Aqeel Anjam AwanColumn

میڈیا اور تحریک انصاف .. عقیل انجم اعوان

عقیل انجم اعوان

تحریک انصاف اور میڈیا کے مابین تعلق کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بحیثیت اپوزیشن اور بحیثیت حکمران جماعت۔ میڈیا نے پاکستان تحریک انصاف کا ہمیشہ ساتھ دیا۔ مسلم لیگ نون، پی پی پی،ایم کیو ایم ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی بدنامی اور کردار کشی تحریک انصاف کے منشور کا اہم ترین حصہ تھے۔جلسوں،پریس کانفرنسز، بیانات ، ٹی وی پروگرامز اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے سوا تمام سیاسی جماعتوں کو کرپشن ، بدعنوانی،بری گورننس اور ہر برائی کی جڑ ثابت کیا گیا اور تحریک انصاف کے اس سیاسی پروگرام اور منشور کو پاکستانی میڈیا نے بہت پذیرائی عطا کی۔ کرکٹ کی مثالوں کو سیاسی تدبر ،انقلابی اور دیانتدارانہ کارکردگی کے ساتھ منسلک کیا گیا ۔یہاں تک سیاسی بیانات میں کرکٹ کی زبان کو جان بوجھ کر زبان زد عام کیا گیا۔ سیاسی سفر کو اننگز کہا جانے لگا۔ عمران خان کے لیے کپتان کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ مخالفین کے کسی بیان کو بائونسر کہا جانے لگااوراقتدار میں آنے کے بعد بھی کپتان، باونسر، اننگز ،چھکا، نیوٹرل امپائر جیسے الفاظ کو سیاست میں استعمال کیا جاتا رہا۔

میڈیا نے کسی نہ کسی طرح کرکٹ اور کرکٹ میں صرف فتح اور فتح میں صرف عمران خان کی ذات کو عوام کے سامنے اتنے دبنگ انداز میں پیش کیا کہ ہر طرف عمران خان کی شہرت ایک ایماندار ،دلیر اور بین الاقوامی سطح کا وژن اور تدبر رکھنے والے سیاستدان کے طور پر چار سو پھیل گئی۔ اصول ہے کہ جب ہیروبنانا ہو تو اس کے مخالفین کو زیرو کر نا پڑے گا۔ طویل دور اقتدار اور کئی مقدمات کی وجہ سے پی پی پی،ایم کیو ایم ، مسلم لیگ نون ، اے این پی وغیرہ کے خلاف کافی مواد موجود تھا اور پھر تحریک انصاف کو ایسی دستاویزی ثبوت تک رسائی بھی مل گئی کہ ہر جلسہ میں پاور پوائنٹ پر پی پی پی اور مسلم لیگ نون کی کرپشن، منی لانڈرنگ سے متعلق لچھے دار تقریر کر کے عوام کی انکھیں کھولی جا سکیں اور ان تقاریر کامکمل طور پر فائدہ ہوا اور میڈیا کے اس کردار سے تحریک انصاف کو کافی پذیرائی اور مقبولیت ملی۔ اس مقبولیت کا یہ حال تھا کہ پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوگیاجوعمران خان کو نجات دہندہ سمجھنے لگا ۔

ایک عام آدمی سے لے کرکئی سرکاری اور عسکری افسران تک اس نکتہ پر آکر رک گئے کہ اب کوئی سیاسی متبادل نہیں پاکستان کی گورننس، اندرونی اور خارجہ حالات کو صرف اور صرف عمران خان ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ اس طبقے کے ہر فرد کا ایمان تھا کہ عمران خان کبھی کرپشن کے قریب نہیں جائے گا کیونکہ وہ ایماندار انسا ن ہے ۔وہ کسی افسر یا وزیر کی کرپشن کو برداشت نہیں کرے گا۔ میڈیا نے یہ کا م خبر دینے والے ایک ادارے کی طورپر کیا ۔تقریر کے مندرجات کو عوام کے سامنے پیش کرکے میڈیا نے اپنا فرض ادا کیا۔ ٹاک شوز میں سب جماعتوں کو نمائند گی دے کر خود کو بری الذمہ ثابت کر نے کی کوشش کی گئی مگر ٹاک شوز کا تعارف ، سوالات اور اینکر کے آخری جملے نہ صرف ٹاک شو کے تعصب کو سامنے لاتے بلکہ میڈیا ہائوس کے مالکان کی پالیسی بھی واضح کردیتے۔یوں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیااس دور میں مسلسل تقسیم نظر آیااور سیاسی عوام اپنے سیاسی پنڈتوں کے حمایتی چینل کو دیکھنے پر اکتفا کرنے لگی۔

الیکشن سے قبل میڈیا نے ریاستی پالیسی کو بھر پور انداز میں پیش کیااور ہیرو اور ولن کا فیصلہ پکا کر دیاگیا۔مگر یہ فیصلہ اعلیٰ اداروں اور تعلیم یافتوں میں زیادہ مقبول ہواجبکہ پاکستان یا پاکستانی علاقوں کی انتخابی سیاست یکسر مختلف مسئلہ ہے ۔ سیاسی جلسوں کے کامیاب ہو نے کا مطلب ہرگز نہیں کہ اس حلقہ سے اسی جماعت کا امیدواربھی جیت جائے گا۔ مثلاً اگر ایک شہر کی آبادی ایک کروڑ ہے اور وہاں پانچ ایم این اے کی نشستیں ہیں ۔ ایک پارٹی کے جلسے میں دو لاکھ لوگ آجاتے ہیں تو یقیناًیہ بہت بڑاجم غفیر ہے جو میڈیا کو بہترین کوریج اور پارٹی کی مقبولیت کا مصالحہ عطاکرسکتاہے مگرپانچ حلقوں سے صرف دو لاکھ ووٹرز کا موجود ہونے کا مطلب ہے کہ انتخابات کے نتائج مختلف آسکتے ہیں۔اسی طرح برادری ازم عوامی مسائل اور خاندانی اثر ورسوخ کا اہم تر ین کردار انتخابات میں فرق پیداکرتا ہے۔2018ء کے الیکشن نے ثابت کر دیا کہ جلسہ میڈیا کا کردار اور ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ انتخابی سیاست میں عوام کی مرضی اہم تر ین ستون ہیں۔ دھاندلی سو فیصد ایک تو ممکن نہیں دوسرا الیکشن نتائج کو قابل قبول بنانے کے لیے سوفیصددھاندلی احمقانہ فعل ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر2018 کے انتخابات کو شفاف الیکشن بھی مان لیا جائے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کی اتنی متعصبانہ سیاست کے باوجود ہیرو سیاستدانوں نے کتنی نشستیں جیتیں ۔ میڈیا نے اس موضوع کو خو ب اچھالا اور وقتاًفوقتاً اس موضوع کو ناظرین اور قارئین کے سامنے پیش بھی کیا۔

اگر عدلیہ اور ریاستی اداروں کی  مداخلت محسوس ہو ئی تو میڈیا اسے بھی زیر بحث لایا اور خاص کر سوشل میڈیا پر اس پر کھل کر اظہار کیا گیا۔ عمران خان کی سیاسی سمت بہت واضح تھی کہ ریاستی اداروں کی حمایت حاصل کرنا۔ انداز خطابت۔ حقیقت ہو یا افسانہ اس پر ڈٹے رہنا۔ عسکری اداروں کے بارے میں یہ تاثر رکھنا کہ وہ عوامی دبائو سے گھبراتے ہیں، عمران خان کا پکا ایمان ہے اور وہ آج بھی اسی بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں ۔ کسی طویل مدتی اصلاحی پروگرام یا پالیسی پر عمران خان تقریر نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا انداز مذمتی ہے ۔ کسی کے خلاف بولنا ہو تووہ حاضرین کو متاثر کرتے چلے جاتے ہیں اور اگر سنجیدہ گفتگو کریں توان کی تقریر تضادات کا شکار ہوتی ہے مگر اس سنجیدہ گفتگو میں بھی کسی طبقہ یاملک کے خلاف ضرور نکات شامل ہوں گے کیونکہ انکی سیاسی شخصیت مذمتی طرز کی ہے۔دوسرا عوامی مقبولیت کے لیے تقریر اورعوامی اصلاح کے لیے تقریر میں لہجے کا فرق ہوتا ہے۔ مذمتی تقریر میں ترش،دبنگ اور جارحانہ انداز کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اصلاحاتی تقریرمیں سنجیدہ اور مدبرانہ لہجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

بد قسمتی کی بات ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی عمران خان نے جارحانہ انداز ہی اپنایااور مذمتی سیاست کو جاری رکھا۔ پاکستان کا وزیر اعظم نیب، سپریم کورٹ اور دوسرے اداروں کو نشانہ بنا رہا تھا اور ان کے بیانات ہوتے تھے کہ جیل میں ڈال دوں گا، اب مجھے یہ مختلف پائیں گے، اب میں ان کو دیکھ لوں گا، یہ سب چور ڈاکو جیل میں ہوں گے وغیرہ وغیرہ اور پھر میڈیا ان جارحانہ بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا شاید ریٹنگ کی مجبوری کی وجہ سے یا مادی مفادات کی وجہ سے یہ سب کچھ چل رہا تھامگر ساتھ ساتھ میڈیا نے بار بار عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو سمجھایا کہ ماضی کی کرپشن کی مثالوں سے باہر آجائیں۔کنٹینر سے اتر آئیں۔ اپنی اصلاحات پر بات کریں۔دوسرے سیاستدانوں کے بارے میں غلط زبان استعمال نہ کریں۔مگر باربار خبردار کرنے کے باوجود تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والوں کا طرز گفتگو یہی رہا۔ میڈیا اپنا فرض ادا کر رہا تھاکہ بڑی جماعتوں کے سیاستدانوں کو پروگراموں میں لیاجاتااور ان کا نقطہ نظر بھی عوام کے سامنے رکھا جاتامگر اس سے گرما گرمی کا ماحول پیدا ہواجس میں عوام کو یہ لڑائی اور برے الفاظ اچھے لگنے لگے ۔ میرے خیال میں چینلز کی یہ پالیسی ہو نی چاہیے تھی کہ اگرکو ئی غیر اخلاقی حرکت یا الفاظ استعمال کر تا ہے تواس پر پابندی لگا دی جاتی مگر ہم سب جانتے ہیں کہ میڈیا ہائوس کے لیے یہ ممکن نہیں کیونکہ ابھی تک آزادی صحافت آزادی کے نکتہ سے بہت دور ہے۔ تحریک عدم اعتماد آئی تو غیر آئینی اقدامات نے ریاستی اداروں کو چونکا دیااور یورپ اور امریکہ کے  خلاف بیانیہ تیار کرنے سے عمران خان اور اس کے سیاسی مشیروں کا غیر سیاسی وژن سامنے آگیا۔

میراسوال ہے کہ اگرامریکہ پاکستانی سیاست میں اس قدر موثر ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے باہر نکال دے توکیا اب امریکہ اتنا کمزورہوگیا ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں آنے دے؟میڈیا تحریک انصاف کی اب بھی رہنمائی کر رہا ہے کہ پاکستانی سیاست کریں اور ریاستی مفادات کو پہلے نمبر پر رکھیں یہی کامیابی کا راز ہے اوراگراندازمذمتی اور نفرت بھراہی رہا تو تحریک انصاف کے سیاستدان اپنے اپنے مفادات کے تحت پارٹی سے الگ ہو جائیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی سیاسی حسن ہیں اور بہترین سیاست کی تربیت اچھی سیاسی جماعت ہی کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف عرصہ دراز کے بعد دو سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں منصہ شہود پر آئی لہٰذا اب اس کو پاکستان کی سیاسی اور عوامی خدمات میں بہترین کردار ادا کرتے ہوئے نئی لیڈرشپ پیدا کرنی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button