Aqeel Anjam AwanColumn

ورنہ پچھتانے کا وقت نہ ہوگا! .. عقیل انجم اعوان

عقیل انجم اعوان

بالآخر معاشی حالات سے مجبور ہو کر نون لیگ کی مخلوط حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 30روپےتک اضافہ کردیا ہے۔ شہباز شریف نے یہ فیصلہ بحالت مجبوری کیاکیونکہ وہ عوام کو ریلیف  دینے آئے تھے نا کہ ان پر مزید بوجھ ڈالنے، بہرحال  پٹرولیم مصنوعات میں یہ اضافہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق ابھی پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا اور اس کے ساتھ شنید ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں بھی آٹھ روپے یکمشت اضافہ کردیا جائے گا یوں مہنگائی سےغریب اور مڈل کلاس کی کمر بالکل ٹوٹ جائے گی اوران کے لیے زندگی بسر کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔

یہ امر واقعہ ہے کہ اس وقت موجودہ سیاسی صورتحال پر کسی کو بھی پوائنٹ سکورنگ کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جوبھی حکومت آتی وہ چاہے تحریک انصاف کی ہوتی، نون لیگ یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اسے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑتا۔ یہ مسئلہ تب پیدا ہوا جب عمران خان کو پتا چلا کہ تحریک عدم اعتماد منظور ہو جائے گی تو اس نے بددیانتی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 روپے فی لیٹر اور بجلی کی قیمتوں میںبھی 5 روپے کمی کا ایک نامعقول فیصلہ کیا تاکہ آنے والی حکومت مشکلات کا شکار ہو جائے اور وہ قیمتیں کم نہ کرنے کی وجہ سے عوام میںغیر مقبول ہو جائے۔ تحریک انصاف کے اس فیصلے کی وجہ سے اب معیشت کی بحالی کے لیے  شہباز شریف کو یہ غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں تاکہ معیشت سنبھل جائے لیکن اس طرح کے فیصلوں سے معیشت کبھی نہیں سنبھلی۔ یہ صرف حکومت کو وقتی ریلیف تو دے سکتا ہے مستقل نہیں۔ نون لیگ کی حکومت کے بعد بھی جو حکومت آئے گی وہ انہی معاشی مشکلات کا شکار رہے گی۔ پاکستان اس وقت ایسے معاشی بھنور میں پھنس چکاہے جس میں کوئی بھی حکومت نہ آزاد پالیسی بنا سکتی ہے نہ ہی کسی بھی معاشی ایجنڈے پر کھل کر عمل کر سکتی ہے۔مہنگائی، بیروزگاری، بھوک افلاس میں اضافہ سے سیاستدانوں، حکمرانوں اور پاکستان کے ایلیٹ طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ تو اس سے زیادہ خوش ہوں گے کہ مڈل کلاس جوان کے سامنے کھڑی ہو رہی تھی، مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے کہ اب اس کے لیے نکلنا قریباً ناممکن ہے اور غریب کوتو وہ کسی قابل ہی نہیں سمجھتے ۔ شہباز حکومت اگر سمجھتی ہےکہ اس طرح کے مشکل فیصلے لیکر معیشت کوسہارا دے سکےگی تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ یہ سارے فیصلے وہ خود نہیں کر رہے بلکہ ان سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کروا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا دیا ہوا قرض پاکستانی عوام سے نکلوانا ہے۔ پاکستان نے ان عالمی اداروں سے اتنا قرض لے لیا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی شاید اسے نہ اُتار سکیں۔
اس وقت جو فیصلے کئے جا رہے ہیں اگر تمام قومی جماعتیں عوامی اور ملکی مفاد کو دیکھ کر اکٹھے ہو جائیں اور صرف ان کا مطمع نظر ملکی معیشت کو سنبھالنا ہو توملکی معیشت سنبھل سکتی ہے اور اگر یہ آپسی لڑائیاں لڑتے رہے تو ملک دیوالیہ ہونے کی طرف تیزی سے بڑھتا جائے گا۔
سری لنکا جب دیوالیہ ہوا تو اس کے قرضے جی ڈی پی سے 111 گناہ بڑھ چکے تھے اس وقت پاکستان کا بھی یہ حال ہے کہ اس کے قرضے اس کی جی ڈی پی سے 82 فیصد زیادہ ہو چکے ہیں جو کہ خطرے کا الارم ہے۔آپسی سیاسی لڑائیوں کو پس پشت ڈال کر ایک مشترکہ معاشی ایجنڈا مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ریاستی اداروں کو اس پر اتفاق کرکے باہمی طورپر ملکر کوشش کرنی ہوگی کہ ملک کی معیشت سنبھل سکے۔ اس وقت نون لیگ نے جو ایک مشکل فیصلہ لیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پرعوام کتنی دیر تک خاموش رہتی ہے کیونکہ ایسے فیصلوں کا عوام میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے، محدود آمدنی والے اسے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچے مرتے نہیں دیکھ سکتے اور یہ کہ ان کے بیماروں کو دوا میسر نہ ہو۔
حکومت کوچاہیے  کہ وہ سارا بوجھ عوام پر مت ڈالے بلکہ کچھ بوجھ خود بھی اٹھائے اور کچھ بوجھ مراعات یافتہ طبقہ پر بھی ڈال دے تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کم ہو۔دوسری طرف حکومت کو یہ فیصلہ لینا ہے کہ وہ عالمی اداروں کی ہدایت پر چلیں گے یا اپنی عوام اور اپنی مرضی سے اپنی معاشی پالیسی مرتب کریں گے۔ گزشتہ دنوں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کاکہنا تھا کہ حکومت آئندہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دے گی مگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اگلے مالی سال میں مہنگائی بہت زیادہ بڑھ جائے گی کیونکہ قرض لینا آسان ہوتا ہے اس کو لوٹانا بہت مشکل۔ اس وقت وزیر خزانہ کو عوام کے سامنے حقائق رکھنا چاہئیں نہ کہ سیاسی بیان بازی کرنا چاہئے، اگر تو ان کی صرف سیاسی بیان بازی ہے کہ آئندہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جائے گا تو یہ بیان نون لیگ کے لیے  آئندہ انتخابات میں مشکل کھڑی کر سکتاہے، اس وقت نون لیگ کو سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے ورنہ ان کے پاس بھی تحریک انصاف کی طرح پچھتانے کا وقت نہیں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button