Columnمحمد مبشر انوار

مذاکرات .. مبشر انوار

مبشر انوار

اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے،موجودہ جدیدجمہوریت کا ،جس کی جڑیں برطانیہ سے پھوٹی اور وہاں پارلیمانی جمہوریت لمحہ موجود میں انتہائی تن آور درخت بن چکی ہے،اخلاقی اقدار اس قدر مضبوط ہیں اورمعاشرتی دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ کسی معمولی سی غیر اخلاقی حرکت پر حکومتیں زمیں بوس ہو جاتی ہیں۔وزراء و مشیران کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ مغربی و جمہوری معاشرے میں کوئی بھی عوامی نمائندہ غلط بیانی، دہرے معیار زندگی(عوام میں مختلف نقطہ نظرجبکہ عملاً برعکس)کے ساتھ عوامی نمائندگی کر سکے،ایسی کسی بھی صورت میں دوعملی آشکار ہونے پر سیاسی زندگی کا عبرتناک انجام سامنے آتا ہے اور تا حیات ایسے شخص کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل تصور کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی یہ ساخت ایک دن میں پروان نہیں چڑھی اور نہ ہی یہ ممکن ہے البتہ مسلسل مشق اور عوامی روئیے کے باعث،تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ اخلاقی معیار کو بلند کرکے اس مقصد کو حاصل کیا گیاہے،

سول اداروں سے سیاسی اثرورسوخ و مداخلت ختم کرکے عوامی اعتماد کا حصول ممکن بنایا گیا ہے،انصاف ایک عام شخص کی دسترس میں کرکے معاشرے میں قانون کی بالادستی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ برطانوی ہوم منسٹر کو محض اس لیے استعفیٰ دینا پڑا کہ اس نے کسی جاننے والے کی درخواست پر صورتحال کا احوال ہوم آفس سے چیک کروایا تھا، جس کو کارسرکار میں مداخلت سے تعبیر کیا گیااوروزیر کو مستعفی ہونا پڑاجبکہ یہی کام اگر درخواست گذار خود کرے تو محکمہ اس کا براہ راست جواب دینے کا پابند ہے۔ میں ذاتی طور پر اس کا شاہد ہوں کہ 2005میں جب میں نے اپنے ویزا کی توسیع کے لیے درخواست دے رکھی تھی، لیکن کام کی زیادتی کے باعث میری درخواست کا نمبر قدرے تاخیر سے تھا جبکہ مجھے سعودی عرب اپنے اقامتی ویزا کی تجدید کرواناتھی،

تب میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی ایک درخواست ہوم آفس کو بھیجی تھی اور حیران کن طور پر فقط پانچ دن کے اندر میرا پاسپورٹ ویزا توسیع کے ساتھ،چھٹی والے دن، میری رہائشگاہ پر پہنچا دیا گیا۔ یہاں یہ حقیقت بیان کرنا انتہائی ضروری ہے کہ میں نے اپنی درخواست کے ساتھ وہ تمام دستاویزی ثبوت لف کئے تھے،جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ مجھے واقعتاً اپنے ویزا میں توسیع کی فوری ضرورت ہے وگرنہ مجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے،اور نتیجہ یہ تھا کہ فقط پانچ دن میں ہوم آفس نے میری درخواست بغیر کسی سفارش کے میرٹ پر نپٹا دی۔گذشتہ چند سالوں میں برطانیہ میں سیاسی مدوجذر دیکھنے کو ملے ہیں اور مختلف حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں بھی نظر آئیں اور عوامی مفاد میں فیصلے کرنے کے حوالے سے ریفرنڈم بھی دیکھنے میں آیا ،کسی ایک صورت میں بھی حکومت پریشان نظر نہیں آئی بلکہ عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے،سر تسلیم خم کیااور اقتدار سے الگ ہوگئے۔ حتی کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے کے باوجود حکومتوں نے کچھ عرصہ کے بعد عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کو ترجیح دی گو کہ پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہو چکی لیکن معاملات کو مزید واضح کرنے کے لیے،اپنی پالیسیوں کو عوامی حمایت دینا ضروری سمجھا گیا۔ تسلیم کہ برطانیہ جیسی ریاست کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ جمہوری روایات کی پاسداری میں، تسلسل کی خاطر،عوامی اعتماد کو حاصل کرنا زیادہ مناسب اور بہتر خیال کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی جمہوری عمل کو قطعاً ذاتی انا کا مسئلہ نہیں بناتے اور سیاستدانوں کی گفتگو عوامی و ملکی مسائل پر مسلسل جاری رہتی ہے۔

پاکستان اس وقت حقیقتاً ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہے کہ یہاں جمہوری روایت ہنوز جڑ نہیں پکڑ سکی اور نہ ہی ہمارے سیاستدان یہاں جمہوری روایات کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں ،اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ افق سیاست پر جو سیاستدان اس وقت جلوہ افروز ہیں،ان کی اکثریت صرف حلقہ کی سیاست سے واقف ہے،عالمی منظر نامے میںان کی سوچ اتنی زیادہ نہیں کہ وہ بدلتے عالمی منظر نامے میں پاکستان کی اہمیت کو سمجھ سکیںاور اس کے مطابق ردعمل دے سکیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ انہی بونے سیاستدانوں نے سیاست کو صرف ذاتی اقتدار کا کھیل سمجھ رکھا ہے اور اس کے حصول میں کسی قسم کا لائحہ عمل اپنانے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہوتا اور پس پردہ محرکات تک پہنچنے کی ان میں اہلیت نہیں یا یہ پہنچنا نہیں چاہتے۔ اس تجاہل عارفانہ کی دوسری بڑی وجہ ان کی ماضی میں کی گئی وہ وارداتیں ہیں جن کے ثبوت مختلف بر اعظموں میں پھیلی ان کی کاروباری سلطنت میں دکھائی دیتے ہیں اور اس کاروباری سلطنت کے تحفظ کی خاطر یہ اپنے بیرون ملک آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستانی وقار و مفادات کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔عمران خان حکومت کا دھڑن تختہ بھی بقول عمران خان ایک مراسلے کی بنیاد پر ہوا ،جس کے نتیجہ میں عمران خان اس جمہوری عمل کو جمہوری تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔

دوسری طرف حکومتی وزراء کی یہ شدید ترین خواہش ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کو گرفتار کر کے ذاتی تسکین کا سامان کیا جائے،مراد یہ ہے کہ انا کی تسکین ہو ،ہٹ دھرمی اور ضد پوری کی جا سکے ۔ جو مقدمے وزارت داخلہ نے عمران خان پر قائم کر دئیے ہیں،ان سے با آسانی نکلنا عمران خان تو کیا کسی بھی شہری کے لیے اتنا آسان ہرگز نہیںاور اگر یہ حکومت رہتی ہے،جس کا امکان ففٹی ففٹی ہے،تو عمران خان کا پس زنداں جانا یقینی ہے۔ وزیر داخلہ نے اس پر جو اقدامات کررکھے ہیں،اپنے تئیں انتہائی فول پروف ہیں کہ اولاً عمران خان کی سکیورٹی تبدیل کرکے جو اہلکار تعینات کئے گئے ہیں،وہ بظاہر قانون سے زیادہ وزیرداخلہ کے احکامات کو دل و جان سے تسلیم کرنے والے لگتے ہیں کہ وزیرداخلہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ جیسے ہی عمران خان کی ضمانت ختم ہو گی،

یہی سکیورٹی اہلکار انہیں گر فتار کرلیں گے اور مزید ضمانت کی مہلت نہیں دی جائے گی۔یہ بیان ذاتی پرخاش کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ دو حکومتی شخصیات اس سارے معاملے کو انتہائی ذاتی حیثیت میں لے کر فقط عمران خان کی تذلیل کرنے میں کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے،خواہ نتیجہ کچھ بھی نکلے کہ عمران خان کے حمایتی بھی اس صورت میں کسی بھی حد تک جانے کے دعوے کررہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی وزیرداخلہ اپنے منصوبے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں عمران خان کے ساتھی بھی اپنے دعوے کے مطابق آخری حد تک جا پاتے ہیں یا نہیں،اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن درون خانہ شنید یہ بھی ہے کہ وزیرداخلہ کو گرفتاری کے انتہائی اقدام سے روک دیا گیا ہے کہ اس سے امن عامہ کا شدید خدشہ ہے۔دوسری طرف وزیراعظم نے مسائل حل کرنے کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دے دیا ہے لیکن اس گرینڈ ڈائیلاگ میں عمران خان شامل ہوں گے یا نہیں،

یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس گرینڈ ڈائیلاگ؍مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا؟کیا تمام سیاسی جماعتیںاس ایجنڈے کو تسلیم کریں گی؟ مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے  سب سے اہم ترین دستاویز ایجنڈا ہی ہو گی اور میری دانست میں عمران خان معاشی ایجنڈے پر کسی بھی صورت تیار نہیں ہو ں گے اور نہ ہی اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا،اس کو بھول کر نئے سرے سے ملکی ترقی کی بنیاد رکھی جائے۔ اصولاً ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے کہ اشرافیہ کی طرف سے ماضی میں ہونے والی لوٹ مارکو تحفظ فراہم کر کے نئی بنیاد رکھی جائے،

ایسے ایجنڈے میں تحفظ صرف اشرافیہ کی لوٹ مار کو ملنا ہے جبکہ پاکستان معاشی مسائل کی دلدل میں ڈوبتا جا رہا ہے اور اس کے نکلنے کے امکانات مزید معدوم ہو جائیں گے۔ اگر حکومت واقعتاً ان مذاکرات میں سنجیدہ ہے اور ملک کو ان مسائل سے نکالنا چاہتی ہے تو پھر ماضی کی لوٹ مار پر سمجھوتہ کرنے کی بجائے،بلا امتیاز اور بغیر اثرورسوخ استعمال کئے ،قانون کا سامنا کرتے ہوئے یا خود کو بری کروائے وگرنہ لوٹ مار کا پیسہ ملکی خزانے میں جمع کروائے۔ دوسری طرف انتخابی اصلاحات کے نام پر جو ترامیم موجودہ حکومت نے کی ہیں،وہ ان کے اپنے مؤقف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی نفی کرتی ہیں کہ بجائے انتخابی عمل کو شفاف کرنے کے ،وہی پرانا فرسودہ نظام رائج کرنے کو ترجیح دی ہے کہ جس میں ہنوز دھاندلی ممکن ہے۔ ایسے مذاکرات فقط وقت حاصل کرنے کا بہانہ تو ہو سکتے ہیں،عملاً ملکی مسائل کے حل کرنے میں معاون نہیں ہو سکتے،اس لیے اگر ملکی مفادات مد نظر ہیں تو بامقصد مذاکرات کا ڈول ڈالیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button