ColumnZameer Afaqi

زکریا ایکسپریس ،زیادتی واقعہ قانون کدھر ہے؟ .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

انتہائی افسوس ناک خبر جسے میڈیا میں اتنی کوریج نہیں ملی جتنی شہباز گل کے بیان کو ملتی ہے یہ بھی مقام افسوس ہے کہ ایک انتہائی احساس موضوع کو ہم اپنے ٹاک شو کا حصہ نہیں بناتے بلکہ اس ملک کی ہڈیوں سے خون نچوڑنے اور عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنانے والے ہمارے میڈیا کی ہیڈ لائن میں جگہ پاتے ہیں ۔ انحطاط اسی کو کہتے ہیں ۔ملتان سے کراچی جانے والی زکریا ایکسپریس میں سوار کراچی کی ایک خاتون کو ٹرین کے عملے نے مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ اورنگی ٹاؤن کی رہائشی خاتون اپنے بچوں سے ملنے ملتان گئی تھی۔ وہاں سے واپسی پر وہ زکریا ایکسپریس میں سوار ہوئی کہ ٹرین کے عملے نے ان کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کی۔ پولیس میں درج رپورٹ کے مطابق خاتون  عرصہ قبل انہیں طلاق دے دی تھی۔ خاتون نے اکانومی کلاس کا ٹکٹ خریدا اور سفر پر روانہ ہو ئیں۔ کراچی واپسی کے لیے وہ مظفر گڑھ سے ٹرین پر سوار ہوئی ۔ جب ٹرین روہڑی اسٹیشن کے قریب پہنچی تو ٹکٹ چیکر نے انہیں ایئر کنڈیشنڈ بوگی کے ایک ڈبے کی لالچ دی اور وہاں لے جا کر ایک اور شخص کے ساتھ مل کر ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور دونوں موقع سے فرار ہو گئے۔

بعض مقامی ذرائع کے مطابق اس گھناؤنے عمل میں ایک اور شخص بھی شامل تھا تاہم اْس کی شناخت نہیں ہو سکی ۔ خاتون نے کراچی پہنچ کر پولیس کے سامنے اپنے ساتھ ہونے والے اس واقعے کی تفصیلات بیان کیں اور مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون کا جناح ہسپتال میں میڈیکل کروالیاگیا ہے جس کی ابتدائی رپورٹ میں خاتون سے زیادتی ثابت ہوچکی ہے تاہم میڈیکل کی تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے۔

خاتون مسافر کے ساتھ ٹرین میں مبینہ جنسی زیادتی کے اس واقعے کی خبر عام ہونے کے فوراً بعد انسپکٹر جنرل آئی جی پی ریلوے فیصل شاہکار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے دی اور ملزمان کی گرفتاری کا حکام جاری کر دیا ۔

بتایا جارہا ہے کہ زکریا ایکسپریس ٹرین نجی شعبے کے زیر انتظام چلائی جارہی ہے ۔

چند ایک مزید خبریں،پتوکی میں ڈکیتی کے دوران ڈاکوؤں کی 15 سالہ لڑکی سے زیادتی، وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے متاثرہ خاندان سے ان کے گھر جاکر ملاقات کی اور واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی۔پولیس کے مطابق لڑکی کا والد وقوعہ کی رات ساڑھے 9 بجے اپنی 15 سالہ بیٹی اور 5 سالہ بیٹے کے ساتھ شادی سے واپس آرہا تھا کہ پتوکی چونیاں بائی پاس پر 2 ڈاکو انہیں روک کر کھیتوں میں لے گئے، جہاں ملزموں نے لڑکی کے والد کو رسیوں سے باندھ کر اس کے سامنے بیٹی سے مبینہ طور پر زیادتی کی۔

ملزمان نے ان سے 7ہزار روپے نقدی، بالیاں اور لڑکی کاموبائل فون چھینا اور اپنی موٹرسائیکل وہیں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔پولیس نے لڑکی کا طبی معائنہ کراکے زیادتی اور ڈکیتی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ۔فیصل آبادکے محکمہ صحت کی عمارت میں 2 خواتین کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کے واقعے نے بھی خبروں میں جگہ پائی،محکمہ صحت کے مطابق مقدمے میں نامزد محکمہ صحت کی عمارت کے چوکیدار کو معطل کردیا گیا ہے۔

سال 2020 میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے واقعات کئی روز بلکہ مہینوں خبروں میں موجود رہے۔ ان میں موٹروے ریپ کیس سب سے اہم ہے جس میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کو پٹرول ختم ہونے پر رکنا پڑا اور اس دوران دو ملزمان نے انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔یہ چند وہ واقعات ہیں جو پولیس کے پاس رپورٹ کیے جاتے ہیں یا پھر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ زیادہ تعداد ایسے واقعات کی ہے جو پس پردہ رہ جاتے ہیں۔

ملک بھر میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی، ہراسانی اور سائبر جرائم کی شرح میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے، خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں پر جنسی تشدد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔حکومت کی جانب سے جنسی جرائم کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے کئی ایک قوانین بھی متعارف کروائے گئے، جن میں حال ہی میں ریپ کے ملزمان کو نامرد بنانے کا صدارتی آرڈیننس بھی شامل ہے لیکن اس کے باوجود واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں یومیہ  11 خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں۔ یہ تعداد پولیس اور دیگر اداروں کے پاس درج ہونے والی شکایات سے اخذ کی گئی ہے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2015 سے اب تک مجموعی طور پر جنسی زیادتی کے 22 ہزار 37 مقدمات درج ہوئے جن میں سے چار ہزار 60 مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔اب تک 77 مجرموں کو سزائیں ہوئیں اور صرف 18 فیصد کیسز پراسیکیوشن کی سطح تک پہنچے ہیں۔جنسی جرائم اور ہراسانی سے متعلق قوانین موجود ہیں اور حکومتی سطح پر مزید قانون سازی بھی ہوئی ہے لیکن مسئلہ ان قوانین کے بارے میں آگاہی اور ان پر عمل در آمد کا ہے۔ حکومت کو اب بھرپور تشہیری مہم کے ذریعے عوام الناس کو ان قوانین کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کو خواتین کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔

لیکن اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ پاکستان میں ایسے جرائم کی مستقل روک تھام کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟پاکستان میں ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون تو موجود ہیں، لیکن عمل درآمد کی صورت حال بہت خراب ہے۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں ایسے مقدمات میں ملزموں کو سزا ملنے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے تفتیشی نظام بہت ہی ناقص ہے جبکہ دوسری طرف ملک میں نظام انصاف بھی برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کے ادارے، سول سوسائٹی کے بعض حصے اور میڈیا سب کمرشل سے ہو گئے ہیں۔ وہ واقعات کو اپنے مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

دانشوروں کے مطابق پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی گھٹن اور بے چینی بھی ایسے جرائم کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے،ایسا پاکستانی معاشرہ جو پابندیوں میں جکڑا ہو، جہاں انسانی حقوق کی پاسداری حکومتوں کی اہم ترجیح نہ ہو، جہاں جبر کے ماحول میں انسانی حقوق کی پاسداری مشکل ہو، جہاں نہ تفریح کے مواقع ہوں اور نہ ہی آرٹس اور کلچر کو سرپرستی مل رہی ہو، جس معاشرے میں مقامی حکومتوں کا نظام اہل اقتدار کو خوش دلی سے قبول نہ ہو، وہاں ایسے جرائم پنپتے ہیں۔ پاکستان میں عورت پہلے ہی صنفی تفاوت اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔

ایسے میں ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز جب تک اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر نہیں بیٹھیں گے، تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ملزم کو سزا ملنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس میں کوتاہی ہوئی تو اس سے مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو شہ ملے گی اور معاشرے میں اس تاثر سے بے چینی پھیلے گی کہ یہاں مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ معاشرے کو ایسے جرائم سے پاک کرنے کے لیے صرف حکومتی کوششیں ہی کافی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو اس سلسلے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔خواتین کے عدم تحفظ کا مسئلہ شہر اور گاؤں ہر جگہ اور ہر طبقے کی خواتین کا مسئلہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس معاملہ کو نہ صرف معاشرہ نظر انداز کررہاہے بلکہ حکومت اور کچھ حد تک خواتین خود بھی اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔عورتیں ان مسائل پر آواز اٹھانے کے بجائے خاموشی سے اذیت برداشت کرتی ہیں جس سے مردوں کو شہہ ملتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button