CM RizwanColumn

حکومت کیلئے خطرہ تو رہے گا .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

کچھ بھی ہو موجودہ شہباز شریف حکومت کے لیے خطرہ تو بہرحال موجودہے اور رہے گا۔ گو کہ شہباز شریف کو نسبتاً اسٹیبلشمنٹ دوست سیاستدان کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے بڑے بھائی سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے مشکل بیانیے کے باوجود انہوں نے اپنے لیے وزارت عظمیٰ کی نشست نکالی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بچھونا ہے۔ عمومی طور پر ہر نئی آنے والی حکومت کے لیے ابتدائی سو دنوں کا ایک گریس پیریڈ ہوتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں غالباً شہباز شریف کی یہ واحد حکومت ہے جسے یہ سہولت بھی حاصل نہیں اور حلف اٹھانے تک تودور کی بات، اس حکومت کی سکروٹنی قومی اسمبلی میں شہباز شریف کے وزیراعظم کا الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کمال کاری گری سے اُسی دن قومی اسمبلی میں بحیثیت وزیراعظم اپنی پہلی تقریر میں عوام کو مایوس نہیں کیا اور عوامی فلاحی روڈ میپ دینے کے ساتھ ساتھ اپنا بھرپور حکومتی پلان بھی پاکستان کے عوام وخواص کے سامنے رکھ دیا تھا جس سے ایک بات تو واضح ہو گئی تھی کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اس بار آنے والے کی تیاری صرف تقریر کی حد تک نہیں بلکہ عملی اقدامات کے لیے بھی وہ مکمل طور پر تیار تھے۔

اب وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے سامنے بالخصوص اور متحدہ اپوزیشن کے سامنے عمومی طور پر چیلنج صرف ملکی حالات ٹھیک کرنا، الیکشن اصلاحات، معیشت کی بہتری اور مہنگائی سے عوام کو ریلیف دینا ہی نہیں بلکہ سیاسی اعتبار سے عمران خان کا مقابلہ کرنا، جلد الیکشن کے مطالبے کی شدت کو کم کرنا، مخلوط حکومت کو آئینی عرصے تک برقرار رکھنا۔ یہ سب ایسے چیلنجز ہیں کہ قدم ذرا سا بھی سِرکا تو گہری کھائی میں گرنے کے خطرات موجود ہیں۔

شہباز شریف کیلئےایک اور چیلنج نوازشریف کی واپسی کا بھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اس ایک نکتے پر فی الحال نہ تو واضح ہاں ہے اور نہ ہی واضح انکار، لیکن سیاسی حالات ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے زیادہ نوازشریف واپسی کا قانونی اوراخلاقی جواز زیادہ وزن کا حامل ہے۔ اگر نوازشریف فوری وطن واپس آتے ہیں تو جیل جائے بغیر چارہ نہیں جو ظاہر ہے کہ نون لیگ کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اگر واپسی کی صورت میں جیل نہیں بھیجے جاتے تو بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اِس تناظر میں شہباز شریف کے وکیل عرفان قادر کا سپریم کورٹ میں لگایا گیا آئینی چھکا امید پیدا کر رہا ہے کہ نون لیگی قیادت بالآخر عدالتوں میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ نواز شریف کو دی گئی سزا غیر آئینی تھی یا کم از کم ضرورت سے زیادہ تھی،

لیکن جہاں تک فوری الیکشن ہونے کا تعلق ہے تو اس صورت میں عنقریب نوازشریف کی واپسی ممکن نہیں اس کے لیے نون لیگی قیادت کو ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت درپیش رہے گی۔ عمران خان کے فوری الیکشن کے مطالبے سے نمٹنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لیے قلیل مدت سٹریٹجی کے طور پر فی الحال تو شہباز حکومت جمع مسلم لیگ نون کو تحریکِ انصاف کو انگیج رکھنا ہو گا۔ اس سلسلے میں پچیس مئی کے عمران خان کے لانگ مارچ یا احتجاجی مظاہرے کے موقع پر وفاقی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات بھی حکومتی کامیابی کی نوید سنا رہے ہیں جبکہ عمران خان باوجود سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی اجازت کے، اپنے مقاصد میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں اوپر سے عمران خان کی ملک ریاض کے ذریعے آصف علی زرداری کو منانے کی مبینہ کوششوں کی خبردینے والی آڈیو کے لیک ہوجانی  کے بعد حکومت کی مضبوطی اور نیک نامی عمران خان کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ ان حالات اور ڈویلپمنٹ کے نتیجے میں انتخابات کا وقت آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن ان تمام حقائق کے باوجود الیکشن وقت بہرحال اگست، ستمبر تک ہی موزوں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے پہلے ہی حالات کوئی اور غیر متوقع، انہونا یا خطرناک موڑ لے لیں جس کے لیے شہبازشریف کو ہمہ وقت تیار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت رہے گی۔
تاہم اس وقت عمران خان اور ان کے سائے میں پوشیدہ قوتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ شہبازشریف کو بطور وزیراعظم چلنے نہ دیا جائے اور ناکام بنا دیا جائے۔ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ استعمال کرنے کا پلان بھی تیار کیا جا چکا۔ یہ پلان کہاں اور کن کن کے درمیان طے ہوا ہے، شاید یہ تو پتا نہ چل سکے لیکن بظاہر جس قسم کی مدد وزیراعظم شہباز کے لیے موجود ہے ان کے لیے مسائل کا آغاز بھی انہی مددگار حلقوں سے ہوگا اور اگر ان مددگار حلقوں کو جس طرح عمران خان ڈیل کر رہے ہیں اسی طرح انگلیوں پر نچاتے رہے تو شاید کبھی بھی ان کا دوبارہ وزیراعظم بننے کا خواب پورا نہ ہو۔

عمران خان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے وزیراعظم بننے سے بھی پہلے اسٹیبلشمنٹ کی پہلی محبت تو ہمیشہ سے شہبازشریف ہی رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ والی محبت کتنا عرصہ برقراررہتی ہے۔ ویسے جہاں محبت ہو وہاں ایک رقیب کا ہونا لازم ہوتا ہے اور اس معاملے میں بھی ولن پردے کے سامنے اور پسِ پردہ ہر قسم کے سازشی تانے بانے بُننے میں مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ اس ضمن میں ایک پہلو مدنظر رہے کہ سابق صدر جنرل مشرف جیسا شریف فیملی کا کٹر مخالف بھی شہبازشریف کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا معترف اور گرویدہ تھا اور اس بات کا اعتراف پنجاب دورے کے دوران کئی بار گورنر پنجاب خالد مقبول کے سامنے بھی کیا گیا جس کے کئی چشم دید گواہ بھی موجود ہیں۔

اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں تو کسی کو جھجھک اور ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ ایک منتظم کی حیثیت سے میاں شہباز شریف کی کامیابیاں پوری دنیا تسلیم کرتی ہے، ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں نا صرف کام کرنے کا طریقہ بلکہ دوسروں سے کام کروانے اور کام نکلوانے کا فن بھی آتا ہے اور جس رفتار سے وہ حکومتی معاملات کو چلاتے ہیں معاشی بحران کے تناظر میں آج پاکستان کو اسی طرح کے وزیراعظم کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں یہ بات لکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی بنیادی انتظامی اکائی ہے اس کے بغیر اصولی طور پر کوئی بھی حکومت نہیں چل سکتی اور انتظامی حوالے سے یہ ایک جائز اور درست پہلو ہے اس پر بے جا تنقید کرنے والے اور انقلابی ہیرو شپ بھی بالآخر ہمیشہ اس کی قائل اور معترف ہوئی ہے، موجودہ وزیراعظم کو اگر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے تو یہ اس کا ملک و قوم پر احسان ہے کہ اس نے ملک کی سربراہی ایک ایسے سیاسی ورکر کو دی ہے جو کام کام اور صرف کام کرنے کا عادی ہے۔

قوم سے اس کے پہلے خطاب کے دوران خوشگوار حیرت ہوئی کہ پہلی بار وزارت عظمیٰ کی نشست سے ایک نپی تلی مناسب اور موزوں تقریر ہورہی ہے جس سے نہ تو منافقت اور عداوت کی بو آرہی ہے اور نہ ہی مخالفین کو بے جا الزامات اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ آپس کی بات ہے کہ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عمران خان شہبازشریف سے نالاں ہیں۔ عمران خان نے بھرپور کوشش سے ایک ایسا بیانیہ اور تاثر تشکیل دے رکھا تھا جس کے مطابق ان سے قبل آنے والے اور ان کی حریف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تمام وزرائے اعظم سب نکمّے، نااہل اور چور ڈاکو تھے۔ اس بیانیے اور تاثر کی تشکیل میں عمران خان نے بلاشبہ انتہائی کمال کی مہارت اور محنت کی تھی۔

اب بھی عمران خان اور ان کی جماعت کے کاری گروں کی یہی کوشش ہے کہ شہباز شریف کو وہاں سے ناکام کیا جائے جہاں سے کیا جانا ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ ملک میں مہنگائی اور معاشی مشکلات عروج پر ہیں پھر یہ کہ دس عدد اتحادی جماعتوں کو بیک وقت خوش رکھنا بھی رسی پر چلنے کے مترادف ہے ان تمام وجوہات کی بِنا پر وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے ایک ایسا میدان ہے جہاں انہیں چومکھی لڑائی لڑنی ہے اور بظاہرسامنے موجود چیلنجز کے ساتھ ساتھ چند خفیہ حملوں سے بھی نمٹنا ہو گا جن میں سے عین ممکن ہے کوئی ایک مہلک بھی ثابت ہونے کی طاقت رکھتا ہو۔ اسی دوران بجٹ تیاری اور اس کے پاس کروانے کا کڑا مرحلہ بھی درپیش ہے۔ دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی شہباز حکومت کے لیے آنے والا ہردن خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن انہیں اور اشرافیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان جیسا وزیراعظم اب وطن عزیز کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست اور مخالفت کے لیے تو پوری زندگی پڑی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button