CM RizwanColumn

 سیاست میں شخصیت پرستی .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
تیسری دنیا میں خاص طور پر سیاست کے گرو اور کنگ میکر جب کسی سیاست دان کو ملکی سطح کی حکمرانی کا امیدوار بنا کر میدان میں اتارنا چاہتے ہیں تو ایک خاص قسم کی تیاری اور پروپیگنڈا اس طرح سے کرتے ہیں کہ عام لوگوں میں اس امیدوار کی پسندیدگی پوجا کی سطح کو چھونے لگے اور اگر کسی وجہ سے یہ پسندیدگی پوجا کی حد تک نہ جاسکے تو اس امیدوار کو ملک کی حکمرانی کا اہل نہیں سمجھتے۔ ہمارے یہاں بھی ملکی سطح کے سیاستدانوں کو اسی طرح تیار کیا اور سمجھا جاتا ہے۔ سابقہ تاریخ تو ایک الگ موضوع ہے۔ موجودہ سالوں میں عوام الناس کی پوجا کی سطح تک پسندیدگی کا جو اعزاز عمران خان کو ملا، وہ کئی سالوں تک ہمارے معاشرے اور سیاست پر نہ صرف اثرانداز ہوتا رہے گا بلکہ یاد بھی رہے گا۔ گو کہ عمران خان کے ناقدین اور مخالفین کی بھی ملک میں کمی نہیں مگر اس کا فین کلب وارفتگی اور التفات کی اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ کسی اور کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر دیکھنے کو تیار ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ماہرین سیاسیات و عمرانیات اس امر کو سیاسی مقبولیت کے برعکس شخصیت پرستی قرار دے رہے ہیں اسی یکطرفہ رحجان کو ملکی سیاست میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا باعث قرار دیا جا رہا ہے۔
انسانی معاشروں میں شخصیت پرستی کا رجحان زمانہ قدیم سے ہی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ اِلہامی مذاہب یعنی یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے نزول سے پہلے قبیلے کا سردار اپنے حواریوں کے ذریعے اپنے آپ کو دیوتا کی حیثیت سے منواتا تھا۔ ہمارے سامنے دیوتائی شخصیت پرستی کی بہترین مثالیں قرآن الحکیم اور تاریخ سے بھی ملتی ہیں۔ مصر کے فرعون اور بابل (موجودہ ملک شام) کا نمرود اپنے عوام سے اپنے آپ کو خدامنواتے تھے۔ یونان اور قدیم روما کی بادشاہتوں نے اپنے آپ کو خدا تو نہیں منوایا لیکن یہ ضرور منوایا کہ بادشاہ کو دیوتاؤں کی اشیر باد حاصل ہے۔ اس لیے بادشاہ کی تابعداری ہر حال میں رعیت پر فرض ہے۔
جوں جوں مغربی معاشرہ سیاسی، سماجی، سائنسی اور تعلیمی اعتبار سے ترقی کرتا گیا، شخصیت پرستی کی روایت کسی اور شکل میں ظاہر ہونے لگی۔ یورپ کے صنعتی اِنقلاب نے جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اور قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں تو 20 ویں صدی کے اوائل سے شخصیت پرستی کا رخ سیاسی لوگوں کی طرف ہونے لگا۔ مثلاً ترکی کا کمال اتاترک، جرمنی کا ہٹلر، اِٹلی کا مینیٹو مسولینی، سپین کا جنرل فرانکو، برطانیہ کا چرچل، فرانس کا چارلس ڈیگال اور روس کے لینن اور سٹالِن۔ اِن تمام شخصیات کی عزت، توقیر، قوم پرستی یا نیشنلزم کی وجہ سے ہوئی۔ ہٹلر، مسولینی اور سٹالِن ڈکٹیٹر تھے اور انہوں نے پروپیگنڈے اور جبر کا سہارا لے کر اپنی تقدیس منوائی۔ جہاں عوام کے کسی گروہ نے اِختلاف کیا اُن پراِن ڈکٹیٹروں نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے لیکن اسی یورپ میں ایسے سیاسی لیڈر بھی آئے جنہوں نے اپنے ملک کی خدمت کی، اپنے ملک کو جنگوں میں فتح یاب کر وایا۔ اپنے عوام کی ترقی میں اہم کِردار ادا کیا۔ کمال اتاترک، چرچل اور چارلس ڈیگال اسی زمرے میں آتے ہیں۔
یہ لوگ واقعی اپنے ملکوں کے لیے ہیرو تھے۔ ہمارے ایشیائی ممالک میں صرف تین ممالک ہیں جہاں بادشاہ کو خدا کا نمائندہ آج بھی سمجھا جاتا ہے یا اُسے خدا کا اوتار سمجھا جاتا ہے، اسی لیے اِن بادشاہوں کی مورتیوں کی پرستش کی جاتی ہے۔ جاپان کے کئی لوگ آج بھی اپنے ماضی کے بادشاہ آنجہانی ہیرو ہیٹو اور اُس کی اولاد کو سورج دیوتا کا اوتار مانتے ہیں۔ یہ خاندان 1100 سال سے جاپان پر ایک نرم خو بادشاہ کے طور پر حکومت کر رہا ہے۔ تبت کا دلائی لامہ اور تھائی لینڈ کے بادشاہ اوتار سمجھے جاتے ہیں۔ ایشیا میں بھی سیاسی رہنماؤں کو پوجا کی حد تک پسند کیا جاتا ہے۔ اِن رہنماؤں کی مقبولیت اُن کے مثبت اور عوام دوست کِردار پر منحصر تھی۔ جدید چین کے بانی چیئرمین ماؤزے تنگ کی خدمات اور بے لوث رہنمائی نے اُن کو قریباً اوتار کا درجہ دے رکھا تھا۔ 1949 کے چینی اِنقلاب کے وقت چینیوں کا مذہب بدھسٹ یا کنفوشسزم تھا۔ اس لیے جب چیئرمین ماؤ نے چین کی قیادت سنبھالی تو چینی عوام نے اُنہیں گُر و کا درجہ دیا۔  ہندوستان کے موہن داس کرم چند گاندھی اور جواہر لال نہرو نے بھی عوام کے دِل پر راج کیا اور اُنہیں مہاتما اور گُرو کا درجہ مِلا۔ شخصیت پرستی دراصل منفی صفات کا حامل محاورہ ہے۔ یعنی کوئی شخص اگر اپنے آپ کو جبر، پروپیگنڈے یا شعبدہ بازی کے ذریعے مقبول بنائے تو یہ مقبولیت اُس شخصیت کے مر جانے یا عہدے سے ہٹ جانے کے بعد نہ صرف ختم ہو جاتی ہے بلکہ اُسے منفی الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہاں ہیں وہ بھاری بھرکم شخصیات جن کے اِردگرد پوجا کا تانا بانا کھڑا کر دیا
گیا تھا۔ شہنشاہ ایران، صدام حسین، لیبیا کا معمر قدافی، کمبوڈیا کا پولپٹ شمالی کوریا کا کِم السنگ، روس کا جوزف سٹالِن، مصر کا کرنل جمال ناصراور یوگنڈا کا ایدی اَمین۔ یہ لوگ اپنے وقتوں میں آمرانہ طاقت رکھتے تھے۔ اُن کی تصاویر اور ان کے جسیم بُت (مجسمے) پبلک مقامات پر ایستادہ ہوتے تھے۔
سیاسی یا روحانی عقیدہ پیدا کرنے کے لیے جہاں پراپیگنڈے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں عوام کو مختلف ہتھکنڈوں سے باور کرا دیا جاتا ہے کہ اُن کا نجات دہندہ یہ ہی حکمراں ہو سکتا ہے یا یہ ہی قائد ہے جو عوام کے رُوحانی یا سماجی دُکھوں کا مداوا کر سکتا ہے۔ شخصیت پرستی خواہ سیاسی ہو یا رُوحانی، پاکستان میں اس کی بڑی وجہ پاکستانیوں کی سادہ مزاجی اور سُنی سنائی پر فوراً یقین کر لینے کی عادت ہے۔ ہم بہت جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی رعایتوں سے احسان مند ہو جاتے ہیں، اَفواہوں اور جھوٹے وعدوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ جذباتی تقریریں سُن کر جوش میں آ جاتے ہیں اور غیر معقول عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی شخصیت کے پرستار بن جاتے ہیں۔ ایک دور میں ہمارے مُلک میں سیاسی عقیدے کا ہالہ ذوالفقار علی بھٹو کے گرد بنایا گیا۔ اُن کی زندگی میں اُنہیں چیئرمین ماؤ کا لباس اور ٹوپی پہنا کر سوشلزم کے پُر جوش پیروکار کی شکل میں دِکھایا گیا۔ اُن کی اقوام متحدہ میں 1965 کی جنگ سے متعلق تقریر نے جذباتی پنجابیوں کو اور زیادہ مسحور کر دیا پھر بھٹو حکومت میں آگئے۔ بڑے اچھے کام بھی کئے لیکن اَن کی زندگی میں ہی اُن کا سحر ختم ہو گیا۔
البتہ سیاست میں ان کے کارہائے نمایاں کو آج کے ان کے مخالف سیاستدان بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بھٹو کی بیٹی بینظیر آئیں تو اُنہوں نے اپنے شہید والد کی مقبولیت کو اپنی قابلیت اور سیاسی لیاقت کی بنا پر طوالت عطاء کی۔بینظیر نے بھٹو شہید کے نام سے سیاسی کامیابیاں حاصل کیں۔ بینظیر شہید ہوئیں تو زرداری صاحب نے بھٹو اور بینظیر کی شہادت کا سیاسی فائدہ اُٹھانے کی بجائے پاکستان کھپے کا نعرہ لگادیا جس کی وجہ سے وہ سیاسی شخصیت پرستی سے تو  محروم ہی رہے لیکن سیاسی تدبر، مفاہمت اور جوڑ توڑ میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ سائیں شہید بھٹو اور شہید بینظیر کی پارٹی 2013 کے انتخابات میں صرف سندھ کی ہو کر رہ گئی۔
اسی دوران عمران خان کی بطور کرکٹر ہیرو شپ شروع ہو چکی تھی۔ شوکت خانم ہسپتال بنا کر اُنہوں نے اور زیادہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ جب عوام نے اُن کو ہسپتال کے لیے دل کھول کر مالی اِمداد دی تو عمران خان کی مالی دیانت پر اعتماد کی مہر ثبت ہو گئی۔ کاش عمران خان روایتی پاور کی سیاست میں نہ آتے۔ تو وہ اسی طرح لوگوں کے دِلوں پر راج کرتے اور ایک سماجی اصلاح کار کا کردار ادا کرتے رہتے۔ لیکن جب وہ سیاسی بن گئے تو قدرتی امر ہے کہ اُن کے سیاسی مخالف بھی سامنے آ گئے۔ اُن کی کِردار کشی شروع ہو گئی اور آج جبکہ وہ ساڑھے تین سالہ وزارت عظمیٰ کا عرصہ گزار کر عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجہ میں اقتدارِ سے الگ ہو کر ایک مرتبہ پھر وزارت عظمٰی کے ہی امیدوار ہیں لیکن ان کے مخالفین کے پاس اب ان پر لگانے کے لیے الزامات کی ایک لمبی فہرست ہے جو کم از کم انہیں شفاف کردار کا دعویٰ ہر گز نہیں کرنے دے گی۔
اب ایک طرف اگر ان کے جانثاروں کی ایک قابل ذکر تعداد میدان میں ہے تو ان کے مخالفین بھی چھوٹتے ہی ان کی مبینہ شراکتی کرپشن، نااہلی اور نالائقی کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں۔ جبکہ ملکی سیاست میں شخصیت پرستی کا نتیجہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ان کے حامی مرنے مارنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ شاید اس کتھارسس کے بعد قوم کو چند سال بعد یہ اندازہ ہو جائے کہ سیاست میں شخصیت پرستی زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button