ColumnKashif Bashir Khan

ناکام تجربہ! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاکستان کو اس وقت جس غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور صورتحال نہایت خطرناک ہو چکی ہے۔ پٹرول کی قیمت 210 تک پہنچانے کے بعد بجلی کے نرخ بھی قریباً 47 فیصد بڑھا دیئے گئے ہیں اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گیس کی قیمتوں میں 45 فیصد اضافے کی سمری بھی اوگرا نے منظور کر لی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی ہوشربا قیمتیں بڑھانے کے ساتھ ہی کوکنگ آئل اور گھی کی قیمتوں میں بھی سرکاری طور پر 200روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اتحادی حکومت کے آنے کو چار دنوں کے بعد 2 ماہ مکمل ہونے کو ہیں اور ان دو ماہ میں ڈالر کی انتہائی بلند قیمت اور سٹاک ایکسچینج کی بدترین گراوٹ دنیا بھر نے دیکھی۔ تیل کی قیمتوں میں 60 روپے کا موجودہ اضافہ پاکستان کی تاریخ کا بلند ترین اضافہ ہے اور اس نے پاکستان کے عوام کی کمر توڑتے ہوئے ان کا معاشی قتل عام کر دیا ہے۔ جب سے یہ حکومت لائی گئی ہے اس کی انتہائی کوشش تھی کہ اپنے اوپر موجود مقدمات کا خاتمہ کیا جائے اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کو ختم کرنے کے ساتھ نیب کے پر کاٹے جائیں اور اس ضمن میں 26 اور 27 مئی کو ادھوری قومی اسمبلی اور سینیٹ سے عجلت میں ان دونوں معاملات پر بل پاس کروا کر صدر پاکستان کو بھیجے گئے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ای وی ایم کے استعمال کا خاتمہ اور 90 لاکھ اوورسیز پاکستانی جن کا بھیجا جانے والا اوسطاً 30ارب ڈالر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، دونوں سیاسی جماعتوں اور ڈمی منحرف اپوزیشن لیڈر( جس کا پارلیمانی مستقبل اور ووٹ کی اب کوئی حیثیت نہیں ) نے ملی بھگت سے اوور سیز پاکستانیوں کے ووٹ کا خاتمہ کردیا۔ لیکن ہفتے کے روزان دونوں ترامیم کے ساتھ نیب کے پر کاٹنے کی ترمیم کو صدر پاکستان نے اعتراضات لگا کر واپس بھیج دیا ہے۔

قارئین سوچیں تو ایک ایسی اتحادی حکومت کہ جس کے رہنما خود نیب کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہوں وہ کس اخلاقی اور آئینی حیثیت سے نیب قوانین میں اپنے مفادات کے لیے ترامیم کر سکتے ہیں؟کچھ ایسا ہی معاملہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں سے ہزاروں افراد کا نام نکالنے پر سامنے آنے پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور حکومت کو ایک ہفتہ کا وقت دیا ہے کہ اس معاملہ کو ٹھیک کر کے اس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جاہے ورنہ سپریم کورٹ اس پر حکم جاری کرے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکمرانوں کے خلاف چلنے والے کرپشن کیسز میں مبینہ حکومتی مداخلت کے مدنظر ازخود نوٹس اور ان کیسوں میں تفتیشی افسران کے تبادلوں پر پابندی کے بعد لاہور کی سینٹرل کورٹ میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان کی گرفتاری کی استدعا کر ڈالی جو صورتحال کی سنگینی کا عندیہ دے رہی ہے۔پاکستان غالباً دنیا کی واحد ریاست ہے کہ جس کی مرکزی کابینہ کے 34 میں سے 26 اراکین ضمانتوں پر ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی اکثریت پر کرپشن کے الزامات ہیں۔

اتحادی حکومت (جس میں بنیادی اور اہمیت کی حامل وزارتیں مسلم لیگ نواز کے پاس ہیں) کے اقتدار کے دو ماہ کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں صرف اور صرف عمران خان کے خلاف پریس کانفرنسوں کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا ملک جو معاشی طور پر ابتر ترین حالت میں پہنچ چکا ہے۔ وزیر اعظم کے بیرونی دورے بھی اس وقت سخت تنقید کی زد میں ہیں۔رہی بات موجودہ ظالمانہ مہنگائی اور قیمتیں بڑھانے کی تو یقین کیجیے کہ عوام اب شہباز شریف اور ان کے ترجمانوں کی اس غیر منطقی بات کو ماننے کو بالکل تیار نہیں کہ موجودہ عوام کش مہنگائی کی ذمہ دار تحریک انصاف کی حکومت ہے۔قارئین کو کسی تعصب کے بغیر سوچنا ہو گا کہ کیا 10 اپریل سے پہلے ملک میں لوڈ شیڈنگ موجود تھی اور کیا فروری سے جون تک عمران خان نے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کو فکس نہیں کیا تھا؟قیمتیں بڑھانے کا جو استدلال موجودہ حکومت دی رہی ہے وہ بالکل بودا اور موجودہ حکمرانوں کی نااہلی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کو آشکار کر رہی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے جو منصوبہ سازی کی تھی اس کے مطابق اپریل کے آخر میں روس سے سستی ترین گیس اور پٹرول اور ڈیزل کی پاکستان آمد یقینی تھی جس سے ناصرف پاکستانی عوام کو سستی ترین گیس اور پٹرول میسر ہوتی بلکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بے پناہ اضافہ ہوتا۔

موجودہ حکومت کے ایک وزیر جناب مصدق ملک کا بیان کہ اگر روس سستا پٹرول بیچناچاہتا ہے تو وہ ہمیں سستے پٹرول کی بڈ بھیجے،نہایت ہی افسوسناک اور معاشی اور عالمی مالیاتی حالات سے عدم واقفیت کہا جا سکتا ہے کہ جس وزیر کو یہ نہیں معلوم ایسے سودے حکومتی سطح پر ہوا کرتے ہیں وہ پاکستان کیا چلائیں گے۔

اس بدترین معاشی صورتحال کے بعد آنے والے دنوں میں گندم کا شدید بحران سامنے آ رہا ہے اور پھر یوکرین اور روسی سستی گندم کی آفرز کی بات ہو گی اور موجودہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم شدید عوامی ردعمل کا نشانہ بنے گی۔ افسوسناک حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت جب مسند اقتدار پر بٹھائی گئی تو روز اول سے ہی اس نے عمران خان اور اس کے کارکنوں کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں۔زبانی جمع خرچ کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ان کے پاس کرپشن کا کوئی موادیا ثبوت نہیں تھا اور صرف توشہ خانہ اور فرح گجر کے خلاف بیان بازی کی گئی۔جب اسلام آباد کی عدالت میں ماضی کے حکمرانوں کے توشہ خانے سے لیے گئے تحفوں کی تفصیلات مانگنے کی استدعا کی گئی تو موجودہ حکومت کے رہنما اور ترجمان بالکل ہی چپ ہو گئے۔آج پاکستان کا عام آدمی تباہ ہو چکا ہے اور موجودہ حکومت کے مہنگائی بڑھانے والے عوام کش اقدامات کے بعد جو نفرت ان کے دلوں میں پیدا ہو چکی ہے اس کا اندازہ صوبائی و مرکزی وزیر مشیروں کو شاید نہیں ہے۔
اقتدار کا عرصہ جتنا بھی لمبا ہو، مختصر ہی ہوا کرتا ہے جبکہ اس حکومت کا اقتدار تو ویسے ہی اقلیتی اور 14اتحادیوں کے مرہون منت ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان کے مختلف شہروں میں مہنگائی کے خلاف عوامی ردعمل بھی شدید ہے اور یہ خطرناک ہوتا نظر آ رہا ہے کہ حکومت نے پھلتی پھولتی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس بھی بند کر دی ہے جس سے اول تو برآمدات کے آرڈر بروقت نہیں بھیجے جا سکیں گے اور بیروزگاری میں شدید اضافہ ہوگا۔یقین جانیے جو جو حکومتی ترجمان اس ظالمانہ مہنگائی کی مختلف توجیہات مختلف چینلوں پر دینے ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد آتے ہیں عوام ان کو مختلف القابات سے نوازتے نظر آتے ہیں۔افسر شاہی اور وزیروں مشیروں کے پٹرول پر 40 یا 50 فیصد کٹ لگانے سے حکومتی سطح پر مہنگائی پر کبھی بھی قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ یہ عوام کو بہلانے کا ہی ایک طریقہ جانا جاتا ہے۔افسوسناک حقیقت ہے کہ اب عوام گزشتہ حکومت کو یاد کرتے ہیں(جس کی کارکردگی بھی مثالی نہیں تھی)آنے والے دن بڑے تبدیلیاں لاتے نظر آ رہے ہیں اور پنجاب اور مرکز کے حاکم قانون کی زد میں آتے دکھائی دے رہے ہیں اور معلوم یہ ہی پڑ رہا ہے کہ جس مقصد کے لیے وہ حکومت میں آنے تھے وہ پورا نہیں ہو گا بلکہ نمازیں بخشواتے بخشواتے روزے گلے پڑ گئے، کے مصداق وہ خود پھنستے نظر آ رہے ہیں۔

کاش وفاقی وزیر داخلہ جیسے نا عاقبت اندیشی وزراء نے موجودہ حکمرانوں کو بند گلی میں پہنچا کر اتنا رسوا نہ کیا ہوتا کہ(جلد ہوتے نظر آتے)وہ انتخابات میں عوام سے ووٹ مانگنے کے بھی قابل نہ رہتے۔آج اتحادی جماعتیں بھی موجودہ بدترین اور ظالمانہ قیمتوں میں اضافے کی کھل کر حمایت تو نہیں کر رہیں لیکن اس کا ملبہ تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت پر ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں لیکن جو نقصان مسلم لیگ نواز کو اس طوفانی میںمہنگائی لانے کے نتیجے میں پہنچ چکا ہے وہ ناقابل یقین اور بیان ہے۔پاکستان کو اس اتحادی حکومت کے حوالے کرنے کا نتیجہ بہت خوفناک اور خطرناک نکلا ہے۔آئی ایم ایف کی ہر خواہش اور شرط کو ماننے سے ملک اس وقت شدید ترین مالی بحرانوں میں گھر چکا ہے۔پاکستان میں حکومت تبدیلی کا یہ تجربہ بری طرح ناکام ہو چکا۔ فوری طور پر حقیقی ٹیکنوکریٹس کی نگران حکومت نہ لائی گئی تو خدانخواستہ پاکستان بھی لبنان،یوکرین،وینزویلا، یونان، ایکواڈر اور حال ہی میں ڈیفالٹ کئےسری لنکا کی طرح بدترین دیوالیہ کا شکار ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button