Editorial

حکومتی سطح پر کفایت شعاری مہم کا آغاز

وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے کے لیے سخت اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ سابق حکمرانوں نے حکومت ہاتھ سے نکلتے اور عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتے دیکھی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دیں اور ہمارے لیے جال پھینکا کہ ہم اس میں پھنس جائیں، ہم نے ایک ہفتہ پوری کوشش کی کہ عوام پر بوجھ نہ ڈالنا پڑے۔ سابق حکومت نے قرضوں سے ملک چلایا، 98 فیصد ضروریات ہم درآمد کرکے پوری کرتے ہیں، گیس کے ذخائر بھی کم ہو رہے ہیں، اضافہ مجبوراً منتقل کرنا پڑا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ 8 کروڑ غریب افراد کو 2 ہزار روپے کی سبسڈی بھی دے رہے ہیں۔ ہمارے دل غریب عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں،غریب عوام نے 75 سال سے قربانیاں دی ہیں، اشرافیہ اور جو صاحب ثروت ہیں انہیں بھی اب سادگی اختیار کرنا اور قربانی دینا ہو گی، سب سے پہلے اس کی شروعات اپنے سے کروں گا، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، وزرا، مشیروں، وفاقی اور صوبائی سیکرٹریوں اور سرکاری افسران، سیاستدانوں سب کو اس کارخیر میں حصہ ڈالنا ہو گا اور سخت اقدامات قبول کرنا پڑیں گے، محنت اور لگن سے کام کریں گے، سادگی اختیار کریں گے، قربانی دیں گے، تب ہی یہ ملک قائداعظمؒ کے خواب کی تعبیر بنے گا اور ہم چیلنجوں کو عبور کرکے ملک کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جائیں گے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے ارکان اور سرکاری افسران کو ملنے والے فری پٹرول میں کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ ڈویژن، متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی جائے، اس ضمن میں وفاقی وزرا، سرکاری افسران اور بڑے پیمانے پر تیل کی مد میں فنڈز خرچ کرنے والے اداروں کے فنڈز پر کٹوتی لگائی جائے اور ایسے اداروں کی نشاندہی کی جائے جہاں فنڈز کی کٹوتی کرنے پر اس کی کارکردگی پر بہت زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں۔وفاقی حکومت کے کفایت شعاری کے لیے اقدامات کو دیکھتے ہوئے صوبوں میں بھی ایسے اقدامات اُٹھانے پر کام شروع کردیاگیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کابینہ ارکان کا پٹرول الاؤنس مکمل ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ہی تمام صوبائی محکموں کے پٹرول اخراجات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعلیٰ اورصوبائی کابینہ کے ارکان سرکاری پٹرول نہیں لیں گے اور سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران پٹرول اخراجات خود ادا کریں گے۔ اِدھر سندھ میں وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بھی صوبائی وزرا اور سرکاری افسران کو ملنے والے فیول کا کوٹہ 40 فیصد تک کم کر دیا ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کے سرکاری اداروں میں بھی پٹرول کے استعمال کی مد میں 35 فیصد کٹ لگایا گیا ہے۔ بلاشبہ موجودہ معاشی حالات میں حکومت کے کفایت شعاری کے اقدامات قابل تعریف ہیں اور سبھی کو اِس معاشی جنگ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے لیکن معاشی ماہرین اِن سے زیادہ انتظامات کا تقاضا کررہے ہیں تاکہ جلد ازجلد معاشی بحران سے باہر نکلا جاسکے۔ کفایت شعاری مہم میں سرکاری افسران کے بجلی، گیس اور ٹیلی فون بل کے کوٹے پر بھی کٹ لگانے کی تجویز دی گئی ہے اور تمام وزارتوں میں تزئین و آرائش پر بھی پابندی کی تجویز زیر غور ہے  یہی نہیں افسران کے لیے نئی گاڑیاں لینے سمیت اُن کے بجلی، گیس اور ٹیلی فون بل کے کوٹے پر بھی کٹ لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی تقلید کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں نے بھی کفایت شعاری کے لیے اقدامات کا آغاز کردیا ہے مگر ایسے اقدامات کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے اور صرف حالیہ معاشی صورتحال میں ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سادگی کا طرز عمل اپنانے کی روایت ڈال کر ہمیشہ برقرار رکھی جائے۔ عامۃ الناس ہمیشہ یہی گلہ کرتے ہیں کہ افسر شاہی اور حکمرانوں کا طرز زندگی ملکی حالات سے میل نہیں کھاتا اور جن آزمائشوں سے عوام کو گذارا جاتا ہے، افسر شاہی اورحکمران اُن آزمائشوں سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں، لہٰذا کفایت شعاری کا یہ فیصلہ یقیناً عوام کو احساس دلائے گا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار عامۃ الناس سمیت اشرافیہ ، افسر شاہی اور حکمرانوں سےبھی قربانی لی گئی ہے۔
معاشی حالات دراصل فوری طور پر معاشی ایمرجنسی کا تقاضا کرتے ہیں کیوں کہ پانی بہت بار سر سے گذر چکا ہے اِس لیے اب ڈوبنے سے خود کو بچانا ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے معیشت کے لیے جو بھی فیصلے کیے اب لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں اب پاکستان پوری قوم سے قربانی مانگ رہا ہے اور سبھی نے قربانی دینی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی ٹیم کو سب سے پہلے عام اور سفید پوش پاکستانیوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے غوروفکر کرنا چاہیے جو موجودہ ریلیف پیکیج میں نہیں آتے، بجلی، پٹرول اور گیس یکے بعد دیگرے ایک ہفتے میں مہنگے ہونے کے باعث اشیائے خورونوش اور عام استعمال کی چیزیں حد درجہ مہنگی کردی گئی ہیں، اول تو دو ہزار کی بجائے ریلیف کی رقم زیادہ کی جانی چاہیے تاکہ لوگ مصنوعی مہنگائی خصوصاً حکومت کی جانب سے بجلی، گیس اور پٹرول وغیرہ جیسی منصوعات کی قیمتوں میں اضافے کا آسانی سے مقابلہ کرسکیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس طبقے کوبھی مدنظر رکھا جائے جو مہنگائی کے رگڑے میں تو آتا ہے لیکن ہر بار ریلیف کی میٹھی گولی سے محروم ہوجاتا ہے۔ حکومت کو اِس بار دبائو میں آنے کی بجائے وہ تمام تر فیصلے کرنے چاہئیں جن کے نتیجے میں ہم معیشت کو ٹانک فراہم کرسکیں، مارکیٹوں کے اوقات کارکا تعین بھی کیا جانا چاہئے، غیر ضروری ایندھن کے استعمال پر بھی پکڑ ہونی چاہیے، غرضیکہ وہ تمام اقدامات کیے جانے چاہئیں جو معیشت کے لیے موجودہ حالات میں انتہائی ناگزیر ہیںمگر دوسری طرف مصنوعی مہنگائی کو بھی قابو میں رکھا جائے تاکہ عوام کو لوٹ مار مافیا سے بچایا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button