Columnمحمد مبشر انوار

محاذ آرائی۔۔۔ .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

جب سے شعور سنبھالا ہے ، ہمیشہ دو باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ پاکستان اس وقت نازک ترین دور سے گذر رہا ہے یا شدید بحران کا شکا رہے۔ ان دونوں باتوں کے علاوہ کسی تیسری بات کاذکر کم ہی سننے کو ملا ، البتہ بسا اوقات ،منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے،چند ایک دفاعی اعتبار سے خوشخبریاں یا مضبوط دفاع کی نوید ضرور سننے کوملتی رہتی ہے کہ جب سے پاکستان نے ایٹم بم کا دھماکہ کیا ہے،اس کے بعد سے مسلسل ایک طرف میزائلوں کے کامیاب تجربات ہیں تو دوسری طرف تھنڈر 17جیسے طیارے اور تیسری طرف خالد ٹینک جیسے ہتھیار مسلسل دفاع کا حصہ بن رہے ہیں۔ سویلین اداروں کی طرف دیکھیں تو اِکا دُکا انفرادی کارکردگی کے سواکوئی قابل ذکر کارکردگی نظر نہیں آتی اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ نہ صرف سویلین ادارے ترقی معکوس کا شکار اور زوال پذیر ہیں بلکہ عوامی نمائندے تک اخلاقی اعتبار سے مزید زوال پذیرہوچکے ہیں۔عوامی نمائندگان میں عدم برداشت، تشدد ،انا پرستی،شخصیت پرستی اور ہٹ دھرمی وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہوئی ہیں اور ان سب عادات کی وجہ سے جو خطرناک ترین سوچ پروان چڑھ چکی ہے، وہ ذاتی مفادات کا تحفظ ہے کہ اس پر یہ نمائندگان کسی بھی صورت سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ نظریاتی سیاست، قریباً ہر جمہوری ملک میں یا تو مسلمہ طورپر رائج ہے وگرنہ مسلسل جمہوری عمل اس نظریاتی سیاست کو فروغ دیتا نظر آتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نہ صرف غیر سیاسی سوچ جڑ پکڑ چکی ہے بلکہ نظریاتی سیاست ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتی۔ جنرل ضیاء کے دورمیں گو کہ سیاسی سرگرمیوں پر کڑی پابندی تھی لیکن اس وقت بھٹو اِزم کا طوطی ملک کے طول و عرض میں بولتا اور نظریات کے حوالے سے بھٹو ایک مثال بن چکا تھا۔اس سیاسی میراث کا قلع قمع کرنے کے لیے ہر راستہ اپنایا گیا، ملک گیر قومی سیاسی جماعت کے راستے ایجنسیوں نے پنجاب میں بند کئے،لسانیت و مسالک فروغ دینے کی شعوری کوششوں میں ایک طرف ایم کیو ایم اور دوسری مسلح تنظیموں کی سرپرستی کی گئی اور اس مشق میں سیاسی عدم برداشت کے کلچر نے جنم لیا، مسلسل تیس سال تک اس کلچر کی آبیاری بڑی جانفشانی سے کی گئی، سیاسی اولاد کو ہر طرح سے سہولت بہم پہنچائی گئی اور نازونخرے برداشت کئے گئے، سول اداروںمیں ہونے والی تباہ کن واردات سے نظریں چرائی گئیں، جس کے نتیجہ میں سول ادارے تباہی کے دھانے پر پہنچ گئے۔افسر شاہی میں ریاست کی وفاداری ثانوی حیثیت اختیار کر گئی اور شاہی خاندان(جو تقرر تبادلوں اور تعیناتیوں پر قابض ہو گئے)کے ذاتی غلام بننے کی روش عام ہو گئی کہ جتنی وفاداری شاہی خاندان کے کسی رکن کی جاتی،اتنا زیادہ ’’نوازا‘‘جاتا،اسی قدر’’زر‘‘ میں تولا جاتا۔

وفاقی اکائیوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن قائم نہ کرنے کی روش کو پسند کیا جاتا،جو کلیتاً جمہوری سوچ کے برعکس ہے کہ سیاسی سوچ رکھنے والے قائدین کا مزاج تو بنیادی طور پر مذاکرات کی مٹی میں گندھا ہوتا ہے اور وہ ہر طرح کے حالات میں مخالفین کے ساتھ میز پر بیٹھ کر نہ صرف مذاکرات کرتے ہیں بلکہ اپنے اور عوام کے لیے ممکنہ سہولتیں کشید کرتے نظر آتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی مثالیں دن بدن کم ہوتی نظر آتی ہیں بلکہ قریباً ناپید ہوچکی ہیں،موجودہ صورتحال میں کل تک باہم دست و گریباں رہنے والی سیاسی جماعتیں اس وقت بظاہر دو جسم ایک جان دکھائی دے رہی ہیں لیکن حقیقتاً پس پردہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کے ساتھ شامل دیگر سب جماعتیں بخوبی واقف ہیں کہ ان کا یہ اتحاد صرف اپنی اجارہ داری بچانے کے لیے ہے کہ اس وقت ایک مختلف سیاسی قوت میدان میں موجود ہے۔گو کہ اس نئی سیاسی قوت نے بقول پرانی سیاسی جماعتوں،فوری طور پر کوئی ایسا بڑا کارنامہ کرکے نہیں دکھایا کہ جس کے بل بوتے پر ان سیاسی حماعتوں کو کوئی خاص پریشانی ہوتی بلکہ اس کے برعکس اس نئی قوت نے عوام کا بھرکس نکال دیا ،جبکہ گھاگ سیاستدانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ چونکہ زیادہ تجربہ کار اور امور حکومت کو بہتر سمجھتے ہیں،اس لیے وہ ملکی معیشت کو سنبھال سکتے ہیں،لہٰذا اس نئی قوت کو وقت سے پہلے ہی گھر بھیج کر حکومت سنبھال چکے ہیں۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ نئی قوت چیختی چلاتی رہی کہ وہ اپنے آخری سال میں عوام کو ریلیف دے گی لیکن اس کو اپنی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی جبکہ تجربہ کاروں کے حکومت میں آتے ہی،ان کی چیخ و پکار اور معاشی صورتحال کی ناگفتہ بہ حالت کا رونا،حد یہ کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت اور گرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ ،ان تجربہ کاروں کی حقیقت بیان کر رہی ہے یا جانے والے کا الزام کہ یہ گھاگ اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیں گے۔

ویسے عمران خان پر بھی شدید حیرت ہوتی ہے کہ دنیابھر کے سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرتے رہے لیکن اپنی اپوزیشن سے بات نہیں کی اور نہ ہی اب بھی کرنے کے لیے تیار ہیں البتہ ان سے بات چیت کے لیے ’’کسی‘‘ اور کو اجازت دئیے رکھی اور جب اس اجازت نے رنگ دکھا دیا تو اب شدید ترین غصے کے عالم میں نظر آتے ہیں۔اس سے بھی زیادہ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب لمحہ موجود میں نون لیگ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ یہ سب مقتدرہ کا کیا دھرا ہے جو عمران کو دوتہائی اکثریت دلانے کے چکر میں اسے ہیرو بنا رہی ہے، عجیب بھونڈی سی دلیل ہے کہ اگر مقتدرہ عمران کو یوں ہیرو بنارہی ہے۔ کیا یہ کسی فلم کا سکرپٹ ہے؟کوئی شوٹنگ ہورہی ہے؟ایک طرف عمران خود یہ اقرار کر رہا ہے کہ اپنی حکومت کے آخری سال وہ عوام کو تگڑا ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہو گا،اس صورت میں مقتدرہ کو عمران کو اس طرح ہٹانے کی کیا ضرورت تھی؟کیا عمران اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اکثریت نہ حاصل کر لیتا؟دوسرا رخ اگر عمران کے الزام کو سامنے رکھیں تو اسے تسلیم نہ کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ امپورٹڈ حکومت کو لانے کا مقصد اس کی معاشی اصلاحات کو تباہ کرنا اور بیرونی آقاؤں کی خدمت بجا لانا ہے،کہ اس وقت ملکی معاشی ماہر کھل کر اس حقیقت کا اظہاراعدادوشمار کی بنیاد پر کررہے ہیں کہ عمران کے دور حکومت میں،تمام تر مسائل کے باوجود ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن تھی۔ ایوب خان دور کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اعدادوشمار کی روشنی میں ملکی معیشت اس رفتار سے روزافزوں ترقی کررہی تھی ،جس کو امریکی آشیرباد پر روک دیا گیا ہے۔

عمران خان اس وقت سڑکوں پر ہے اور کل تک اداروں پر شدید تنقید کرر ہے تھے لیکن گذشتہ دنوں میں ہونے والے چند ایک فیصلوں کے بعد،اداروں پر ان کا لب و لہجہ قدرے ٹھنڈا نظر آ رہا ہے لیکن اس حکومت کو وہ ابھی بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہر صورت نئے انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔لندن یاترا اور نون لیگ کے سینئر مرکزی رہنماؤں کے بیانات سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت انتخابات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہے لیکن اتحادیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد صورتحال ففٹی ففٹی نظر آ رہی ہے اور مدت پوری کرنے کے اشارے مل رہے ہیں اور عمران خان کے احتجاج سے وزیرداخلہ اپنے من پسند طریقے’’آہنی ہاتھ‘‘سے نپٹنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا اور ہم بھی تاریخ کے وہی طالبعلم ہیں جنہوں نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھنے کا عہد کررکھا ہے،ووٹ کو عزت دینے والے، ووٹ کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں،مگر ماننے والے تیار نہیں،قانون کی بالادستی کا راگ الاپنے والے،من پسند قانونی فیصلوں کو پسند کرتے ہیں،ملکی وقارکو مدنظر رکھنے والے ،سڑکوں پرملکی وقار کو لٹانے کے لیے تیار ہیں۔ عالمی حالات کے پس منظر میں ،کیا سیاسی قائدین مل بیٹھ کرملک کو بچانے کی کوئی تدبیر کر پائیں گے؟کیا دیوالیہ ہونے کے قریب ملک کو بچانے کے لیے اپنے غیر ملکی اثاثوں کو پاکستان لائیں گے؟کیا موجودہ محاذآرائی کسی بھی صورت ملکی مفاد و وقار میں ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button