ColumnFayyaz Malik

غریب قوم کب تک چندے دیتی رہے گی؟ .. فیاض ملک

فیاض ملک

افسر شاہی قومی خزانے پر کس بیدردی سے لوٹ مار کر رہی ہے، افسر شاہی کا مفہوم سرکاری بادشاہت کے سِوا کچھ اور نہیں لیا جا سکتا۔ اب ارض پاک میں افسر شاہی ہے یا بادشاہی اس کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا۔مگر یہ سچ ہے کہ آج اگر مغل بادشاہ بھی ہوتے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تعینات اعلیٰ انتظامی اور پولیس افسران کا طرزِ زندگی دیکھ کر وہ بھی رشک سے آہیں بھرتے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں میانہ روی کا رجحان برائے نام رہ گیا، یورپی ملکوں میں سرکاری افسر و اعلیٰ عہدیدار چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں جبکہ پنجاب میں سرکاری افسروں کو الاٹ کیے گئے گھر کئی کئی کنال پر محیط ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق وائٹ ہائوس کا رقبہ 19 ایکڑ یعنی 152کنال ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ہمارے کمشنر سرگودھا کی رہائش گاہ 104کنال پر مشتمل ہے۔ڈی پی او ساہیوال کا سرکاری محل 98 کنال۔ ڈپٹی کمشنر میانوالی کا محل 95 کنال اور ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کا محل 92 کنال پر محیط ہے۔ یہی نہیںصوبے بھر میں پولیس اور بیورو کریسی کی محلاتی رہائش گاہوں کی دیکھ بھال کےلیے 33 ہزار کے قریب ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ملازمین ہیں جن کی تنخواہوں اور ان محلات کے باغیچوں کی حفاظت، مرمت اور تزئین و آرائش پر ہر سال 80 کروڑ روپے سے زائد خرچ ہوتے ہیں۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تمام رہائش گاہیں مذکورہ شہروںکے مرکزی علاقوں میں واقع ہیں جہاں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ملک میں یہ سرکاری رہائش گاہیں ، جہاں یہ چھوٹے اور بڑے بابو صاحبان قیام پذیر ہیں اگر نجی شعبے کے حوالے کر دی جائیں تو قریباً پونے دو کھرب روپے حاصل ہو سکتے ہیں اور اگرانہیں صرف کرائے پر چڑھا دیا جائے توہر سال قومی خزانے کو 15 سے17 ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔دیکھا جائے تو صرف پولیس ہی نہیں بیورو کریسی کے تمام طاقتور گروپوں کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کی جی او آر اور دیگر علاقوں میں موجود سرکاری رہائش گاہوں پر سرکاری گاڑیوں، پروٹوکول اور حفاظت کے لیے پولیس کانسٹیبلوں، خانساموں اور مالیوں کی ایک فوج ظفر موج موجود ہے جن کی تنخواہوں کی ادائیگی اس غریب عوام سے وصول ہونےوالے ٹیکسز سے ادا ہوتی ہے۔ یہی نہیں ان سرکاری محلات کے یوٹیلٹی بلز کے علاوہ زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کا پٹرول بھی سرکاری خزانے سے حاصل کیا جا رہا ہے ،سرکاری خزانے میں ہونےوالی لوٹ مار کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر صوبے میں آئی جی اور چیف سیکرٹری کو ریٹائرمنٹ پر مراعات کے نام پرتاحیات ڈرائیور، اردلی دیا جاتا ہے، ہر ماہ آٹھ سو یونٹ بجلی اوردو سو لٹر پٹرول مفت ہوتا ہے۔
اگر ان فضول خرچیوں اور وسائل کی بربادی کو روکا جائے تو اربوں روپے بچایا سکتا ہے لیکن حکومت ہو یا پھر بیوروکریسی ، کوئی بھی یہ قدم اٹھانے کو تیار نہیں،ہاں مگر ایک معاملے میں حکومت اور بیوروکریسی ایک پیج پر نظر آتے ہیں اور وہ ہے ’’ عوام‘‘  ، جس کو جب چاہا ملکی مفاد کے نام پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز کےساتھ ساتھ مہنگائی سے ادھیڑ لیا اور اگر اس سے بھی ان کا جی نہ بھرا تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے پیسے کاٹ کر پھر سے عوام کے آگے”چندہ باکس“ رکھ دیا جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ غریب قوم کب تک چندے دیتی رہے گی،بلاشبہ سرکاری افسران کی چاندی سب سے زیادہ گنجان آباد پاکستان میں ہے جہاں حکومت نے سرکاری اداروں کے متوازی سینکڑوں کمپنیاں اور اتھارٹیاں بنا رکھی ہیں جن میں تعینات ’خاص افسران‘ صرف تنخواہوں کی مَد میں 10سے 50لاکھ روپے ماہانہ بٹور رہے ہیں جبکہ مراعات شامل کرکے بات کروڑوں تک جا پہنچتی ہے، جن خودمختار سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کروڑوں روپے وصول کر رہے ہیں وہ اربوں کے نقصان میں چل رہے ہیں۔اسی معاونت اور خدمت ہی کا صلہ ہے کہ ملک کے 80فیصد اعلانیہ اور غیر اعلانیہ محاصل ہر جائز و ناجائز طریقے سے سرکاری ملازمین ہڑپ کر جاتے ہیں،اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر ریٹائرڈ افسران کے یہ تیور ہیں تو قیاس کریں کہ حاضر سروس بیورو کریٹ غریب عوام کو ہر بجٹ پر کتنے میں پڑتے ہوں گے؟ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پنجاب کی افسر شاہی تنخواہوں، مراعات اور دیگر نوازشات میں تمام صوبوں سے آگے ہے لیکن اس کے باوجود انکی کارکردگی سے پنجاب کے عوام کو کسی بھی قسم کا فائدہ نہیں پہنچ رہا۔
یقین جائنے کہ صرف بیوروکریسی اور پولیس ہی نہیں بلکہ اس غریب ملک کے اراکین پارلیمان اور انکی فیملی کے ساتھ بھی تاحیات ملنے والی مراعات کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ سر شام پارکوں اور شاپنگ مالز کے باہر یہ سبز نمبر پلیٹ والی گاڑیاں کہاں سے آتی ہیں؟ کیا عوام کو معلوم ہے کہ ان گاڑیوں کا پٹرول انکی رگوں سے نکالا جاتا ہے تا کہ صاحب لوگوں کی فیملی سیر سپاٹے کر سکے؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ اعلی افسران کے ذاتی استعمال کی ان سرکاری گاڑیوں کی لاگت ان کی بنیادی تنخواہ سے کتنی متناسب ہوتی ہے؟ لمحہ فکریہ ہے کہ بیوروکریسی کا یہ( مال غنیمت) ہماری جی ڈی پی کا پانچ فیصد یا اب شاید اس سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ اب اگر معاشی حالات خراب ہیں تو یہ کون سا طریقہ ہے کہ بجلی اور پٹرول مزید مہنگا کر دیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ بیوروکریسی کے یہ اللے تللے پہلے کیوں نہ ختم کیے جائیں؟بیوروکریسی کی مراعات کےساتھ ساتھ اسکے فرسودہ ڈھانچے کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے، اب ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ یہاں دریا کنارے بیٹھے یہ لوگ ان محروموں سے چندے مانگتے ہیں جنہیں ہر پہر اپنی پیاس کو بجھانے کےلیے اپنے ہاتھوں سے کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ویسے بھی پاکستان کے سرکاری خزانے کا ارکان پارلیمان اور بیوروکریسی کے ہاتھوں بربادی کا یہ عمل چند برسوں کی کہانی نہیں بلکہ اس میں ماضی اور حال کی پالیسیوں اور ترجیحات کا کھیل بھی شامل ہے۔ سیاسی مداخلتوں نے عملی طور پر ہمارے مجموعی اداروں کو ساخت کوبگاڑ دیا ہے ایسا نظام جو خود حکمران طبقہ کے بگاڑ کی وجہ سے لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتررہا اس میں وقفے وقفے سے ہونیوالی مثبت پالیسیاں بھی نتائج دینے کے عمل سے قاصر ہیں اوراب ایک بار پھر حکومت کی جانب سے اخراجات میں کمی اور شاہ خرچیوں پر قابو پانے کے حوالے اقدامات کئے گئے ہیں مگر اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت عملی طور پر پارلیمان اور بیوروکریسی کے اخراجات میں کمی اور شاہ خرچیوں کو کم کرنے کے لیے  اقدامات کرتی ہیں یا پھر ماضی کی روایات کو برقرار رکھنے ہوئےعوام کو ہی قربانی دینا ہوگی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button