ColumnNasir Sherazi

چند دنوں کے مہمان .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

اوپر آنے اور آنے کے بعد نیچے آنے کے کھیل کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نیازی سے بہتر کون سمجھتا ہے۔ وہ ربع صدی میں مختلف موقعوں پرکبھی اوپر کبھی نیچے آئے۔ قریباً چار برس اقتدار کی اعلیٰ ترین منزل پر براجمان رہے لیکن متعدد موقعوں پر نیچے آئے۔ وہ سیاسی جدوجہد کے عرصہ اور حکومت ہاتھ میں ہونے کے ماہ و سال میں عام آدمی کو اوپر لانے اور طاقت ور کو قانون کے نیچے لانے کے فلسفے کا پرچار کرتے رہے مگر ہوا اُس کے الٹ۔ عام آدمی کسی شعبہ زندگی میں اوپر نہ آسکا جبکہ طاقت ور قانون کے نیچے نہ آسکے۔ آخری ایام میں یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی کہ مافیا ہمیں کام نہیں کرنے دیتے۔ یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ انہی مافیاز سے جان چھڑانے کے لیے تو انہیں ووٹ دیئے گئے تھے۔ ان مافیاز کے پنجوں سے آزادی کاسبق بھی انہوںنے ہی قوم کو دیا تھا ورنہ قوم تو ان کی غلامی میں بہت خوش تھی۔

تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس گذشتہ سات برس میں جون کی رفتار سے آگے بڑھتا رہا۔ خیال تھا کہ ان کے زمانہ اقتدار میں یہ مقدمہ خرگوش کی رفتار سے آگے بڑھتا ہوا نظر آئے گا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا، بھرپور کوششیں کی گئیں کہ یہ مقدمہ کم ازکم مزید کئی برسوں تک فیصلے سے دور رہے، تحریک انصاف کو سستا تو ضرور لیکن انصاف نہ مل سکا، اب یہ انصاف ملنے والا ہے لیکن وہ اسے لینے کے لیے تیار نہیں، گذشتہ پانچ برس میں خاص طور پر اہتمام نظر آیا کہ مقدمے کو طول دینے کے لیے جو کچھ ممکن ہے، وہ ضرور کیا جائے۔ لمبی تاریخیں، ریکارڈ مہیا نہ کرنا اور پھر ایک مرحلے پر اس کی کارروائی کو خفیہ رکھنے کی استدعا بھی کی گئی۔ تحریک انصاف کی قریباً تمام فرمائشیں مانی جاتی رہی ہیں اب شاید آخری خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات تک اس کا فیصلہ سامنے آئے۔ اِس خواہش کے پس پردہ ایک ہی خواب ہے، وہ یہ کہ اس مقدمے کا فیصلہ انتخاب جیتنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے،

دیانت داری کا بھانڈہ پھوٹ سکتا ہے۔ پارٹی کے کچھ رہنما نااہل ہوسکتے ہیں۔ پارٹی پر پابندی بھی لگ سکتی ہے لہٰذا فیصلہ جلد نہ آئے۔ تحریک انصاف کے بزنس منیجرز اور قانونی ماہرین تحریری طورپر کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی فنڈنگ سے ملنے والا روپیہ ضبط کرلیں، ہم اسے حکومت کوواپس کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمیں اس حوالے سے سزا نہ دی جائے گویا چور تسلیم کررہا ہے کہ اِس نے چوری کی ہے۔ چوری کی رقم اس کے پاس موجود ہے،وہ چوری کی رقم واپس کرنے کو تیار ہے لیکن اُسے اس چوری پر سزا نہ دی جائے، تحریک انصاف کا ایک عجیب و غریب مطالبہ یہ بھی ہے کہ دوسری جماعتوں سے متعلق فیصلہ بھی ان کے مقدمے کے ساتھ ہی سنایا جائے جبکہ ایک موقف یہ ہے کہ جو مقدمہ پہلے دائر ہوا اس کا فیصلہ پہلے آئے گا۔ جو مقدمہ کئی برسوں سے چل رہا ہے اورمختلف مراحل طے کرتا ہوا اب فیصلے کے قریب ہے، اسے کیسے مزید موخر کیا جاسکتا ہے۔ اس کا فیصلہ سب سے پہلے ہی آئے گا۔ اب فیصلہ آنے کو ہے جبکہ سوچ و بچار جاری ہے کہ اسے ٹالا کیسے جاسکتا ہے۔

آپ فرماچکے ہیں کہ مجھے گذشتہ برس جولائی میں ہی معلوم ہوگیا تھاکہ کیا ہونے والا ہے، عرض کروں، بائیس جون سے دن چھوٹا ہونا شروع ہوچکا ہے۔ یہ بائیس دسمبر تک اسی سیکنڈ روزانہ کے حساب سے چھوٹا ہوتا رہے گا، دن دس گھنٹے اور رات چودہ گھنٹے کی ہوجائے گی۔ آپ چاہتے ہیں الیکشن فوراً ہوجائیں، نہیں جناب ایسا جلد ممکن نہیں۔ بائیس دسمبر سے دن بڑا اورراتیں چھوٹی ہونا شروع ہوں گی، ہر روز پنتالیس سیکنڈ کا فرق پڑے گا پھر ایک وقت آئے گا جب دن چودہ گھنٹے اور رات دس گھنٹے کی راہ جائے گی۔ یادرکھنے کے لیے اہم بات یہ ہے کہ ہر سال تئیس مارچ اور تئیس ستمبر کو دن اور رات برابر ہوجاتے ہیں۔ مارچ تو بیت گیا ہے، ستمبر آنے کو ہے، آنے والا ستمبر ستمگر ثابت ہوسکتا ہے۔

تحریک انصاف کو فارن فنڈنگ کیس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ جب خلاف فیصلہ آجائے تو اسے امریکی سازش کے زمرے میں ڈال دیں، کام نہ چلے تو اس کے ڈانڈے بھارت اور اسرائیل سے ملادیں کہ ہمیں اقتدار سے نکالنے کی سازش کرنے کے بعد اب ہمیں اقتدار سے باہر رکھنے کی سازش کی گئی ہے۔ اداروںپر دبائو بڑھانے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ امریکہ مخالف جذبات کوازسرنو کیش کرانے کے لیے امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان موثر ہوسکتاہے۔ حیرت ہے اب تک ایسا تیر بہ ہدف نسخہ کیوں نہیں استعمال کیاگیا۔ اقتدارسے قبل دھرنے میں یوٹیلٹی بلز ادا کرنے سے روکاگیا۔ سول نافرمانی کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔ ملک میں لاتعداد افراد نے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوں کی ادائیگی روک دی، واپڈا والے آئے اورعدم ادائیگی پرسب کے کنکشن کاٹ گئے، ٹھیک تیسرے روز سول نافرمانی کی کال دینے والے اور کنٹینر پر چڑھ کر بجلی کے بل کو سگریٹ کے لائٹر سے آگ لگانے والے جناب عمران خان نے اپنا بجلی کا بل جمع کرایا اور بجلی بحال کرائی۔ ان کے چاہنے والے دیکھتے رہ گئے، بالآخر سب نے چند روز گرمی برداشت کی اور اپنے اپنے بل ادا کرکے بجلی بحال کرائی۔

عام آدمی امریکی مصنوعات زیادہ استعمال نہیں کرتا لہٰذا اگر بائیکاٹ مہم شروع کردی جائے تو صاحب ثروت افراد سوچنے پر مجبور ہوں گے لیکن انہیں بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں خان کس کس کے گھر جاکر چیک کرے گا کہ بائیکاٹ کیا جارہا ہے یا امریکی مصنوعات کو سینے سے لگایاجارہا ہے۔ خطرہ پہلے کی طرح ایک یہی ہے جونہی بائیکاٹ شروع ہو، ساتھ ہی دوسرا بیان آجائے کہ امریکی مصنوعات کا زیادہ استعمال خوشحال پاکستان کے لیے ضروری ہے بالکل ویسے جیسے دوہری شہریت والے پہلے ملک کے لیے بہت نقصان دہ تھے، اقتدار ملنے کے بعد وہ پاکستان کے لیے سب سے معتبر بن گئے۔

بیک ڈور رابطہ کرنے والے بتاتے ہیں کہ متعدد خدشات کے پیش نظر خان ملک سے باہر جانا چاہتا ہے، وہ پنتالیس سے پچاس ڈگری ٹمپریچر میں جہاد مارچ کرنے سے گریزاں ہے اور ٹھنڈی ٹھار ہوائیں چلنے کا انتظارکرنا چاہتا ہے، جو اپنا رخ بدل چکی ہیں۔ اس کا استدلال یہ بھی ہے کہ میں نے اپنے زمانہ اقتدار میں باہر جانے کے خواہش مندوں کاراستہ ہموار کیا، پس میرے لیے بھی ایسا ہی سوچا جائے۔اس کام کے ماہر شیخ رشید کی مہارت اب کام نہیں آرہی، گیٹ نمبر چار انہیں لکھت دے چکا ہے۔ عقد ثانی کی ان کی عمر نہیں رہی انہیں تو خود جان کے لالے پڑے ہیں وہ زمانہ اقتدار میں اپنے حکم کے تحت لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی برسات سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوںنے ایک مرتبہ پھر مذہبی ٹچ دینے کے لیے ناموس رسالتﷺ ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے ان کے لیے دوسری لکھت تیارہے،وہ نئے جہادی مارچ و دھرنے میں پہلے کی طرح مہمان اداکار کے طور پر شرکت کریں گے وہ خوب جانتے ہیں اب تو وہ سب چند دنوں کے مہمان ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button