CM RizwanColumn

 کیا یہ مہنگائی بھی سازش ہے؟ .. سی ایم رضوان 

سی ایم رضوان

گزشتہ ایک ہفتے کے اندر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 60 روپے فی لٹر اضافے کے بعد پٹرول پمپوں، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومت پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ دوماہ قبل جب یہ لوگ اپوزیشن میں تھے تو سابق عمران حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ کر رہے تھے اور احتجاجی مظاہروں میں مطالبات کررہے تھے کہ مہنگائی کم کی جائے، یہ لوگ عوام کی ہمدردی میں ہلکان ہوئے جا رہے تھے اور یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ ہم حکومت میں آکر مہنگائی کم کریں گے۔ عوام کو معیشت کے حوالے سے ریلیف دیں گے۔ یہ حکومت نالائقوں اور نااہلوں کا ٹولہ ہے۔ مگر جب خود حکومت میں آئے تو پہلے ایک روز ڈالر تھوڑا نیچے آیا پھر بڑھتا رہا پھر بجلی مہنگی، پھر پٹرول کی قیمت میں تیس روپے فی لٹر اضافہ کردیا اوردو روز قبل وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ہنگامی پریس کانفرنس میں پٹرول مزید تیس روپے فی لٹر مہنگا کرنے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف بجلی بھی مہنگی کردی گئی ہے اور پٹرول کی قیمتوں میں اس ہوشربا اضافے کو عوام پٹرول بم قرار دے رہے ہیں تاہم معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کے پاس اس وقت اس فیصلے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھااور ملک کو درپیش معاشی بحران سے نکالنے کے لیے یہ فیصلہ پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اب اس فیصلے کے فوری طور پر دو اثرات ہوں گے۔

اول اس سے مہنگائی کی ایک اور بڑی لہر آئے گی بلکہ آچکی ہے، جس سے نہ صرف غریب عوام بلکہ کاروبار بھی شدید متاثر ہوں گے مگر اس کے برعکس حکومت کو ملکی معیشت بچانے میں مدد ملے گی۔ ویسے بھی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ متوقع تھا کیونکہ پٹرول پر سبسڈی روز بروز بڑھ رہی تھی اور حکومت کے لیے اب ان سبسڈیز کا بوجھ اٹھانا ناقابل برداشت ہو چکاتھا۔ اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے یقیناً آئی ایم ایف کے ساتھ تعطل کے شکار قرض پروگرام کی بحالی میں مدد ملے گی اور اس بحالی کے بعد ہی حکومت دیگر ممالک کے ساتھ کاروباری اور قرض معاہدے کرنے کی اہل ہو جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں پٹرول مہنگا کرنے کا مذکورہ فیصلہ نہ صرف آئی ایم ایف پروگرام بلکہ ملکی معیشت کی بحالی کی راہ ہموار کرے گا۔

جب سابق وزیراعظم عمران خان نے تیل کی قیمتوں کو منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا تبھی واضح ہو گیا تھا کہ جلد یا بدیر اس فیصلے کو واپس لینا پڑے گا۔ تب اگر عمران خان تیل کی قیمتوں کو منجمد نہ کرتے تو ملک کا موجودہ معاشی بحران یقیناً اتنا شدید نہ ہوتا۔ ملک کی معاشی صورتحال پھر بھی کوئی بہت اچھی نہ ہوتی کیونکہ معیشت پہلے سے مشکلات کا شکار تھی۔دوسری طرف گو کہ اب مفتاح اسماعیل نے نیپرا کی جانب سے بجلی کی قیمت میں سات روپے فی یونٹ اضافے کی تجویز کی فوری طور پر منظوری نہ دینے کا اعلان کیا ہے تاہم جلد یا بدیر بجلی کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔

اس ساری معاشی صورتحال سے قطع نظر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان کے فوری بعد سوشل میڈیا پر پٹرول ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اس میں ٹویٹس کرنے والے چند روز میں 60 روپے فی لٹر کے بھاری اضافہ پر حکومت پر تنقید کرنے سے بھی نہیں رکے۔ ایک ٹویٹ تھا کہ اب کاریں گھر کھڑی کرنے کا وقت ہو گیا ہے۔ ’’ہور کوئی خدمت ساڈے لائق‘‘۔ پٹرول کے بعد بجلی مہنگی ہونے کے خدشوں کا اظہار کرنے والے بعض سوشل میڈیا صارفین نے دوسروں کو مشورہ دیا کہ اب سولر پر منتقل ہو جائیں۔متعدد صارفین نے پی ٹی آئی اور موجودہ دور حکومت کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں ادوار میں اضافے کی مقدار کو موضوع بنایا۔ ایک صارف نے اپنی ایک پرانی ٹویٹ دوبارہ شیئر کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ اب پٹرول کی مقدار کسی فرد کی مالی حیثیت کا تعین کیا کرے گی۔ پٹرول پمپ پر موٹر سائیکل کی قطار میں ایک بائیک سوار جس کے کپڑوں پر سیمنٹ لگا ہوا تھا آکر رکا اور جیب سے سو روپے کا سرخ نوٹ نکال کر پٹرول ڈالنے کے لیے کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ جمعرات کے مقابلے میں آج اس نے زیادہ پیسے ادا کیِے ہیں۔

ایک خاتون صارف کے بقول پہلے جب پانچ دس روپے فی لٹرقیمت بڑھتی تھی تو دنیا عمران خان کو کوستی تھی۔ موجودہ حکمرانوں نے کوئی ریلیف بھی نہیں دیا اور ساٹھ روپے اضافہ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک ٹیچر ہوں، پانچ بچے ہیں۔ کرائے کا مکان ہے اور گھر کا بجٹ چلانا بڑا مشکل ہے۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ وہ سیلز مین ہے اور اِسے 32 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے جس میں کرائے کا گھر، بچے، ان کے سکول و ضروریات ہیں اور موٹر سائیکل ہے، اب کیسے گزارا کیا جائے؟ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا کہنا تھا کہ یہ توقع تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی لیکن اس میں پانچ یا دس روپے کے اضافے کا خدشہ تھا لیکن تیس روپے کا تو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ اس صورتحال میں گھر کا بجٹ سنبھالنا بڑا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ آمدنی کے اتنے ذرائع نہیں ہیں حالیہ اضافے سے غریبوں کا معیار زندگی مزید نیچے چلا جائے گا۔ یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ صورتحال کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگوں کے مطابق ایک واضح اور یقینی حل یہ بھی ہے کہ حکمران اپنے اخراجات میں کمی لائیں، لگژری زندگی نہ گزاریں، امیر اور بڑے کاروباری لوگ ٹیکس ادا کریں اور باہر رکھا ہوا پیسہ لایا جائے۔ اور وہ پیسہ جو لوٹا گیا ہے وہ بھی وطن واپس لایا جائے یا پھر صنعتیں چلیں اور ایکسپورٹ کے نتیجے میں باہر سے پیسہ آئے ورنہ یہ ملک نہیں چل سکے گا اور ڈیفالٹ ہوجائے گا۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے اس اقدام کو مجبوری کی حالت میں اٹھایا جانے والا اقدام قرار دیا گیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ ایک جانب حکومت کو خزانے سے اربوں روپے ماہانہ کی سبسڈی ادا کرنی پڑ رہی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے قرض پروگرام کی بحالی کو تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے سے مشروط کر رکھا ہے۔ پاکستان کو موجودہ مالی سال کے اختتام تک سات ارب ڈالر بیرونی ادائیگیوں کے لیے چاہئیں جبکہ اگلے سال کے لیے 30 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔ان کے مطابق اس رقم کے ہونے سے پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے میں استحکام آئے گا اور یہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ آئی ایم ایف سے ملنے والے چند ارب ڈالر نہیں بلکہ اس کا فائدہ دوسرے مالیاتی اداروں سے ملنے والے پیسے بھی ہوں گے، جو اب ہمیں پیسے دینے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف دیکھتے ہیں۔ غیر جانبدار ماہرین معیشت کا بھی یہی کہنا ہے کہ سبسڈی کے خاتمے سے مالیاتی خسارہ کم ہوگا اور ملک کے بیرونی شعبے میں ادائیگیوں کو سہارا ملے گا کیونکہ اس سبسڈی کی صورت میں پیسے پاکستان آئیں گے۔ جب سبسڈی دی جاتی ہے تو ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھتا ہے اور اس کے خاتمے سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو ملک کے یے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ان حالات میں حکومت پر بے جا تنقید کرنے والوں کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہیے  کہ یہ سب سابقہ حکومت کا کیا دھرا ہے یہ اعداد وشمار کا معاملہ ہے اور اسے رجیم چینج کی طرح بیرونی سازش بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button