Column

افغانستان کی درست منظر کشی  .. استاد فریدون

استاد فریدون
وزارت اطلاعات،امارت اسلامیہ افغانستان

فاضل مصنف نے مفرور رہنماؤں کو زیادہ ہی سنجیدہ لیا ہے۔ افغان عوام میں اب ان کی وہ حیثیت نہیں رہی جو بیس سال قبل تھی۔ اب خود ان کے قبیلے اور برادری کے لوگ ان سے بیزار ہوچکے ہیں کہ انہوں نے ہمیں جنگ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ 2001 سے قبل جو شمالی علاقوں کے لوگ طالبان کے خلاف لڑ رہے تھے قوم پرستی کی بنیاد پر تھے۔ ان کا خیال تھا یہی دوستم عطا نور و دیگر ہی ہمارے نجات دہندہ ہیں۔ یہ نہ رہے تو طالبان ہمارا نام و نشان مٹادیں گے۔ اب طالبان نے ان علاقوں کو ان کے اپنے حقیقی عوامی رہنما دئیے ہیں۔ حکومت میں ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو حصہ دار بنایا ہے۔ غیر معروف مگر غیر جنگجو صاحب علم اور صاحب فکرونظر لوگوں کو اٹھا کر مناصب دلوائیں۔

ایسے انٹلکچول لوگ جو کبھی دوستم وغیرہ کے خوف سے دبے بیٹھے تھے۔ اپنی قوم و علاقے کی بہتری اور امن کے لیے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرپارہے تھے ہم انہیں آگے لے آئے ہیں۔ ورنہ جن لوگوں کے ابھی ترکی میں جمع ہونے کی باتیں ہورہی ہیں یہ ایک دن طالبان کو مہلت نہ دیتے۔بیس سال قبل ہزارہ برادری طالبان کی شدید مخالف تھی۔ مزار اور بامیان میں شدید مزاحمت ہوئی۔ ہزاروں طالبان شہید ہوئے۔ اب کی بار سب سے سافٹ علاقے ہزارہ تھے کیوں کہ ہزارہ دوسری برادریوں کی نسبت زیادہ تعلیم کے شوقین واقع ہوئے ہیں۔ اب کی بار نوجوانوں طالبان سے لڑنے کی بجائے ہزارہ نوجوانوں نے تعلیم پر توجہ مرکوز رکھی۔عام ہزارہ اب بھی طالبان سے صرف تعلیم مانگتے ہیں جو سینکڑوں نئے سکولوں کی صورت میں انہیں مل رہی ہے۔پنج شیر جیسا لوہے کا چنا جس پر کبھی حملے کا سوچنا بھی مشکل تھا اب کی بار جیسے خود بخود قدموں میں آگیا۔ وجہ یہی عوام کی جنگ میں عدم دلچسپی۔
مولوی امیرخان متقی صاحب سے پنج شیر کی فتح سے پہلے ہی پنج شیری قبائلی عمائدین کا وفد آکر ملا تھا کہ ہم عوام کو جنگجوئوں کا ساتھی نہ سمجھا جائے۔ ہم ان کے ساتھ لڑائی میں شریک نہیں ہیں۔پنج شیر میں اس بار پہلے مرحلے میں باغیوں نے اچانک حملہ کیا جس سے مجاہدین کی شہادتیں ہوئیں۔ بعد ازاں قندہار سے فورسز بلائی گئیں جن کے آگے باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ دو سو سے زیادہ افراد زندہ گرفتار کیے گئے۔ عوام پر مظالم کی خبریں غلط ہیں۔ سوشل میڈیا پر یمن کی کچھ تصویریں وائرل کرکے پروپیگنڈا کیا گیا کہ شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ کچھ داعش کی پرانی ویڈیوز چلا کر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ طالبان گرفتار ہونے والوں کو فائرنگ کرکے قتل کر رہے ہیں حالانکہ عام شہری محفوظ ہیں۔
واضح رہے کہ وزارت اطلاعات،امارت اسلامیہ افغانستان سے استاد فریدون نے یہ تحریر پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر کے کالم بعنوان’’طالبان مخالف مزاحمت کیلئے تازہ اقدامات‘‘شائع ہونے کے بعد ادارہ کو برائے اشاعت ارسال کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button