CM RizwanColumn

انتخابات اور سوشل میڈیا میجک .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

ایک طرف سیاسی عدم استحکام اور دوسرا معاشی بحران یہ دونوں مسائل اس وقت ملک وقوم کی پریشانی کا سب سے بڑا باعث ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور اتحادی جماعتوں کی حکومت تشکیل پانے کے بعد بعض سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ سیاسی معاملات ہموار طریقے سے آگے کی طرف بڑھیں گے، مگرجب سے یہ حکومت ایوان اقتدار میں آئی ہے ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ کچھ سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق عمران خان کا یہ کہنا کہ میں حکومت سے باہر سڑکوں پر آ کر زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔ بظاہر درست ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اِن کے فوری انتخابات کے مطالبے کی بدولت سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے اور اس سیاسی عدم استحکام نے معاشی بحران میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف پٹرول کی فی لٹر قیمت میں چوالیس روپے اضافے سے ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں اضافے نے عام آدمی کو پریشان کر دیا ہے اور دوسری طرف موجودہ صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مسلم لیگ نون  کو ہے کیونکہ وہ اپنے اتحادیوں میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر ہے۔

دوماہ قبل جیسے ہی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا اِن کی جانب سے فوری انتخابات کا مطالبہ پوری شدت کے ساتھ سامنے آیا۔ عمران خان موجودہ حکومت کو تسلیم ہی نہیں کرتے اوراِن کے اقتدار کو اپنے اقتدار کے خلاف سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے فوری انتخابات کے مطالبے کو بھی مختلف انداز سے دیکھا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کا جس انداز سے خاتمہ ہوا، اس سے عوام کے اندر ہمدردی کا عنصرپیدا ہوا اور عمران خان نے حکومت کے خاتمے کو اندرونی و بیرونی سازش قرار دے کر یہ آواز نیچے تک پہنچا دی ہے لہٰذا اگر اب جلد انتخابات ہوتے ہیں تو اس جماعت کو عوام کی تائید کی صورت سب سے زیادہ فائدہ ہوگا جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان جلد انتخابات کی صورت میں مبینہ طور پر سلیکشن چاہتے ہیں۔ اس پہلو کا اظہار بلاول بھٹو زرداری بھی بارہا کرچکے ہیں۔ 15 مئی کو کراچی ایئرپورٹ پر استقبالی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ سلیکٹڈ دوبارہ سلیکشن کے لیے فوری انتخابات چاہتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنمااسد عمر سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا پاکستان تحریکِ انصاف فوری انتخابات کا انعقاد محض اس لیے چاہتی ہے کہ اس کو عوام کی بھرپور تائید کا احساس ہوچکا ہے تو اِن کا کہنا تھا کہ فوری انتخابات کے انعقاد کا ہمارا مطالبہ محض اس بنیاد پر نہیں کہ ہم جیت جائیں گے بلکہ ہم فوری انتخابات اس لیے چاہتے ہیں کہ غیر جمہوری طریقے سے آئی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے عوام میں جا کر عوامی فیصلہ چاہتے ہیں۔ البتہ بعض تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو پاکستان تحریکِ انصاف بڑا معرکہ مار سکتی ہے اور میرا خیال ہے کہ دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ جیت کو ممکن بنا سکتی ہے۔
یہی دوتہائی اکثریت ہے جس کی خاطر عمران خان ہلکان ہوئے جارہے ہیں اورچاہتے ہیں کہ وہ ایک بڑی اکثریت سے کامیاب ہوکر ہی اپنی مرضی کی قانون سازی کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ نون موجودہ اقتدار میں رہ
کر سخت ترین معاشی فیصلوں اور انتخابات کے مناسب وقت کے بیچ میں کہیں پھنسی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر یہ کچھ معاشی فیصلے ایسے کرتی ہے، جس سے عوام کی معیشت پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں تو سابق حکومت کی معاشی بدحالی کا ملبہ اِن کے اُوپر آجائے گا۔ یہی احساس انہیں پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے تذبذب کا شکار کیے ہوئے تھا اور اب قیمتیں بڑھا کر سخت عوامی تنقید ان کا مقدر بن گئی ہے۔
ایسے ناگوار فیصلوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ فوری انتخابات کی طرف بڑھا جائے، مگر اس ضمن میں بھی مسلم لیگ نون متذبذب ہے۔انتخابات کا انعقاد کب ہونا چاہیے، اس ضمن میں مسلم لیگ نون جماعتی سطح پر بھی تقسیم کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ شہباز شریف کے تاثر سے لگتا ہے کہ وہ معاشی سطح پر قدرے استحکام لا کر سال بھر بعد عوام کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ اِن کی حکومت نے آکر ملک کو معاشی بدحالی سے نکال دیا ہے، اس احساس کے ساتھ جب یہ الیکشن میں اُتریں گے تو عوامی سطح پر اِن کی جماعت کو پذیرائی ملے گی جبکہ بعض نون لیگی رہنماؤں کا خیال ہے کہ جلد الیکشن کی طرف جانا چاہیے اور گذشتہ حکومت کا ملبہ اپنے سَر نہیں لینا چاہیے۔ مجموعی طور پرایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون کنفیوز ہو چکی ہے۔ عدم اعتماد کی کامیابی سے قبل ان ہاؤس چینج پیپلز پارٹی کا فیصلہ تھا، زرداری نے نواز شریف کو اس پر قائل کیا۔ نوازشریف نے اپنی پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی کی اجازت دی۔ ان جماعتوں کا خیال تھا کہ ابھی انتخابات کو لگ بھگ ڈیڑھ سال کا عرصہ بچا ہوا ہے، عمران خان اپنی پسند کے فوجی آفیسر کو آگے لانا چاہتے ہیں، جو مبینہ طور پر اِن کی الیکشن میں فتح میں کردار ادا کرے گا۔
مگر یہ محض اندازہ تھا۔ یہاں کل کیا ہوگا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مسلم لیگ نون فیصلہ سازی کے ضمن میں تذبذب کا شکار
کیوں ہے کے ضمن میں سینئر لیگی رہنما پرویز رشید کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون قطعی طورپر تذبذب کا شکار نہیں، یہ اپنے مؤقف اور سوچ میں بہت واضح ہے کیونکہ حکومت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک جس نے مختصر عرصے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے جبکہ دوسری طرز کی حکومت نے مختصر عرصے کے لیے کام نہیں کرنا ہوتا بلکہ ایک فریضہ سرانجام دینا ہوتاہے۔ ہمارا تذبذب نہیں بلکہ پاکستان کے مقتدر اداروں سے، پاکستان کی سیاسی جماعتوں سے سوال ہے کہ کیا وہ ہمیں نگران حکومت سمجھتے ہیں، مگر ہم نگران حکومت نہیں، ہم نے انتخابات میں جانا ہے۔ ہم سخت فیصلوںکے بعد2023تک کام کرنا چاہتے ہیں۔ سخت فیصلوں سے مقبولیت میں فرق پڑے گا، جس کو بہتر گورننس اور معاملات سنبھال کر واپس لیا جاسکتا ہے۔ ہم یہ تقاضا کرتے ہیں کہ سخت فیصلوں کے بعد وہ تعاون دیں جس سے سیاسی استحکام رہے اور ہماری حکومت کو 2023 کا وقت مل پائے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ سارا بوجھ مسلم لیگ نون پر نہ رکھا جائے، اپنے اپنے بوجھ کو سب ادارے اور جماعتیں محسوس کریں۔ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد سے لمحہ موجود تک، یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نون معاشی میدان میں اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر فیصلے کر رہی ہے تاکہ عوامی سطح پر ناپسندیدگی کا سارا ملبہ اکیلے اِن پر نہ گرے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے پاکستان تحریکِ انصاف کو اقتدار سے محروم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یوں نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد دونوں جماعتوں کے لیے چیلنجز بھی بڑے ہیں۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون کی نسبت اپنے سیاسی مؤقف کے اظہار میں کسی نوع کے تذبذب سے پاک دکھائی دیتی ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے ضمن میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پہلے اصلاحاتی عمل کو مکمل کیا جائے، بعد میں الیکشن کی جانب جایا جائے۔کیافوری انتخابات کی بجائے انتخابی اصلاحات  و قانون سازی ہی پیپلز پارٹی کے پیش نظر ہے یا وجوہات دیگر ہیں۔ اس سوال کے جواب میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو جلد انتخابات کے انعقاد کا کوئی خوف نہیں۔ عمران خان نے جو ملک کی معاشی و دیگر شعبوں کی تباہی کی ہے، اُس تباہی کا حل انتخابات ہی ہیں، مگر انتخابات سے قبل کچھ لوازمات ہیں۔ انتخابات کے ضمن میں الیکشن کمیشن کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ انتخابی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ پہلے ان لوازمات کو پورا کیا جائے پھر بے شک اکتوبر تک انتخابات کی طرف جایا جائے۔
مسلم لیگ نون انتخابی مہم میں اُترے گی اور جلسے کرے گی اور دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے رہنما بھی جلسے کریں گے تو اُس وقت موجودہ بحث کا رُخ تبدیل ہوچکا ہوگا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو پنجاب کی سطح پر جلسے جلوسوں میں مریم نواز کی صورت کتنا بڑا چیلنج ہوسکتا ہے؟ عمران خان اور مریم نواز دونوں ہی عوام کے اندر مقبول ہیں۔ دونوں ہی سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ سخت زبان کا استعمال ہمارے ہاں زیادہ مقبولیت کھینچتا ہے۔ پھر یہ کہ مریم نواز ، شبہاز شریف کی نسبت زیادہ عوامی جلسے کرسکتی ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف 2013 والی جماعت نہیں ۔ اب یہ انتخابات لڑنے اور جیتنے کا تجربہ حاصل کر چکی ہے۔ اب حالات بہت مختلف ہو چکے ہیں۔ ہمارے لوگ تین تین چار چار بار الیکشن لڑچکے ہیں، علاوہ ازیں تگڑے اُمیدوار بھی ہمارے پاس ہیں۔ تاہم جماعت ان تینوں میں سے کوئی بھی ہو سب کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگ اپنے تئیں فیصلہ نہیں کرسکتے۔ ان پرسوشل میڈیا میڈیا ٹرینڈز بہت حد تک اثر انداز ہوئے ہیں، ہوتے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے اور بلاشبہ اس میدان میں ہی ٹی آئی سب سے آگے ہے اور بھی بھی حتمی دلیل ہے کہ اگر دیگر جماعتوں نے خود کو اس میدان میں مضبوط نہ کیا تو سب پٹ جائیں گی اور پی ٹی آئی میدان مار لے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button