Columnمحمد مبشر انوار

گنجل .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

دنیا اس وقت نئے اتحادوں کی تشکیل میں مصروف ہے اور ہر ریاست اپنی بقاء کے علاوہ اپنی بالا دستی کی جنگ میں پوری تندہی کے ساتھ مصروف عمل ہے کہ کسی نہ کسی طرح عالمی سطح پر اپنی حیثیت برقرار رکھے یا اپنا اثرورسوخ مزید بڑھائے۔ کرہ ارض کے طول و عرض پر جنگ کے بادل چھائے نظر آتے ہیں ،روس اور یوکرین کی جنگ میں روس نے یوکرین کو گھٹنوں کے بل لا کھڑا کیا ہے تو دوسری طرف چین نے ہندوستان کو لداخ میں سینکڑوں میل پیچھے دھکیل دیا ہے۔روس،جاپان کے ساتھ اپنے معاملات کو طے کرنے کی خاطر مسلسل پیش قدمی کررہا ہے تو چین، تائیوان کے معاملے پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں اور ہر صورت اس پر اپنا حق جما رہاہے۔ اس کے لیے چین، امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے اور کسی بھی قسم کی شرانگیزی کا جواب بعینہ ویسے ہی دینے کے لیے تیار نظر آتاہے  جیسا ہندوستان کو دے چکا ہے۔پس منظر میں یہ دونوں ممالک اپنی معاشی حیثیت کو دن بدن مستحکم کرتے نظر آتے ہیں اور امریکی ڈالر کی اجارہ داری کے لیے مسلسل خطرہ بن رہے ہیں کیونکہ ایک طرف روس عالمی برادری میں تجارت کے لیے ڈالر سے انحصار کم کر رہا ہے تو دوسری طرف چین بھی ایک متوازی کرنسی کے نظام پر مستقل مزاجی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔

روس تیل پیدا کرنے والے ممالک کا ایک اہم رکن اور یورپ کو تیل و گیس کی ترسیل کا بڑا ماخذ ہے لیکن امریکہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود یورپ کے ساتھ روسی تجارت کو نکیل ڈالنے میں ناکام نظر آتا ہے اور اب تو یہ صورتحال بن چکی ہے کہ روس نے امریکی پابندیوں کے بعد،یورپی ممالک کے ساتھ اپنی تجارت مقامی کرنسی یعنی روبل میں کرنا شروع کر دی ہے۔ روس واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ اب یورپ کو تیل و گیس کی ترسیل اسی صورت ممکن ہے کہ اس کی قیمت روبل میں ادا کی جائے اور دوسری طرف نئے خریداروں کو لبھانے کے لیے روس نے اپنے تیل کی قیمت عالمی منڈی سے تیس فیصد کم کر دی ہے۔اس کمی کے باعث ہندوستان اور چین نے روس سے تیل خریدنے کے بڑے معاہدے کرلیے ہیں تا کہ عالمی منڈی سے کم قیمت تیل خرید کر اپنی پیداواری لاگت کو کم کیا جا سکے اور عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات کی فروخت کو قائم رکھا جا سکے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی لیکن ریاستی مجبوریوں کے تحت ،امریکی حکومت کو یہ کوشش انتہائی ناگوار گذری اور بقول عمران خان کے،ان کی حکومت کے خلاف سازش کرکے انہیں اقتدار سے الگ کردیاگیا۔ یہاں یہ سوال انتہائی اہم ہو جاتاہے کہ جس طرح عمران خان نے پاکستانی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ،روس سے تجارت کرنے کی کوشش کی،کیا یہ ممکن بھی تھا؟ماہرین بتاتے ہیں کہ جو خام تیل روس پیدا کرتا ہے،اس کو صاف کرنے کے لیے ریفائنریز ہی پاکستان میں موجود نہیں لہٰذا یہ معاہدے اور کوشش اس وقت تک پاکستان کے مفاد میں نہ ہوتی جب تک کہ روسی تیل کو صاف کرنے کے لیے خاص ریفائنریز پاکستان میں نہ بنائی جاتی۔ یہاں یہ بات برمحل ہے کہ اگر روس سے تیل خریدنے کا معاہدہ ہو جاتا تو عین ممکن تھاکہ اس کے ساتھ ہی ایسی ریفائنریز بھی پاکستان میںلگائی جاتی تا کہ روس سے خریدے جانے والے تیل کو صاف کرکے پاکستان کو فائدہ پہنچایا جاتا اور اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے مزید مواقع بھی پیدا ہوتے لیکن یہ ہو نہیں سکا۔ البتہ عمران خان کی اس جرأت رندانہ پر اس کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور تاحال عمران خان اپنی اس بے دخلی پر سراپا احتجاج ہے اور مسلسل سڑکوں پر ہے۔

عمران خان کا یہ احتجاج بظاہر نقار خانے میں طوطی کی آواز لگ رہا ہے کہ حکومت وقت، جسے عمران خان امپورٹڈ حکومت کہتا ہے،عمران خان کے احتجاج کو ’’آہنی ہاتھ‘‘سے کچلنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اس کا مظاہرہ وزیرداخلہ اپنی ہٹلر طبع کے مطابق دکھابھی چکے ہیں۔گو کہ عدالت عظمی کے واضح احکامات تھے کہ مظاہرین کو بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا احتجاج کرنے دیا جائے اور راستے میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائی،اس کے باوجود حکومت کی طرف سے رکاوٹیں بھی کھڑی رہی، پولیس بھی مظاہرین کو روکتی رہی اور عمران خان بھی عدالت عظمیٰ کی متعین کردہ جگہ کے برعکس ریڈ زون کے قریب جلسہ کرکے واپس لوٹ گئے۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کے اکابرین کا یہ کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات کے باعث،رابطہ ممکن نہ رہا اور اس وجہ سے مظاہرین ریڈ زون میں گئے اور یوں عدالت عظمیٰ کے احکامات کی تعمیل جزوی طور پر نہیں ہو سکی۔ معاملہ ایک بار پھر عدالت عظمیٰ میں ہے اور عدالت عظمیٰ نے فریقین ،بشمول حکومتی قانون نافذ کرنے والے اداروںسے اس مسئلے پر چند سوالات کے جوابات مانگے ہیں ،جس کے بعد ہی عمران خان نئے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو ایک بڑی کشمکش سے بچایا ہے تو دوسری طرف حکومتی بربریت کو بھی روکنے کے لیے اقدامات کرنے جارہی ہے۔حقیقت تو یہی ہے کہ کسی بھی ریاست میں عدالتوں کا احترام ہی درحقیقت معاشرے میں امن و امان اور انصاف کی ضمانت ہے لیکن ہماری سیاسی تاریخ کی بدقسمتی یہی ہے کہ ماسوائے نون لیگ باقی تمام سیاسی جماعتوں نے عدالتی فیصلوں کااحترام کیا ہے جبکہ نون لیگ اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں پر عدالتوں کی تضحیک کے علاوہ ان پر حملہ آور بھی ہوتی رہی ہے۔

آج بھی وزیر داخلہ ببانگ دہل بغیر کسی ڈر خوف کے تحریک انصاف کے قائدین کو نہ صرف اُکسا رہے ہیں بلکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں،عمران خان کے بیان کہ اب وہ بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ لانگ مارچ کی تیاری کریں گے،کے جواب میں وزیر داخلہ بہتر طریقے سے مظاہرین کی آؤ بھگت کرنے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی خلفشار انتہائی سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے ذمہ داران اپنے اپنے مؤقف پر انتہائی سختی کے ساتھ ڈٹے نظر آتے ہیں اور سیاسی مذاکرات کے نتیجے میں کوئی درمیانی راستہ نکالنے کے لیے تیار نہیں بلکہ درمیانی راستہ نکالنے کے لیے بھی انہیں کسی تیسرے فریق کی ضرورت ہے۔ جبکہ انفرادی طور پر ساری سیاسی جماعتیں اس تیسرے فریق کی سیاسی مداخلت کے خلاف تو ہیں لیکن ان ساری سیاسی جماعتوں کا قبلہ و کعبہ وہی تیسرا فریق ہے ۔عمران خان کے حالیہ انٹرویو میں ان کی باتیں انتہائی غور طلب ہیں کہ اگر معاملات یونہی چلتے رہتے ہیں تو خدانخواستہ پاکستان کی فوج کمزور ہوگی،پاکستان کا ایٹمی پروگرام متاثر ہو گا اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہے اور پاکستان تین حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔عمران خان کا یہ کہنا قطعاً کوئی نیا انکشاف نہیںبلکہ اس پر 2004 سے عالمی طاقتیں عمل پیرا ہیں اور مسلسل اپنے اس منصوبے پر کام کر رہی ہیں،راقم نے اس اہم ترین موضوع پر 2004میں اپنی ایک تحریر بعنوان ’’پلان2025‘‘میں لکھا تھا کہ ’’عالمی و ملکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے بیشتر قارئین پلان 2025سے بخوبی واقف ہیں ،کہ دشمنان اسلام و پاکستان ،کے پاکستان سے متعلق عزائم اس پلان کا حصہ ہیں۔

اس پلان کے مطابق 2025تک پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر مختلف اکائیوں میں منقسم ہے۔ پاکستان دشمن عناصر اپنے مقاصد کی تکمیل میں مسلسل مصروف عمل ہیں اور بظاہر کامیابی ان کے قدم چومتی نظر آتی ہے(نعوذ باللہ) مگر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے سے بلی کی موجودگی ختم نہیں ہوتی، سو یہی حال پاکستان کے ساتھ بھی ہے اگر حکمران یا ہم بلی کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنی آنکھیں بند رکھ کر یہ تصور کر لیں کہ بلی موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقتاً بھی موجود نہیں بلکہ اس طرح خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

آخر میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کو مزید ٹکڑوں میں بٹنے سے بچانے کے لیے سب کو اپنے اپنے طور پر جدوجہد کرنی ہوگی اور مملکت خداداد کے دشمنوں کی چالوں کو اپنے تدبر اور اتحاد سے ناکام بنانا ہو گا یہ ملک16 دسمبر1971 جیسے مزید سانحوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ آخرکب تک ہم غیروں کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے۔ آج اگر یہ بات ایک سابق وزیر اعظم موجودہ حکومت کو ’’امپورٹڈ حکومت ‘‘کہتے ہوئے یہ انکشاف کررہا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے پس پردہ کون کون اس کھیل کا حصہ ہے البتہ راقم کو الحمد للہ ثم الحمد للہ یقین واثق ہے کہ مارخور اس تمام کھیل سے بخوبی واقف ہیں اور ان سے نپٹنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں لیکن کیا وہ کھیل کے اس ’’گنجل‘‘کو بخوبی سلجھا لیں گے!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button