Columnمحمد مبشر انوار

تضاد …. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

ایک مسلمہ روایت ہے کہ جنگ میںسب سے پہلا قتل ہمیشہ سچ کا ہوتا ہے اور جنگ کے نتیجہ میں گوئبلز کے چیلے چانٹے اپنی پوری توانائی کے ساتھ بروئے کار آتے ہیں۔ گوئبلز کے پیروکاروں کے بروئے کار آتے ہی اور افواہ ساز فیکٹریوں کے افواہیں پھیلاتے ہی قرب و جوار میں گردو غبار اُفق پر چھا جاتا ہے۔ایسی ہی صورتحال اس وقت اسلام آباد میں جاری سیاسی جنگ میں نظر آ رہی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے لانگ مارچ میں حکومت وقت اور اس کے وزراء کی طرف سے بلکہ فریقین کی طرف سے ایسی ہی افواہیں منظر پر پھیلی ہوئی ہیں۔ وزیر داخلہ ، اطلاعات اور مسلم لیگ نون کی سینئر نائب صدر عمران خان اور اس لانگ مارچ کو فتنہ خان اور فسادی مارچ سے تعبیر کرتے رہے اور اس سے آہنی ہاتھ سے نپٹنے کا عندیہ دیتے رہے، آہنی ہاتھ استعمال بھی ہوا اور اس کے استعمال میں جسٹس ریٹائرڈناصرہ جاوید اقبال کے گھر کا دروازہ تک پنجاب پولیس نے اُکھاڑ دیاتو عام عوام کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہوگا،اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں،دوسری طرف وزیر داخلہ نے آہنی ہاتھ سے نپٹنے کے لیے جتنی پولیس فورس تعینات کی،جتنی آزادی اسے فراہم کی،جتنے ہتھیار اس کے تصرف میں دئیے ،جس طرح شاہراہوں کو روکا،وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے ۔

عمران خان کی حکومت میں انہی سیاسی جماعتوں نے نہ صرف لانگ مارچ کئے، دھرنے دئیے بلکہ حتیٰ المقدور جلسے جلوس بھی کئے لیکن انہیں ہر طرح کی سہولت فراہم کی گئی اور ریاست کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی گئی البتہ کسانوں کے جلوس اور تحریک لبیک کے جلسے جلوسوں پر عمران خان حکومت کا رویہ قدرے سخت رہا۔ جمہوری سوچ اور جمہوری عمل کے پیروکاروں کو یہ کسی طور زیب نہیں دیتا کہ ایسے کسی جمہوری احتجاج کو بزور دبائیں لیکن بدقسمتی کہ ہماری خودساختہ جمہوری سیاسی جماعتوں میں آمرانہ سوچ زیادہ حاوی نظر آتی ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی جو کبھی جمہوری سوچ کی علمبردار رہی ہے،نے مولانا فضل الرحمن کے جلوسوں میں ہر طرح کی سہولت فراہم کی لیکن تحریک انصاف کے کارکنان پر لاٹھی چارج،براہ راست فائرنگ اور ان پر تشدد کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا۔
بہرکیف گذشتہ لانگ مارچ کے اختتام پر گو کہ عمران خان نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ نئے انتخابات کی تاریخ لے کر اسلام آباد سے اُٹھیں گے لیکن درپردہ حالات کی بنا ء پر انہوں نے اپنا لانگ مارچ ڈی چوک سے کچھ فاصلے پر ہی خطاب کرکے ختم کردیا اور چھ دن بعد دوبارہ لانگ مارچ کی تاریخ دینے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں پس پردہ حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ درحقیقت انہیں یہ اطلاعات تھی کہ کارکنان پر تشدد اور کسی دہشت گردی کا امکان ہے،جس کی ذمہ داری براہ راست تحریک انصاف پر عائد کی جانی تھی لہٰذا عمران خان نے اپنے کارکنان کی جانوں کو عزیز رکھتے ہوئے فوری کارکنان کو منتشر کردیا۔ عمران خان کے بقول حکومت وقت اس وقت بوکھلاہٹ میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہے لیکن عمران خان کسی بھی صورت اپنے پاکستانیوں کی جانوں سے کھیلنے کا رسک نہیں لے سکتے۔یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے اور اس میں ذرائع ابلاغ مسلسل ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف وہ موجودہ حکومت کی مدت کے حوالے سے بھی ایسی باتیںکررہے ہیں کہ بہت جلد یہ حکومت گھر چلی جائے گی اور نئے انتخابات کا اعلان ہو جائیگا۔ اس ضمن میں جو دلائل ،حالات و واقعات کی روشنی میں دئیے جار ہے ہیں، مفروضات کی حد تک ان سے اختلاف نہیں لیکن کیا واقعی ان مفروضات کے عین مطابق پاکستانی سیاست روبہ کار آتی ہے؟موجودہ حکومت بنتے ہی یہ قیاس آرائیاں رہی ہیں کہ یہ حکومت اگلے انتخابات کے لیے قوانین میں ضروری ترامیم کر کے نئے انتخابات کااعلان کر دے گی لیکن ان ترامیم کے نتیجہ میں حکومت کی واپسی کی راہ ہموار ہو چکی ہو گی لہٰذا نئے انتخابات میں جانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا البتہ اول روز سے ہی ایک شخصیت اس تجویز کی مخالفت کرتی رہی ہے اور پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنے کا دعویٰ بھی کرتی رہی ہے۔
سیاسی پنڈتوں نے اس حکومت کے حوالے سے جو لٹمس ٹیسٹ رکھا،اس میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بات کی گئی،تیل اور بجلی کے نرخ بڑھانے کو معیار بنائے رکھا کہ اگر موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر تیل و بجلی کے نرخ بڑھا دئیے تو یہ بات یقینی سمجھی جائے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ یہ دونوں کام موجودہ حکومت کر چکی ہے اور اب جب کہ یہ واضح ہے کہ موجودہ حکومت ہر صورت اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے،وہی سیاسی پنڈت جو اس حکومت کے مداحین میں بھی شمار کئے جا سکتے ہیں،اب پوری شدت کے ساتھ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرے گی اور موجودہ ماہ کے آخر تک عام انتخابات کا اعلان ہو جائے گامگر دوسری طرف معاملات اور بھی حیرت زدہ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف ایک طرف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے کہ اسے یہ ضمانت دی جائے کہ سابقہ لانگ مارچ میں ہونے والی ریاست گردی کو لگام دی جائے گی اور پرامن لانگ مارچ پر کسی قسم کا ریاستی تشدد نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف ایک طرف ہنوز مزاحمتی سیاست کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت سے بے دخلی کے بعد پنجاب میں بڑے بڑے جلسے کرنے کے باوجود،تحریک انصاف کے ووٹرز لانگ مارچ میں شرکت کیلئے اتنی تعداد میں باہر نہیں نکلے اور بالخصوص لاہور کی سڑکیں کارکنان سے خالی رہیں، کہیں بھی ایسا کوئی تاثر نہ ملا کہ کارکنان واقعتاً اسلام آباد کی طرف رخ کرنا چاہتے ہیں۔ ملتان کے آخری جلسے میں عوام کے امڈنے والے جم غفیر کا عشر عشیر بھی لانگ مارچ کے لیے باہر نہیں نکلا اور یوں پنجاب کے بڑے شہروں سے عوام تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے ساتھ نظر نہیں آئی۔ ایسا نہیں کہ لاہوریوں نے اس سے قبل ریاستی جبر کا سامنا نہ کیا ہو یا احتجاج میں ان کی پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی نہ ہوئی ہو لیکن مجوزہ احتجاج ایسے کسی بھی منظر سے عاری نظر آیا، ممکنہ طور پر اس کو دو دن قبل ہونے والے کریک ڈاؤن سے متصل کیا جا سکتا ہے یا قیادت کا فقدان، جو بھی کہیںپنجاب کے محاذ پر تحریک انصاف خاطر خواہ عوام کو لانگ مارچ میں شامل نہ کرسکی۔ ممکنہ طور پر یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت تحریک انصاف عدالت یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتی ہے کہ پرامن احتجاج؍لانگ مارچ پر ریاستی ادارے تشدد نہیں کریں گے تا کہ اگلے احتجاج میں اپنی عوامی حمایت کا جائزہ لے سکے۔
قطع نظر ان حقائق کے،کیا تحریک انصاف واقعی اگلا لانگ مارچ کرے گی،اس وقت یہ ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ شنید ہے تحریک انصاف کی کورکمیٹی میں پارلیمنٹ میں واپس جانے کی باتیں بھی ہوئی ہیں کہ موجودہ صورتحال میں تمام تر تعیناتیاں، حکومت اپنی مرضی کے مطابق کر رہی ہے، جس کا یقینی طور پر فائدہ آئندہ انتخابات میں اس کو ہو گا۔ تحریک انصاف 2014میں بھی پارلیمنٹ واپس گئی،تب بھی یہی کہا گیا کہ تحریک انصاف کا پارلیمنٹ سے نکلنے کا فیصلہ جذباتی تھااور اب بھی اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس جاتی ہے،تو ایک بار پھر اپنی سیاسی بلوغت پر سوالیہ نشان کھڑا کریگی۔اصولی طور پر سیاسی فیصلے ہونے تو پارلیمنٹ کے اندر چاہئیں لیکن کیا واقعی فیصلے پارلیمنٹ کے اندر ہوتے ہیں؟ اس ایک سوال کے اندر بہت سے پوشیدہ جوابات بھی ہیں اور سیاسی فضا میں موجود غبار بھی اس کا ثبوت ہے کہ پارلیمنٹ اپنی حقیقی قوت سے عاری ہے اور یہاں ہونے والے فیصلے ’’کہیں اور‘‘ہوتے ہیں، سیاستدانوں کے قول و فعل میں تضاد،اس اہم ترین تضاد کے سامنے انتہائی معمولی ہے اور جب تک پارلیمانی کردار کا یہ تضاد ختم نہیں ہوتا،باقی تضادات میں اضافہ ہی ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button