ColumnKashif Bashir Khan

 ریاست ماں ہوتی ہے! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

کل کھانے کی میز پر کھانا کھاتے ہوئے میرا بیٹادائود کاشف خان اپنی ماں کو گوشت نہ کھانے پر تنگ کر رہا تھا، میں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے ہوئے بتایا کہ جب میں اور دیگر بہن بھائی چھوٹےتھے تو میری والدہ ہم سب بہن بھائیوں کو الگ الگ پلیٹوں میں سالن ڈال کردیتی تھیں اور ہمیں کہا جاتا تھا کہ اس سالن میں کھانا پورا کرنا ہے،  یعنی بوٹی اور پلیٹ میں موجود شوربہ کے ساتھ جتنی بھی روٹیاں بھوک کی مناسبت سے کھانی ہوتیں وہ اسی سالن کے ساتھ کھانی ہوتی تھیں۔یہ اس لیے نہیں کہ وسائل کم تھے ، دراصل یہ بھی والدین بالخصوص ماں کی تربیت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔بڑے بڑے نام نہاد موٹیویشنل سپیکرزبھی اس گھریلو تربیت کے انمول طریقہ کار پر آج تک کچھ نہیں بولے،حالانکہ اس طریقے کے ذریعے بہت ساری چیزوں کواعتدال میں لایاجاسکتا ہے اور یہ نسخہ بڑے سے بڑا معیشت دان بھی طالب علموں کے ذہنوں میں آسانی سے نہیں بٹھا سکتا۔
پرانےزمانے کی ماؤں کے اس طریقہ کا تعلق امیری اورغریبی سے ہرگز نہیں ہوتا تھا بلکہ اس طریقہ میں چیزیں اعتدال میں لانے، فضول خرچی سے بچنے اور اشیاء کو ضائع ہونے سے بچانے کی حکمت پوشیدہ ہوتی تھی۔جن قارئین نے معاشیات پڑھی ہے انہیں معلوم ہو گا کہ محدود وسائل میں لامحدود انسانی خواہشات کو پورا کرنے کا نام معاشیات ہے۔ محدود سالن میں دو یا تین روٹیاں کھانے کے درس یا ہدایت دراصل انسان کے زندگی میں لامحدود انسانی خواہشات کو اعتدال میں لانے کا ہی درس ہے اور اس کے اثرات بچوں کے دماغ میں نقش ہو کر انہیں ہر کام میں محدود وسائل میں رہتے ہوئے بھی اپنی لامحدود خواہشات کو پوری کرنے کا درس اور طریقہ دیا کرتے تھے۔

پرانے وقتوں کے مائیںتو معیشت دان بھی ہوا کرتی تھیں اور بچوں کو اوائل عمری میں ہی بچت اور چیزوں کو اعتدال میں لانے کا درس اس طریقہ سے کرتی تھیں کہ اس سے انحراف ممکن ہی نہیں تھا کہ تین وقت کا کھانا تو ہر بچے بڑے نے کھانا ہی ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ کچھ گھرانوں میں اس محدود سالن پر بھی بچے لڑا کرتے تھے اور جو ان میں سے شرارتی  یا بدمعاش بچہ ہوا کرتا وہ دوسرے بچوں کی پلیٹ میں سے بوٹی اڑا لیا کرتا تھا لیکن ایسے بچوں کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی۔یہ وہ بچے تھے جو ماں کے دیئے ہوئے اس درس پر یقین نہیں رکھتے تھے اور دوسرے کا حق چھین کر کھانے کو اپنی کامیابی سمجھتے تھے۔میری اوپر لکھی باتوں کو آپ غور سے سوچیں تو محدود سالن میں زیادہ روٹیوں کو کھانے کے دوران جو دماغی مشق ہوتی تھی اور جس طرح روٹی کے ہر نوالے کا اہتمام کیا جاتا تھا وہ بچے کے مستقبل کے لیے ایک بہت ہی تخلیقی اور بڑی مشق ہوا کرتی تھی۔ اس عمل میں سالن یا کھانے (وسائل)کی منصفانہ تقسیم کا ایک اعلیٰ نمونہ دیکھا جا سکتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ آج سے کم از کم 35 سال قبل میرے والد نے جب گاڑی خریدی توہماری مرحوم والدہ نے ہم تینوں بھائیوں کو سختی سے بتا دیا تھا کہ اول تو سب بھائیوں نے اپنی اپنی موٹر سائیکل استعمال کرنی ہے اور اگر گاڑی کی ضرورت ہو یہ گاڑی تینوں بھائیوں نے برابر استعمال کرنی ہے۔ایسا نہیں تھا کہ ہم تین بھائیوں میں سے کوئی ایک گاڑی لے کر پھرتا رہے اور باقی اپنی موٹر سائیکلوں پر۔
جب ہمارے والدین نے زمانہ طالب علمی میں ہمیں الیکٹرونکس کا کاروبار شروع کروایا تو ہم تینوں بھائیوں کے اس کاروبار پر بیٹھنے کے اوقات طے کر دیئے تھے تاکہ کسی ایک بھائی کو زیادہ دیر تک کاروبار پر نہ بیٹھنا پڑے،جبکہ ہر ہفتے کے بعد اس کاروبار پر بیٹھنے کے اوقات بھی ہماری والدہ تبدیل کیا کرتی تھیں۔والدین کا جو رویہ میں لکھ رہا ہوں قارئین کی اکثریت نے یہ رویئے نہ صرف دیکھے ہوںگے بلکہ جھیلے بھی ہوں گے۔ماضی میں اگر کسی گھر کا کوئی فرد بگڑا ہوتا تھا تو لوگ کہا کرتے تھے کہ اس کی تربیت میں اس کے والدین نے کوتاہی برتی ہو گی۔ایسا تب ہی ہوتا تھا جب کسی خاندان کے کسی ایک بچے کو باقی بچوں پر فوقیت دی جاتی تھی اور اس کی خطاہیں بھی معاف کر دی جاتی تھیں۔ماضی کے والدین کا اپنے گھرانے پر کنٹرول بھی بے مثال ہوا کرتا تھا۔ایسا بچہ جس سے خصوصی سلوک کیا جاتا تھا وہ اکثر بگڑا ہوا ہوتا تھایا باقی بچوں کی نسبت خصوصی سلوک اسے بگاڑ دیتا تھا اور وہ پھر معاشرے کے لیے مسائل پیدا کیا کرتا تھا۔کسی بھی خاندان میں بالخصوص ماں کا کردار اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا بلکہ اب بھی ہے اور ریاست کا بنیادی تصور بھی خاندان سے ہی کیا گیا ہے اور اسی لیے ریاست کو ماں کا درجہ دیا گیا ہے۔یہ درجہ صرف عزت کے لیے نہیں دیا بلکہ ماں میں جو وصف پائے جاتے ہیں اس تناظر میں دیا گیا اور سمجھا گیا ہے کہ ریاست کے باشندے اس کے لیے بچوں کا درجہ رکھتے ہیں اور ماں اپنے بچوں سے کبھی امتیازی سلوک کر ہی نہیں سکتی۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم بھائیوں میں سے کوئی بھی کوئی ایسی چیز لیتا تھا جو ہمارے پاس نہیں ہوتی تھی تو ہم اپنی والدہ سے گلہ ضرور کرتے تھے کہ آپ نے اسے یہ کیوں لے کر دیا جس پر ہماری والدہ بتایا کرتی تھیں کہ تمہارے بھائی نے پیسے جمع کئے یا تمہیں بھی تو فلاں چیز فلاں دن لے کر دی تھی۔ریاست کا ماں کا کردار ویسے ہی پچھلے تیس چالیس سال سے بدل گیا ہے جیسے ہمارے خاندان کا نظام بدلا ہے۔
ریاست پاکستان میں بگڑے ہوے بچوں کی تعداد جوں جوں بڑھتی گئی توں توں ریاست کا نظام عدم توازن کا شکار ہو ا۔ریاست کے بگڑے بچوں نے مساوات اور یکساں انصاف کا نظام درہم برہم کر کے ریاست کے باقی باشندوں میں نہ صرف احساس عدم مساوات کو فروغ دیا بلکہ انہیں بری طرح سےعدم تحفظ میں مبتلا کر دیا۔جس طرح کنبہ یا خاندان کے سربراہ والدین اور بڑے ہوتے ہیں اسی طرح ریاست کی سربراہی حکومت اور اداروں کے پاس ہوتی ہے اور ان پر ریاست کے باشندوں (بچوں)کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ پچھلی قریباً چار دہائیوں سے ریاست کی سربراہی جن افراد کے ہاتھوں میں آئی ان کی اکثریت بگڑے ہوئے ان بچوں کی تھی جنہوںنے ریاست کے ساتھ خصوصی سلوک کرکے ریاست کے باقی باشندوں کو بے بس کرتے ہوئے انہیں تمام مسائل کا شکار کردیا جبکہ بگڑے ہوئے بچے آج بھی راج کر رہے ہیں اور ریاستی ادارے اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے بھی ان کے تابع نظر آتے ہیں۔
ہمارا المیہ ہے کہ جہاں پاکستان کا خاندانی نظام بکھرا وہاں ریاست کا ماں والا کردار بھی ختم ہو چکا، جس ریاست نے اپنے بچوںکو انصاف، مساوات، تعلیم، صحت اور روزگار اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرنے تھے وہ ریاست کے بگڑے ہوے باشندوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔یہ بگڑے ہوئے حکمران جو امتیازی سلوک کے عادی ہوچکے ہیں، ان کا ریاست کے باقی باشندوں کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں اور ان کا مقصد حیات اپنا اور اپنے خاندانوں کا تحفظ ہے۔جب ہم ریاست کو ماں جیسی کہتے ہیں تو ماں تو نام ہی قربانی اور ایثار کا ہے۔آج جب ہم بطور ریاست کے باشندے کے اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں شدید مایوسی ہوتی ہے اور ہمیں لگتا یہی ہے کہ ہم ’’بن ماں کی ریاست‘‘ کے باشندے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button