Columnمحمد مبشر انوار

تجربہ … محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

سیاسی احتجاج کو بزور روکنے کا نقصان ہمیشہ حکومت وقت کو ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود نون لیگ اور ان کی اتحادی حکومت نے عمران خان کے لانگ مارچ کو طاقت سے روکنے کی حکمت عملی اپنائی، جس کا نقصان بہرطور جلدیا بدیر انہیں ہو گا۔عمران خان کا لانگ مارچ بظاہر اپنے انجام کو پہنچ گیا،وزیر داخلہ اپنے دعوے کو ثابت نہ کر سکے کہ عدالت عظمیٰ نے ان کے ہاتھ باندھ دئیے اور ان کے لیے بچ نکلنے کا راستہ فراہم کر دیا،البتہ لانگ مارچ سے قبل ہی وزیر داخلہ ،تیئس مارچ کو،اپنی طاقت کا بھرپور اور شتربے مہار مظاہرہ کرچکے تھے۔ اس مشق میں چادر اورچاردیواری کا تقدس جس بری طرح پامال ہوا،سوہوا لیکن اس کے دوران ایک افسوسناک واقعہ بھی پیش آیاکہ پنجاب پولیس کا ایک ملازم، دوران ریڈاپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ حکومت کی نظر میں یہ تحریک انصاف کے کارکنان کی دہشت گردی ہے جبکہ جس شہری کے ہاتھوں اس پولیس اہلکار کی جان گئی،

اس کے نزدیک یہ حق حفاظت خود اختیاری کا اظہار تھاتاہم ایک قیمتی جان اس کی نذر ہو گئی۔ قانون کی نظر میں کسی بھی صورت حق حفاظت خود اختیاری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاتاوقتیکہ پولیس اس ریڈ کا جواز فراہم نہ کرے،بظاہر تو اس ریڈ کا کوئی جواز نہیں تھا لیکن پولیس اور وزیرداخلہ سے توقع یہی ہے کہ وہ اس کا جواز بنا لیں گے لیکن اگر موقع پر بنائی گئی ویڈیوز کو بطور ثبوت تسلیم کر لیا گیا،جس میں پولیس اہلکار دیواریں پھلانگ رہے ہیں،تو دنیا کا کوئی قانون حق حفاظت خود اختیاری سے منکر نہیں ہو سکتا۔ شہریوں کو لانگ مارچ سے دو دن قبل ہی ایسے واقعات سے ہراساں کرنا شروع کر دیا گیا تا کہ وہ لانگ مارچ میں شریک ہونے سے قبل سو مرتبہ سوچیں،

 

لانگ مارچ کے دن بھی پولیس اور دیگر حفاظتی اداروں کی بھاری نفری پاکستان میں تعینات رہی،جس نے شہریوں کے لیے متحرک ہونا قریباً ناممکن بنا دیاکہ ہر
جگہ رکاوٹیں اور آنسو گیس ہی مظاہرین کا استقبال کرتی نظر آئی لہٰذا عمران خان کے دعوے کے مطابق بیس لاکھ افراد کا جم غفیر اسلام آباد نہ پہنچ سکا۔علاوہ ازیں!تحریک انصاف کا پلان بی بھی حقیقی معنوں میں بروئے کار نہ آ سکا اور ماسوائے نمائش چورنگی کراچی کے کسی اور جگہ مظاہرین اکٹھے نہ ہو سکے۔کئی ایک بڑے رہنما بھی گرفتار کرلیے گئے یا ازخود گرفتار ہوئے،اس کا اثر بھی شہریوں پر ہوا اور جلسوں کے برعکس انتہائی کم تعداد گھروں سے نکلی اوران میں سے اکثریت اسلام آباد کی طرف بھی نہ جا سکی۔بہرحال عمران خان اپنے منصوبے کے مطابق نہ تو لانگ مارچ میں مطلوبہ تعداد میں شہریوں کو اسلام آباد لا سکے اور نہ ہی انہوں نے دھرنا دیا بلکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق جلسہ کرکے ،مطالبات تسلیم کرنے کے لیے حکومت کو مزید چھ دن کی مہلت دے کردوبارہ لانگ مارچ کی تاریخ دے دی۔

قرائین یہی ہیں کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ضرور ہے،جس کے باعث عمران خان نے دھرنا دینے سے گریز کیا ہے حالانکہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت ایچ نائن پارک میں جلسہ کرنے کی تھی لیکن اس ہدایت کو نظر انداز کرکے عمران خان نے ڈی چوک میں ہی جلسہ کیا،جس
پر توہین عدالت کا صرف خدشہ ہی نہیں تھا بلکہ اگلے دن اس کی درخواست بھی عدالت کو دی گئی لیکن عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیا(تادم تحریر تفصیلی فیصلہ نہیں آیا)۔ عمران خان صرف ایک مطالبہ لیے گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے عوام میں موجود تھے اور انہیں اپنے اس مطالبے اور مؤقف میں زبردست عوامی پذیرائی حاصل تھی،پھر آخری لمحات میں عمران خان کیوں دھرنا دئیے بغیر چلے گئے؟عمران خان نے دھرنا نہیں دیا اور حکومت بظاہر ان اعصاب شکن حالات سے سرخرو نکلی تو پھر اسے اپنی مدت پوری کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ لیکن حکومت کی عجلت اور سرعت کسی اور منظر کی جھلک دکھا رہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں حکومت کو کورا جواب مل چکا ہے کہ جب تک سبسڈی ختم نہیں ہوتی،مالی امداد کی قسط جاری نہیں کی جائے گی۔

حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جن کی تائید اور یقین دہانی سے یہ اقتدار میں آئے،اس وقت وہ تنکے تک کا آسرا بننے کے روادار نہیں جب کہ اس کے برعکس وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ میں لگے ہیں،ایسی صورت میں حکومت کیا کرے یا کیا کرسکتی ہے؟کیا حکومت کو اپنے مفادات و مقاصد حاصل نہیں کرنے چاہئیں؟اس سوال کا جواب کسی بھی صورت نفی میں نہیں ہو سکتا اور حکومت میں آنے کا جو مقصد ہے،اس پر بھرپور عملدآمد شروع ہو چکا ہے کہ پہلے مرحلے میں انتخابی اصلاحات کرتے ہوئے حکومت نے اوورسیز ووٹرز کا حق رائے غصب کر لیا اور اس کے ساتھ ہی شفاف انتخاب کے لیے ای وی ایم مشین کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ان دواصلاحات سے ہی سابقہ حکمرانوں نے انتخاب جیتنے کے لیے اپنی راہ ہموار کر لی ہے،کہ ای وی ایم کی عدم موجودگی میں حسب سابق جس کا جہاں زور
چلے گا ،وہ دھاندلی کرکے ’’ووٹ کو بھرپورعزت دے گا‘‘،

جمہوری عمل کے ماتھے پر بدنامی و سیاہی کا کلنک ملا جائے گا(جو خیر پہلے ہی پاکستان میں ایک سوالیہ نشان رہا ہے)۔ اوورسیز حق رائے دہی مسترد کرنے کے حوالے سے حکومتی مؤقف ہے کہ اس طرح قادیانیوں کو حق رائے دہی سے روکنا مقصود ہے،لیکن دوسری طرف ’’مسلمانوں ‘‘کی ایک بڑی تعداد بھی حق رائے دہی سے محروم ہو رہی ہے،اس پر زرداری کا بیان زیادہ صائب معلوم ہوتا ہے کہ تارکین وطن گمراہ ہیں اور انہیں پاکستانی سیاست کے متعلق علم نہیں۔

تیسرا سب سے اہم بل نیب سے متعلق ہے کہ اس میں نیب کے نہ صرف پر کاٹے جائیں گے بلکہ اسے ایک عضو معطل بنایا جانا مقصود ہے،اس میں کسر تو خیر تحریک انصاف نے بھی نہیں چھوڑی تھی،لیکن موجودہ حکومت کے پیش نظر اپنے مقدمات سے گلو خلاصی کے لیے نیب کو مزید سکیڑنا ضروری ہے تا کہ بیرون ملک بیٹھے رہبرین کی واپسی ممکن ہو سکے۔ یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ یہ قوانین اسو قت تک منظور نہیں ہو سکیں گے جب تک سینیٹ بھی انہیں منظور نہ کر لے یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںان کی منظوری نہ ہو،شنید ہے کہ تا دم تحریر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کیا جا چکا ہے اور تحریک انصاف نئے انتخابات کی خاطر ان قوانین کی منظوری میں ساتھ دے گی۔تحریک انصاف کا ان قوانین کی منظوری میں ساتھ دینے کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف اپنے بنیادی منشور سے روگردانی توکرے گی ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن نشین کرلے کہ نئے انتخابات میں جس اکثریت کی خواہش رکھتی ہے،اسے کبھی نہیں ملے گی۔

جلسوں کی تعداد اور لانگ مارچ کی صورت حال کو پیش نظر رکھیں ،دیگر اہم ترین عوامل کو سامنے رکھیں،تو صرف اتنا عرض ہے کہ1997میں بے نظیر ایسے ہی حالات میں انتخابات میں گئی تھی اور ان کے حصہ میں صرف 17نشستیں آئی تھی،آج میڈیا جتنا بھی اہم ہو، انتخابی نتائج پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ اس سے زیادہ بیان کرنا مناسب نہیں کہ عقل مندوں کے لیے اشارہ کافی ہے اور سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں ،سوچنا ہی ہے کہ تب لائحہ عمل کیا ہوگا؟کیا پھر سڑکوں پر نکلیں گے اور اگر نکلیں گے تو کیا اس سے ملک میں استحکام ممکن ہو سکے گا،کہ یہ تو ظاہر ہے کا اگر شفاف انتخابات نہیں ہوتے توپس پردہ طاقتوروں کا ارادہ کیا ہے؟اور دوسری بات کیا یہ ضروری ہے کہ واقعتاً نئے انتخابات ہو بھی جائیں؟کیونکہ شنید ہے کہ اس مرتبہ نیا تجربہ کرنے کا ارادہ ہے اور ٹیکنو کریٹس کی ایسی عبوری حکومت لانے کے منصوبہ بندی ہے جو ہر طرح کے فیصلے کرنے میں آزاد ہو،یہاں سوائے مسکرانے کے اور کوئی چارہ نہیں کہ منتخب نمائندگان کو فیصلے کرنے کی آزادی تو میسر نہیں لیکن ٹیکنو کریٹس کو فیصلے کرنے کی آزادی ہوگی،

ملکی معیشت کو ٹھیک کریں،اصلاحات کریںاور ملک کو ایک واضح سمت دیں۔بالفرض تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ ساری باتیں کماحقہ ایسے ہی رو پذیر ہوجاتی ہیں(جس کی امید کم ہے)تو کیا ہماری سیاسی اشرافیہ اور مقتدرہ اس کو من و عن یونہی قبول کر لیں گے؟پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں اول تو پالیسیوں کو مستقل بنیادوں پر بنایا ہی نہیں گیا اور جو پالیسیاں روبہ عمل ہوتی،انہیں نئی حکومتیں بیک جنبش قلم ختم کرنے میں کبھی عار محسوس ہی نہیں کرتی۔ ایسی کسی بھی پالیسی کا تسلسل ،جو ملکی مفاد میں تو ہو لیکن ذاتی مفاد سے میل نہ کھاتی ہو،فی الفور تبدیل کر دی جاتی ہے یا منسوخ کر دی جاتی ہے،اس کا ایک عملی حالیہ مظاہرہ انتخابی اصلاحات کی صورت سامنے ہے۔بہرکیف ٹیکنو کریٹس کی عبوری حکومت کا نیا تجربہ کیا رنگ لاتا ہے،وقت کے ساتھ سامنے آتا جائے گاکہ قانون سازی میں حکومتی عجلت اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ روانگی قریب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button