی قیادت نے جو اور جتنی بھی غلطیاں کی ہیں اُن کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے لیکن کیا ایک دوسرے کو کوستے رہنے سے مسائل حل ہوں گے اور قرض اُتر جائیں گے، مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا اورلوگ خوشحال ہوجائیں گے؟ ایسا قطعی نہیں ہوگا کیونکہ جتنے بڑے چیلنجز ہوں اُن سے نمٹنے کے لیے اُتنے ہی بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اپنی سیاسی ساکھ کو ملک و قوم کے بہترین مفاد کے لیے خطرے میں ڈالا ہے لیکن ہر باشعور پاکستانی سمجھتا ہے کہ یہ فیصلے انتہائی ناگزیر ہیں، ہم فقط اتنی استدعا کرنا چاہیں گے کہ ہر مشکل فیصلے سے پہلے عام پاکستانی کی معاشی لحاظ سے مشکل زندگی کو ضرور مدنظر رکھا جائے کیونکہ عام پاکستانیوں میں اب معاشی بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں بلکہ متوسط اور نچلا طبقہ جو دراصل اکثریت ہے، وہ قابل رحم اور ریلیف کا مستحق ہے۔ اگرچہ حکومت نے مخصوص آمدن والے پاکستانیوں کو دو ہزار روپے ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ رقم کم ہے بلکہ اِس ریلیف کا دائرہ بھی وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
عام پاکستانی کی معاشی قوت بڑھانے کی ضرورت ہے کہ اِسے پٹرول، گندم، گیس، بجلی اور دیگر اشیائے ضروریہ پر سبسڈی کی ضرورت نہ رہے اور نہ ہی وہ سبسڈی کا تقاضاکرے، چونکہ آج تک قوم کو سبسڈی کا عادی رکھا گیا مگر معاشی معیار بلند کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اِسی لیے عوام آج زیادہ پریشان دکھائی دیتی ہے کیوںکہ لوگوں کے پاس اِن معاشی فیصلوں کو برداشت کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں، رہی سہی کسر سیاست دان پوری کردیتے ہیں کیوںکہ یہی سیاست سمجھی جاتی ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اِس نازک وقت میں سیاسی دکانداری چمکانے کی بجائے مل بیٹھا جائے، ملک و قوم کے بہترین مفاد میں میثاق معیشت پر متفق ہوکر قوم کو دکھایا جائے کہ کوئی سیاست دان دشمن نہیں، سبھی محب وطن پاکستانی ہیں اور ہم سنجیدگی کے ساتھ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کریں گے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہم جناب وزیراعظم! سے یہ بھی استدعا کریں گے کہ عام پاکستانیوں کی معاشی قوت بڑھانے پر بھی غور کیاجائے تاکہ کوئی سبسڈی مانگنے پر مجبور نہ ہو اِس کے علاوہ مصنوعی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزوں کو قرار واقعی سزائیں سنائی جائیں جیسے بعض عرب ممالک میں سنائی جاتی ہیں تاکہ ایسے لوگ نشان عبرت بنیں،
یہی نہیں نمائشی اور غیر ضروری منصوبوں کے لیے قرض اٹھانے سے گریز کیا جائے کیوں کہ موجودہ مشکل معاشی حالات کے پیچھے ایسے بھی فیصلے ہیں۔ کفایت شعاری کے لیے بڑی گاڑیوں کے استعمال کو ختم یا کم کرایا جائے۔ ریلیف دینے کے لیے درجہ بندی کی جائے تاکہ صرف حقدار ہی ریلیف حاصل کرسکیں۔ پرائس کنٹرول کے معاملے پر زیرو ٹالرنس کی حکمت عملی اختیار کی جائے اور موجودہ حالات کے باوجود اگر کوئی شعبہ حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے مزاحمت کرتا ہے تو اُس کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ حکومت نے تجارتی مراکز رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاجر تنظیمیں اِس معاملے پر تقسیم نظرآتی ہیں لیکن کوئی مناسب اور متفق حل نکالنا چاہیے مگر ریاست کے فیصلے کے خلاف مزاحمت اور انکار کی روایت کو ختم کرنا چاہیے۔ ہمیں دہائیوں کی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے کئی دہائیوں تک اصلاحات کے عمل سے گزرنا پڑ سکتا ہے اِس لیے سبھی سٹیک ہولڈرز بالخصوص سیاسی قیادت کا قومی مفاد کے فیصلوں پر متحد اور متفق ہونا ضروری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button