Editorial

ایٹمی پروگرام پر بیانات سے گریز کیا جائے!

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے کہا ہے کہ پاکستان کسی بھی حالت میں اپنے جوہری پروگرام پر سمجھوتہ نہیں ہونے دے گا۔ ہماری قومی سلامتی اور حفاظتی ڈھانچہ ہر قسم کے خطرے کے خلاف تمام قومی اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق ہے۔ قومی اسٹریٹجک پروگرام پر بے بنیاد اور غیر ضروری تبصروں سے ہر صورت گریز کیا جائےاور صرف نیشنل کمانڈ اتھارٹی ہی اسٹریٹجک پروگرام پر رسپانس اور تبصرہ دینے کی مجاز ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت مادر وطن کے دفاع اور سالمیت کی ضامن ہے۔ سول اور ملٹری قیادت اسٹریٹجک پروگرام کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔
قومی سلامتی ناقابل تقسیم ہے،ہم ایک پراعتماد اور ذمہ دار ایٹمی طاقت ہیں۔ پاکستان کی پالیسی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس ہے جو کہ قابل اعتماد ایٹمی توازن کے دائرہ کار میں ہے۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہنا چاہیں گے کہ سیاسی کج بحثی میں قومی سلامتی کے معاملات کو قطعی نہیں لانا چاہیے، قومی سلامتی کے امور ہمیشہ سنجیدگی اور ذمہ داری کا تقاضا کرتے ہیں لیکن جب انہیں عام بحث اور بیانات کا حصہ بنایا جاتا ہے تو یہ اہم اور حساس معاملہ زبان زِد عام ہوجاتا ہے اور اِس معاملے سے لاتعلق افراد بھی قومی سلامتی پر بحث شروع کردیتے ہیں اِس لیے ہماری بے احتیاطی اور کج بحثی بیرونی دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرسکتی ہے اورجوہری معاملات سے متعلق کسی بھی طرح کی غیر ذمہ دارانہ بات سے گریز کرنا چاہیے ۔
قومی اسٹریٹجک پروگرام کی ابتدا سے تکمیل تک تمام مراحل قوم کے بچے بچے کے علم میں ہیں، بھارتی انتہا پسندی کو دیکھتے ہوئے ہماری سیاسی قیادت نے جوہری توانائی کے حصول کے لیے کوشش کی اور تمام شعبوں نے انتہائی جانفشانی سے اِس اہم منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، سیاسی شخصیات ہوں، سائنسدانوں کی ٹیم ہو یا پھر پاک فوج، سبھی نے اپنے حصے کا کام پوری دیانتداری سے کیا اورہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنایا۔ 1960کی دہائی میں بھارت نے جوہری توانائی کے حصول کے لیے کوششیں تیز کیں تو پاکستان کو بھی جوہری صلاحیت کے ذریعے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی فکر لاحق ہوئی کیونکہ بھارت کی شرانگیزی اور مکاری سے ہم بخوبی واقف تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو سقوط ڈھاکہ کے بعد برسراقتدار آئے تو انہوں نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا منصوبہ شروع کیا مگر تمام تر خطرات ، دھمکیوں اوردبائو کے باوجود قومی سلامتی پر قطعی سمجھوتہ نہ کیااور آخری سانس تک قومی سلامتی کے لیے ناگزیر اِس منصوبے کی جلد ازجلد تکمیل کے لیے کوشاں رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف سمیت جو بھی قیادت آئی سبھی نے قومی سلامتی کے اِس اہم منصوبے پر عالمی دبائو برداشت نہ کیا کیونکہ ازلی دشمن بھارت کی شرپسندی سے محفوظ رہنے کے لیے پاکستان کے لیے جوہری توانائی کا حصول لازم ہوچکا تھابالآخر مئی 1998 میں جب انڈیا نے جوہری تجربات کیے تو پاکستان کے پاس خود کو ایٹمی صلاحیت منوانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا یوں ذوالفقار علی بھٹو کو اِس جوہری منصوبے کی ابتدا اور میاں محمد نوازشریف کو منصوبے کی تکمیل اور کامیاب ایٹمی تجربات کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بلاشبہ اُس وقت حکومت پاکستان پر شدید عالمی دبائو تھا کہ پاکستان بھارت کے جواب میں ایٹمی تجربات نہ کرے لیکن وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کسی طاقت کا دبائو قبول نہ کیا اوریوں پاکستان کامیاب ایٹمی تجربات کے نتیجے میں ایٹمی قوت بن گیا۔ تب پاکستان کو ایک بار پھر شدید دبائو میں لانے کی کوشش کی گئی لیکن میاں نوازشریف اور عسکری قیادت نے دبائو قبول نہ کیا اوربٹن دباکر بھارت کے تمام ترخواب چکنا چور کردیئے،
ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کو سزا دینے کے لیے عالمی پابندیوں کی زد میں لایاگیا اور اُن تمام دھمکیوں کو حقیقت کی شکل دی گئی جو ایٹمی تجربہ کرنے سے پہلے وزیراعظم میاں نوازشریف کو دی گئی تھیں لیکن اِس کے باوجود سیاسی و عسکری قیادت نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور عوام پاکستان کے تعاون سے تمام تر معاشی پابندیوں کے باوجود ہر بحران کا سامنا کیا ۔ جن آسان الفاظ میں ہم نے ایٹمی طاقت بننے کی ابتدا سے کامیاب تجربات کا ذکر کیا حقیقت اِس کے برعکس بہت ہی خوفناک اور مشکل تھی، غیر ملکی خفیہ اداروں نے خفیہ اور نظر آنے والے جال بچھائے، مشکلات پیدا کیں لیکن اِس کے باوجود سیاسی و عسکری قیادت نے محدود وسائل کے باوجود قوم کو اتنی بڑی خوشخبری دی۔ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بڑی طاقتوں کے بھارت سے وابستہ مفادات کی وجہ سے بھارت کے ہر جرم پر آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں، کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی سے لیکر بھارت کے کونے کونے میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے قتل عام، عبادت گاہوں کی مسماری، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ، ہمسایہ ممالک کے خلاف متعدد بار اعلان جنگ اور دہشت گردی کی ماں قرار پانے کے باوجود بھارت کو اِن عالمی طاقتوں کا چہیتا دیکھا گیا ہے لیکن اِس کے برعکس پاکستان کو ہمیشہ پابندیوں کی زد میں لاکر نقصان پہنچا کر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، متعدد بار ایٹمی اثاثوں پر بات کی گئی ہےحالانکہ سول اور ملٹری قیادت اسٹریٹجک پروگرام کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے اور پاکستان کی پالیسی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس ہے جو کہ قابل اعتماد ایٹمی توازن کے دائرہ کار میں ہے لیکن اِس کے برعکس بھارت کی سڑکوں پر ایٹمی مواد کی سرِ عام لین دین کی خبریں عالمی میڈیا کی زینت بننے کے باوجود بھارت کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی
حالانکہ یہ صورتحال سامنے آنے کے بعد بھارتی ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ اگر سڑکوں پر ایٹمی مواد کی خریدوفروخت ہوسکتی ہے تو اُن کا ایٹمی پروگرام کیسے محفوظ قرار دیاجاسکتا ہے، چند روز کے وقفے کے بعد جب دوبارہ یورینیم کی خریدوفروخت کرنے والے افراد گرفتار ہوئے تو ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے سمیت تمام بڑی طاقتوں کو حرکت میں آجانا چاہیے تھا لیکن پرُ اسرار خاموشی دیکھی گئی۔ قریباً دو ماہ قبل نو مارچ کو بھارت کا سپرسانک میزائل پاکستان کی حدود میں گرا اور اُن کی وزارت دفاع نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی حدود میں گرنے والا میزائل حادثاتی طور پر انڈیا سے فائر ہوا تھااور اِس کی وجہ معمول کی دیکھ بھال کے دوران تکنیکی خرابی ظاہر کی گئی۔ دیکھا جائے تو ایک طرف وہ بھارت ہے جس کی سڑکوں پر یورینیم کی فروخت عام سی چیز سمجھ لی جاتی ہے اور جدید سپرسانک میزائل فائر کو انسانی غفلت قرار دے کر خاموشی سادھ لی جاتی ہے لیکن اِس کے برعکس ہمارے ایٹمی اثاثوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور جب ہمارے بعض سیاست دان سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے اس طرح کے بیانات دیتے ہیں تو اِن سے بیرونی دنیا کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔ یہاں ایک بار پھر ہم چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا (جو ڈپٹی چیئرمین نیشنل کمانڈ اتھارٹی بھی ہیں)کے خطاب کا حوالہ دینا چاہتے ہیں انکا کہنا تھا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو تمام سیاسی جماعتوں اور پاکستانی عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ این سی اے اپنی تمام سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ سٹرٹیجک پروگرام کے لیے مضبوط کھڑا ہے۔
ہماری قومی سلامتی اور حفاظتی ڈھانچہ تمام قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے اور ہر قسم کے منظرناموں کو پورا کرتا ہے اِس لیے دوسری جوہری صلاحیت رکھنے والے ممالک کو سٹریٹجک پروگرام پر غیر ضروری اور بے بنیاد خیالات سے گریز کیا جانا چاہیے۔ جوہری اثاثوں کو گلی محلوں میں بحث کا موضوع بنانا غلط ہے کیونکہ بغیر سوچے سمجھے ،اس حساس معاملے پر بات کریں گے تو سارے سسٹم کو نقصان ہوگاجس کو قائم کرنے کے لیے ہمارے رہنمائوں نے بے شماراور ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں۔پاک فوج نے ہمیشہ اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایٹمی صلاحیت کے معاملے پر کسی حالت میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا،قومی سطح کی شخصیت کوئی بھی ہو اِس حساس معاملے پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور ہمارے پاس الحمد اللہ جدید ٹیکنالوجی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button